غیر مسلم طالبات کو حجاب کے استعمال کیلئے مجبور نہ کیاجائے
مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے حال ہی میں داموہ ضلع میں ایک اسکول کی پرنسپال‘ ایک ٹیچر اور ایک چپراسی کو ضمانت منظور کی ہے جہاں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی طالبات کوحجاب استعمال کرنے اور طلبہ کو اسلامی عبادات سیکھنے پر مجبور کیا گیا۔
حیدرآباد: مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے حال ہی میں داموہ ضلع میں ایک اسکول کی پرنسپال‘ ایک ٹیچر اور ایک چپراسی کو ضمانت منظور کی ہے جہاں تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی طالبات کوحجاب استعمال کرنے اور طلبہ کو اسلامی عبادات سیکھنے پر مجبور کیا گیا۔
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق جسٹس دنیش پلیاوال نے ضمانت کی کئی شرائط لاگو کی جن میں یہ بھی شامل ہے کہ اسکول کی طالبات خاص کر غیر مسلم طالبات کو حجاب استعمال کرنے کے لئے دباؤ نہ ڈالا جائے یا انہیں ان کے مذہب کے لازمی جز پہننے سے روکا نہ جائے۔
عدالت العالیہ کی جانب سے جو شرائط لاگو کی گئیں ان میں یہ ہے کہ وہ (اسکولی پرنسپال‘ اساتذہ وغیرہ) دیگر مذاہب کے طلبہ کو ان کے مذہب کے لزومات جیسے مقدس دھاگہ (کلاوہ) پہننے اور پیشانی پر تلک لگانے سے منع نہ کیا جائے۔
وہ دیگر مذاہب کے طلبہ کوکوئی بھی مواد یا زبان پڑھنے یا مطالعہ کرنے کے لئے مجبور نہ کیا جائے جو مدھیہ پردیش ایجوکیشن بورڈ سے مصرحہ یا منظورہ نہ ہو۔ دیگر مذاہب کے طلبہئ کو اسلامی عقائد سے متعلق کسی قسم کی مذہبی تعلیم یا مواد فراہم نہ کیا جائے اور قانون عدل صغرسنی (نگہداشت و تحفظ اطفال) 2015 کی دفعہ 53(1)(iii) کی صراحت کے مطابق صرف عصری تعلیم دی جائے۔
دیگر مذاہب (ہندو‘ جین وغیرہ) کی طالبات کو اسکول کے احاطہ میں یا کلاس روم کہیں بھی سر کا دوپٹہ استعمال کرنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ عدالت نے یہ نوٹ کرتے ہوئے کہ اس معاملہ میں بعداز تحقیقات چارج شیٹ پہلے ہی داخل کی جاچکی ہے اور اصل الزامات اسکول کے انتظامیہ کے خلاف ہے نہ کہ اس کے پرنسپال‘ اساتذہ اور چپراسی کے خلاف‘ ضمانت منظور کرلی۔
اس شکایت پر ایک مقدمہ درج کیا گیا تھا کہ مسلم عقیدہ سے تعلق نہ رکھنے والے طلبہ کو جو گنگا جمنا ہائیر سیکنڈری اسکول میں شلوار کرتا اور سر کا حجاب اور دوپٹہ پہننے پر مجبور کیا جارہا ہے۔یہ الزام عائد کیاگیا تھا کہ نرسری تا بارہویں جماعت تک زیر تعلیم طلبہئ کو اس کے لئے مجبور کیا جارہا تھا۔
عدالت کو بتایا گیا کہ مزید براں اسکول کی جانب سے اردو لازمی مضمون رکھا گیا اور غیر مسلم طلبہ کو اسلامی عبادات کی ادائی کے لئے مجبور کیا جارہا ہے‘ وہیں دیگر مذاہب کے طلبہئ کو ان کی پیشانی پر تلک لگانے یا اپنی کلائی پر مقدس دھاگہ باندھنے نہیں دیا جارہا ہے۔
تحقیق کے دوران طالبات نے یہ بھی بیان دیا کہ اسکول میں حجاب کا استعمال کرنا لازمی ہے۔اس لئے پرنسپال‘ ایک ٹیچر اور ایک چپراسی اور اسکول انتظامیہ کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا گیا۔ پرنسپال‘ ٹیچر اور چپراسی نے اپنی درخواست ضمانت میں عدالت سے کہاکہ انہیں ناجائز طور پر ماخوذ کیا گیا اور اگر کوئی قصور وار ہے تو وہ انتظامیہ ہونا ہوگا۔
عدالت سے کہا گیا کہ اسکول انتظامیہ بشمول اس کے مینجنگ ڈائرکٹر کی جانب سے منظورہ قراداد میں طالبات کے لئے لازمی ڈریس کوڈ کے حصہ کے طور پر حجاب کی تجویز رکھی گئی۔ ضمانت کے درخواست گزاروں نے قانون مدھیہ پردیش آزادی مذہب 2021 کا اطلاق کئے جانے پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ان کے خلاف یہ الزام نہیں ہے کہ وہ طالبات کے جبری تبدیلی مذہب میں ملوث ہیں۔
عدالت نے درخواست نے یہ وضاحت کرتے ہوئے کہ کیس کی میرٹ پر اس نے تبصرہ نہیں کیا‘ ضمانت کے لئے ان کی درخواست کو قبول کرلیا۔ سینئر ایڈوکیٹ منش دت اور اڈوکیٹ مایانک شرما اسکول پرنسپال کی طرف سے اور ایڈوکیٹ قاسم علی‘ اسکول ٹیچراور چپراسی کی طرف سے پیش ہوئے جب کہ ایڈوکیٹ پردیپ گپتا نے عدالت میں ریاست کی نمائندگی کی۔