زکریا سلطان۔ ریاض
ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ ان کی زیادہ تر غزلیں نماز کی حالت میں مکمل ہوئی ہیں! یقین جانیں ہم بھی ابھی ابھی نماز سے آکر مضمون لکھنے بیٹھے ہیں، اللہ معاف کرے!!! شاید اسی لیے سلام پھیرنے کے فوری بعد استغفار پڑھنے اور اللہ سے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے کہ حالتِ نماز میں اِدھر اُدھر کے خیالات اور وسوسے آتے ہیں۔
بعض حضرات مسلسل بولتے رہتے ہیں، اس قدر بولتے ہیں کہ اسے خبط یا جنون کہا جا سکتا ہے، جہاں دیکھو ان ہی کا بیان، ان ہی کی تقریر ان ہی کی لن ترانی اور بحث، ان سے نہ کوئی اخبار چھوٹتا ہے اور نہ ٹی وی۔ ہر وقت من کی بات، جذباتی تقاریر، الٹی سیدھی بیان بازی ۔گمان ہوتا ہے کہ نیند میں بھی وہ یقینا تقریر کرتے ہوں گے، وہ سمجھتے ہیں دنیا کے سب سے بڑے لائق و دانشوروہی ہیں اور ان کے بغیر پتا نہیں ہل سکتا اور نہ کسی کی دال گل سکتی ہے، حالانکہ سیر کو سوا سیر لگا ہوا ہے اور ان سے زیادہ عیار و شاطرمالدار طاقتور اور رفتار و گفتار کے غازی ان سے اوپرکی صفوں میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان کے سر پر سوار ہیں جن کے ہاتھ میں ان کا ریموٹ کنٹرول ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ جاہل عوام میں وہ ڈینگیں مارتے ہوئے الٹی سیدھی بگھار کر اپنے آپ کو بہت قابل، طاقتور اور ناقابل تسخیر بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم نے ایسا کردیا ویسا کردیا ہم چاہیں تو ایسا کردیں ویسا کردیں وغیرہ وغیرہ مگر ان کے چاہنے اور شیخی بگھارنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔وہی ہوتا ہے جو منظورِخدا ہوتا ہے۔بزرگ کہتے ہیں بڑا بول مت بولو۔ پہلے تولو پھر بولو۔حقیقت میں بڑا آدمی وہ ہوتا ہے جسے دوسرے لوگ بڑا آدمی سمجھیں اور دل و جان سے اخلاص کے ساتھ بغیر کسی غرض کے اس سے بے لوث محبت کریں، اس کا ادب و احترام اور تعظیم کریں ، اس کے غیاب میں اس کی پیٹھ پیچھے بھی اس کی تعریف و توصیف کرنے میں کسی قسم کا تردد محسوس نہ کریں۔ بات اگر الٹی ہو اور کسی غرض و لالچ یا اس سے کوئی کام نکالنے یا اپنا بزنس چکمانے یا پھراس کے ظلم و شر سے بچنے کے لیے اس کی تعریف کے قصیدے پڑھے جائیں اور منہ پر تعریف کرکے اس کی نظر میں اپنے آپ کو اس کا بہت بڑا مدد گار اور حامی ظاہر کرنے کی کوشش کرے تو سمجھئے کہ یہ چاپلوسی ہے اور ایسا کرنے والابزدل چمچہ ہے اور جس کی چمچہ گیری کی جارہی ہے وہ بڑا نہیں دہی بڑا ہے، چھچورا ہے شیخی خورا ہے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈروں نے کتے پال رکھے ہیں، ان پارٹیوں میں شیو سینا اور بی جے پی بھی شامل ہے۔جن پارٹیوں اور لیڈروں نے کتوں کو پال کر رکھا ہے، انہیں یہ ضرور یاد رکھنا چاہیے کہ خواہ کتاکتنا ہی وفادار ذہین اور تربیت یافتہ کیوں نہ ہو کتا آخر کتا ہی ہوتا ہے اور کبھی بھی کتا پن اور کتے چالے کر سکتا ہے۔کتے کی نیت کبھی نہیںبھرتی، کبھی بھی بھونک سکتا ہے، کاٹ سکتا ہے، بغاوت کرسکتا ہے ۔ہر وقت وہ اِس آس میں رہتا ہے کہ شاید کہیںکچھ کھانے کو مل جائے۔ لالچ کے مارے وہ ہر وقت زبان لٹکائے ہانپتا کانپتا کھڑا رہتا ہے۔کھانے پینے کے معاملہ میں وہ کبھی کسی دوسرے کتے کو برداشت نہیں کرتا ۔کتے کا غرانا اس کا بھونکنا اور کاٹنا بھی مشہور ہے۔ کتے کے سامنے ہڈی ڈالو دم ہلاتا رہے گا جیسے محاورے بھی اکثر بولے جاتے ہیں۔عموماً کتے آپس میں متحد ہوتے ہیں اور وہ کسی دوسری گلی یا علاقہ کے کتوں کو اپنی حدود میں داخل ہونے نہیں دیتے، سب مل کر اجنبی کتوں کا مقابلہ کرکے انہیں دم دبا کر بھاگنے پرمجبورکردیتے ہیں، مگر آج کل کتوں کی عادتیں بھی بدل گئی ہیں چنانچہ وہ استثنائی صورت میں جب انہیں ڈھیر سارے چھچھڑے اور ہڈیاں پیش کی جاتی ہیں تو وہ دوسری گلی کے کتوں کو بھی گلے لگانے اور ان کے ساتھ مل کر بھونکنے اور کاٹنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں اس لیے کہ اب ان کا ضمیر بھی مر چکا ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ کئی لیڈر اپنے مالکین (رائے دہندوں) سے بغاوت کرتے ہوئے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچاکر ان سے غداری کرکے دوسری جماعتوں میں شامل ہورہے ہیں تو اس عمل سے ان کی بھی ہمت بڑھی اورحوصلہ ملا چنانچہ انہوں نے بھی اپنی وفاداریاں بدلنا شروع کردیا۔
ہندوستان کی سب سے بڑی اور مالی وسائل سے بھری ریاست مہاراشٹرا میں شیوسینا کی مخلوط حکومت اپنے ہی اراکین کی بغاوت کے بعد گرگئی یا گرادی گئی ہے۔ واضح رہے کہ کسی زمانہ میں بال ٹھاکرے کی شیوسینا کو ناقابل تسخیر پارٹی سمجھا جاتا تھا مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہر سیر کو سوا سیر لگا ہوا ہے۔ دوسری جانب بہار اسمبلی میں اسد الدین اویسی کے پانچ اراکین اسمبلی میں سے چار یعنی80 فیصد نے پارٹی قیادت کو ٹاٹا بائے بائے کہتے ہوئے تیجسوی یادو کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل میں شمولیت اختیار کرلی۔چند روز قبل اویسی نے 32 مسلم اراکین کو اترپردیش اسمبلی پہنچانے والی اکھلیش کی ایس پی کو بے کار پارٹی قرار دے کر مسلمانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ایس پی کو ووٹ نہ دیںا! لوگ ان سے سوال کررہے ہیں کہ آپ نے کتنے اراکین کو منتخب کرواکر یوپی اسمبلی میں بھیجا ہے؟ قارئین کو یاد ہوگا کہ بہار اسمبلی کے انتخابات میں اسدالدین اویسی کی ایم آئی ایم نے مبینہ طورپر آرجے ڈی کو شدید نقصان پہنچا کر بی جے پی کی مدد کی تھی اور راشٹریہ جنتادل کو اقتدار سے دور رکھا تھا مگرپھر یہا ںبھی سیر کو سوا سیر والی کہاوت سچ ثابت ہوئی ۔لوگ کہہ رہے ہیں جیسی کرنی ویسی بھرنی! سنا ہے کہ بہار، بنگال اور اترپردیش کے بعد اویسی کی ایم آئی ایم اب گجرات کا رخ کرنے والی ہے۔ اللہ خیر کرے۔