نصرت فاطمہ
جی ہاں! ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ گیارہ منٹ آپ کو کسی سے متاثر کرنے کے لیے کافی ہوجاتے ہیں۔ہم نے سوچا کہ گیارہ منٹ بہت ہیں۔ ہمارا کالم تو پانچ منٹ بھی نہیں لیتا۔
کہیں راہول گاندھی بھارت جوڑو یاترا میں اپنی سفید ٹی شرٹ پہن کر یہ کام بخوبی انجام دے رہے ہیں اور کہیں ہم نے ہمارے عزت مآب وزیراعظم کو اپنی ماں (مرحومہ) کے ساتھ دعائیں لیتے (آن کیمرہ) اور بات چیت کرتے دیکھا جب وہ حیات تھیں اور متاثر ہوئے..لیکن پھر جب یہ خبر پڑھی کہ ان کی بیچاری اہلیہ (جو پہلے ہی نظر انداز کیے جانے کی تکلیف سہہ رہی ہیں) ان کو اپنی ساس مرحومہ کے دیدار کی اجازت تک نہیں دی گئی تو ہمیں حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا کہ ماں کے ”خدمت گزار“ بیٹے نے بیوی کو ہمیشہ نظر انداز ہی کیا ہے۔ مزید خبروں کی بات کریں تو پچھلی کچھ خبروں کے مطابق”متاثر” کرنے کے لیے لوگ کیا کیا نہیں کرتے۔ چاہے وہ "ضرورت” یا "حاجت” کو انجام دینا ہی کیوں نہ ہو۔(ویسے ہم یہ الفاظ حاجت اور ضرورت اپنے مدرسہ میں استعمال کیا کرتے تھے کہ استاد کے سامنے ادب ملحوظ رکھا جاتا تھا) ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ ضرورت کو انجام دینے کے لیے تو فلائٹ میں ٹوائلٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔ پھر انہیں ایسی بھی کیا جلدی تھی (متاثر کرنے کی) کہ جگہ دیکھی نہ مقام، فلائٹ میں سفر کرتے ہوئے مزید یہ کہ بزنس کلاس میں کسی ساتھی مسافر کے اوپر.. استغفراللہ…ایسی خبر تھی کہ خبر کی سرخی پڑھ کر ہی ہم نے سوچا کہ اخبار والوں کو کیسی کیسی خبروں کی ہیڈ لائن بنانی پڑتی ہے کہ کوئی ان سے پوچھے۔ انگریزی میں تو اس کو ایک ہی لفظ ”پی انگ انسیڈنٹ“ لکھ دو، بات ختم۔ اصل مسئلہ تو اردو میں لکھنے میں پیش آیا ہوگا۔ خیر تو ہم نے پھر یہ بھی سوچا کہ اصل ”متاثرین“ تو وہ ہوئے جن کے ساتھ یہ کراہت آمیز واقعہ پیش آیا اور یہ ایک پر ہی اکتفا نہیں، ایسے لگاتار کئی شرمناک واقعات سامنے آچکے ہیں۔ سچی بات ہے کہ ان واقعات کے بعد فلائٹ کے سفر سے خوف آنے لگا ہے۔ ان سے اچھے تو ایک آرڈنری بس کے مسافر ہوئے کہ بیچارے گنوار ہونے کے باوجود ایسی حرکتیں نہیں کرتے۔ ان مکروہ حرکتوں کے بارے میں سن کر یہ بھی اندازہ ہوا کہ تمیز اور تہذیب کا تعلق تعلیم اور عہدے سے نہیں ہوتا۔ جن کو ہم اپر کلاس سمجھتے ہیں ان کی اصلیت شراب کے نشے میں سامنے آجاتی ہے۔
خبروں کے مطابق کہیں پرنس ہیری کا فخریہ بیان کہ میں نے ۲۵ لوگوں کو مار گرایا، بڑی ہی اوچھی اور غیر انسانی حرکت لگی متاثر کرنے کی۔ وہ شاید اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے۔ جبکہ حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے۔ ایک مرتبہ ایک سپاہی نے ٹیپو سلطان سے پوچھا، ”کیا یہ درست ہے کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے؟“
ٹیپو سلطان نے جواب دیا، ”یہ انگریزوں کی خود اخذ کی گئی بات ہے، جو دراصل اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا بہانہ ہے۔ ہماری روایات تو یہ ہیں کہ محبت اور جنگ میں جو کچھ بھی کیا جائے وہ منصفانہ ہونا چاہیے۔“
ویسے جائز تو یہ بھی بالکل نہیں ہے کہ پچاس ہزار افراد کو بے گھر ہونے کا نوٹس بھیج دیا جائے۔ ایسی ظالمانہ خبریں ذہن و دل کو کچھ یوں متاثر کرتی ہیں کہ بے اختیار ان مظلوموں کے حق میں دل سے دعا نکل پڑتی ہے۔
خبروں کے علاوہ عام طور پر ہم اپنی زندگی میں کافی مرتبہ متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی کے اچھے اخلاق سے تو کبھی کسی کی دل شکنی سے۔ کبھی موسم متاثر کرتا ہے تو کبھی موسمی اثرات متاثر کرجاتے ہیں۔ حسب حال یہی کہیں گے کہ
نہ جانے کب کوئی آشوب تم کو آگھیرے
عجیب وقت ہے، دست دعا دراز رکھو
جیسا کہ ہم نے شروع میں آپ سے گیارہ منٹ کا ذکر کیا تھا، ہم بس اتنا کہیں گے کہ ان سب میں سے آپ کسی ایک کا تجربہ تو کر ہی سکتے ہیں۔ (آخری والا تو شاید کر بھی چکے ہوں)
شرابی کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھیں، آپ کو زندگی آسان لگے گی۔
کسی فقیر یا سنیاسی کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھ کر دیکھیں، آپ کو اپنا مال خیرات کردینے کی خواہش پیدا ہوگی۔
کسی سیاسی لیڈر کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھیں،آپ کو لگے گا آپ کی ساری پڑھائی بیکار ہے۔
لائف انشورنس ایجنٹ کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھیں،آپ کو لگے گا کہ جینے سے مرنا کہیں بہتر ہے۔
کسی تاجر کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھیں،آپ کو اپنی کمائی بہت کم لگے گی۔
کسی سائنس داں یا مفکر کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھیں،آپ خود کو لاعلم محسوس کریں گے۔
اچھے استاد کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھیں،آپ کے اندر کا طالب علم جاگ اٹھے گا۔
کسی کسان یا مزدور کو گیارہ منٹ کام کرتے دیکھ کر آپ خود کو کاہل اور سست محسوس کریں گے۔
اسی طرح ایک اچھے دوست کے ساتھ گیارہ منٹ بیٹھ کر آپ خود کو خوش نصیب سمجھیں گے۔
اور اسی پر بس نہیں…
اپنی بیوی کے سامنے گیارہ منٹ بیٹھ کر دیکھ لیں (گیارہ منٹ بہت ہیں) آپ کو یقین ہوجائے گا کہ ایک بیکار ترین انسان ہیں۔