مذہب

ضرورت سے زیادہ مساجد کی تعمیردین کی خدمت یا کچھ اور…

اللہ رب العزت کتاب ہدایت میں ارشاد فرماتا ہے ‘ اللہ کی مساجد کو آباد کرنا تو اس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ‘ نماز قائم کرے اور اور اللہ کے سواء کسی سے نہ ڈرے امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے ۔ (القرآن)

مجاہد ہاشمی
(معتمد عمومی عوامی مجلس عمل)

اللہ رب العزت کتاب ہدایت میں ارشاد فرماتا ہے ‘ اللہ کی مساجد کو آباد کرنا تو اس کا کام ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے ‘ نماز قائم کرے اور اور اللہ کے سواء کسی سے نہ ڈرے امید ہے کہ ایسے ہی لوگ ہدایت یافتہ ہوں گے ۔ (القرآن)

مساجد تو اللہ کی عبادت کے لئے تعمیر کی جاتی ہیں جس میں پنج وقتہ نمازوں کے علاوہ جمعہ کا مخصوص خطبہ و دیگر مواعظ و اجتماعات کے ذریعہ اسلامی تعلیمات و احکامات پر عمل آوری کی تلقین کی جاتی ہے۔

اللہ رب العزت نے مساجد کو تعمیر کرنے اور آباد کرنے والوں کی صفات بتائی ہیں اس میں ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اللہ کے سواء کسی سے نہ ڈرے۔ یعنی حق و باطل کی معرکہ آرئی میں باطل کے کسی دباؤ کو قبول نہ کرے حق پر ثابت قدم رہیں ڈٹ جائیں کیو ںکہ ادیانِ باطل کی بنیاد ہی پر کلمہ حق سے ضرب کاری لگتی ہے ۔ کلمہ حق میں سب سے پہلے ہم انکار کرتے ہیں ان معبودانِ باطل کا جس کو کافر پوجتے ہیں اس کے بعد ہم اللہ کے وحدہ لاشریک ہونے کا اقرار کرتے ہیں جس کو کفر ٹھنڈے پیٹ قبول نہیں کرتا۔ مساجد کیوں کہ اسلام کا مرکز ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کو مرکز بنایا تھا جہاں پنج وقتہ نمازوں جمعہ کا مخصوص خطبہ و نماز کی ادائیگی کے ساتھ آپسی تنازعات کے فیصلے ہوا کرتے تھے‘ صحابہ کرام کی تعلیم کا مرکز بھی مسجد ہی تھی۔ بیرونی ممالک کے سفراء کو مسجد نبوی ﷺ میں ٹھہرایا گیا‘ جنگوں کے مشورے مسجد ہی میں ہوئے‘ یہیں پر زکواۃ کی وصوصلی و تقسیم کا نظم تھا جنگ کے لئے مسلمانوں سے مسجد ہی میں عطیات وصول اور جمع کئے گئے۔ مسجد میں ہی جمع مسلمانوں کو جنگ پر ابھارا گیا غرض مسجد کو مرکزی مقام حاصل ہے۔

لیکن آج مساجد کو مخصوص مسلکوں میں مقید کردیا گیا ہے اور مسجد کے امام و خطیب کی ذمہ داری مسلک کے دائرے تک محدود ہوکر رہ گئی ہے اور مجلس انتظامی کے صدر (بادشاہ) تنخواہوں کی ادائیگی کچھ تعمیر و ترمیم و رنگ و روغن کی حد تک محدود ہیں ان کا معاشرے کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ‘ بس چند عبادات و رسومات کی ادائیگی اس کا مقصد زندگی ہے اگر کسی خطیب و واعظ نے کمال کردیا تو صرف اتنا کہ وہ اپنی تقریر سے لوگوں کے ذہن فہم و فکر اور شعور کو اپنے پاس رہن رکھ لیے لوگوں کا تعلق اپنی ذات سے مضبوط کرلے لوگ اس کا ہاتھ چومنے والے قدم بوسی کرنے والے ‘ ہاتھ پیر دابنے والے بن جائیں اور اپنی زکواۃ ‘ عطیات‘ صدقات ‘ اس کی نذر کردیں اس کی کوششیں کبھی یہ نہیں ہوتیں کہ وہ مسلمانوں میں وہ نظم و اتحاد و طاقت پیدا کرے۔ جو خود کی حفاظت کرسکیں‘ مساجد اور محلے کی حفاظت کرسکیں‘ نہ معاشرے میں کوئی ایسا فائدہ ہو جو حکم دے اور اس کے حکم کی تعمیل میں منظم انداز میں مقابلہ ہوسکے اور مساجد اور گھروں پر حملہ کرنے والے حفاظت پر مامور اللہ کے ان بندوں کی شان دیکھے جن سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ تم میں اگر دس ثابت قدم رہیں گے تو ایک سوپر غالب آؤ گے لیکن یہ تب ہوگا جب مسلمان مساجد کو مرکز بنائیں گے متحد و منظم ہوں گے جس کے امام وخطیب مسلک کے نہیں دین کے سپاہی بنیں مساجد کی مجلس انتظامی کے ذمہ داران محض تنخواہوں و چندوں تک محدود نہ رہیں جن کی زندگی کا مقصد هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ہو۔

ہم نے اپنی نبیؐ کو دین حق کے ساتھ اس لیے بھیجا کہ وہ تمام ادیان باطل پر دین حق کو غالب کردیں خواہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

جو اپنے مقصد ہی سے راہ فرار اختیار کرے جو اپنے آپ کو محدود دائرے میں سکیڑ لے وہ اس قوم کا کیا مقابلہ کرسکے گا جو دن رات آپ کو مٹانے کیلئے سرگرم ہے جس کے بچے ‘ نوجوان‘ ادھیڑ‘ بوڑھے‘ خواتین محنت کررہے ہیوں منظم ہوں‘ متحد ہوں جہاں حکم دینے والا حکم ماننے والے‘ عمل پیرا ہونے والے آپ کو مٹانے کیلئے فن سپاہ گری کا ہر فن سیکھنے والے عصری ہتھیار رکھنے والے چلانے کا فن جاننے والے ‘ عز ت والے حوصلے والے جنہیں کامیابیاں نصیب ہورہی ہیں‘ جو آپ کی شریعت میں مداخلت کے بعد قتل و غارت گری کا طوفان مچانے کے بعد بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بعد‘ کاشی اور متھرا کی مساجد کا ہدف حاصل کرنے کے لئے قدم آگے بڑھارہے ہیں اور آگے چل کر کعبۃ اللہ کو مندر قراردیتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

کیا ان حقائق نے ملت اسلامیہ کو امت واحدہ بنایا‘ منظم کیا‘ متحد کیا اس کے لئے محلے کی سطح پر وفاق المساجد کے ذریعہ کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا یا صرف پچاس پچاس قدم کی دوری پر مساجد کی تعمیر اس لئے ہورہی ہے کہ اس مسلک کے جواب میں ہمارے مسلک کی مسجد ہو‘ ایک جماعت کے دو دھڑے ہوگئے تو اس دھڑے نے مسجد تعمیر کی اور اس کو اپنا مرکز بنالیا ‘ مقصد صرف مسلک و جماعت ہو تو کیا تم کامیاب ہوسکو گے وہ قوم اپنا سرمایہ اسلام و مسلم دشمنی میںنچلی ذات کے لوگوں صف اول کے سپاہی ہیں۔

تم اگر اپنا سرمایہ غیر ضروری مساجد کی تعمیر میں لگایا تو آگے وہ مساجد محفوظ رہیں گی۔

جس امت کے مالدار محلے میں اپنے نام کی خاطر مسجد کو اے سی بنانے ‘ سنگ مرمرلگانے اور اعلیٰ سے اعلیٰ کارپٹ لگانے میں خرچ کرلیں اور مال حرام ہو تو خندہ پیشانی سے جس کو قبول کرلیا جائے ان کی ہوا ایسی اکھڑ جائے گی کہ جیسے یہ زمین میں بسے ہی نہ تھے۔

مساجدپر چلنے والے بلڈوزر ان کو امت واحدہ کے رشتے میں جوڑ نہ سکے ‘ مدارس پر چلنے والے بلڈوزر ان کو اپنے مسلک کے خول سے آزاد نہ کرسکے‘ مسلمانوں کے گھروں و کھیتوں پر چلنے والے بلڈوزر ورحماء بینہم و اشداء علی الکفار کی کیفیت پیدا نہ کرسکے ‘ مسلم بیٹیوں کے ارتداد کی لہر ان میں حمیت و غیرت کو جگا نہ سکی اور وہ بدستور اپنے خیالوں کے مزین محلات میں مگن ہیں کہ وہ دین کی بہتر خدمت انجام دے رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ : فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ‎ (سورہ مومنون ۔ ۵۳)

پھر لوگوں نے اپنے (دین کے) کاموں کو آپس میں ٹکڑے ٹکڑے کرلیا ۔ ہرگروہ کے پاس جو کچھ ہے وہ اس میں مگن ہے(القرآن۔ سورہ المومنون ۔ آیت۔۵۳)

ان حالات میں کیا کریں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ (سورہ رعد۔ آیت۔ ۱۱)

محلے کی سطح پر پانچ تا دس مساجد پر مشتمل مساجد کا وفاق تشکیل دےا جائے جو علاقے کو منظم و متحد کرے ‘ اصلاح معاشرہ کاکام انجام دے ‘ آپسی اختلافات کی ‘ مساجد میں یکسوئی ہو ‘ نوجوانوں کی صحت و تندرستی کے اور ان کی صلاحیتوں کے فروغ و استعمال کا انتظام کیا جائے ‘ ہر وہ کام کرنے کی جستجو کریں جس سے معاشرہ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا بنے ۔ زندگی کا مقصد غلبہ اسلام سے سرشار ہو تو ان شاء اللہ ‘ اللہ کی مدد آئے گی اور جس طرح ہمارے آقا رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہند سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں تو ان ٹھنڈی ہواؤں کا موجب بنتیں اللہ اور رسول کی محبت میں اس جذبے سے سرشار ہوں کہ

جاں دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
٭٭٭

a3w
a3w