طنز و مزاحمضامین

قدر دان کیسے کیسے ؟

حمید عادل

ایک معروف فلمی نغمہ ہے ’’ پیار دو پیار لو‘‘ …یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد ایسی مکروہ آوازیں نغمے میں ابھرتی ہیں کہ آدمی پیار تو کیا نفرت کرناتک بھول جائے …خیر! اسی ’’ پیار دو پیار لو‘‘ کو معروف امریکی مصنفہ Lauren Barnholdt نے کچھ اس طرح کہا ہے ’’ “You have to give respect to get respect.”
آج جوتوں پر پالش ٹھیک سے نہیں ہوئی تھی، یہ دیکھ کر شوہر کا موڈ خراب ہوگیا، بیوی سے کہنے لگا: اِتنا سا کام بھی ڈھنگ سے نہیں کرسکتیں، آخر تم سارا دن کرتی کیا ہو؟اور پھردفتر روانہ ہو گیا۔ شام پانچ بجے جب وہ تھکا ہارا گھر پہنچا تو دیکھاکہ اس کے بچے گھر کے سامنے میلے کچیلے کپڑوں میں کھیل رہے ہیں، گھر میں داخل ہوا تو عجیب منظر تھا، کپڑے، کھلونے اور جوتے اِدھر اُدھربکھرے پڑے تھے، ناشتے کے برتن ابھی تک وہیں تھے جہاں صبح تھے، رات کے برتن سِنک میں پڑے دُھلنے کا انتظار کررہے تھے، فریج کے دروازے پر آلودہ ہاتھوں کے نشانات تھے، گھر کے فرش پر جھاڑو نہ لگنے کی وجہ سے گرد تھی…یہ سب دیکھ کر شوہر کو گھبراہٹ سی ہونے لگی اور وہ دل ہی دل میں دعا مانگنے لگا: ’’یااللہ خیر!‘‘ تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر ہانپتے کانپتے جب وہ بیڈ روم میں پہنچا تو دیکھا کہ اس کی بیوی بستر پر بیٹھی ٹی وی سیرئیل دیکھ رہی تھی… آہٹ پا کرٹی وی بند کیا اور شوہر کے استقبال کے لئے مسکراتی ہوئی اُٹھ کھڑی ہوئی… شوہر نے فوراً پوچھا: میں تو ڈر ہی گیا تھا،آج گھر کی کیا حالت بنارکھی ہے! سب کچھ درہم برہم کیوںہے ؟ بیوی نے نرمی سے جواب دیا: آپ ہی نے تو کہا تھا کہ آخر میں سارا دن کرتی کیا ہوں؟ تو میں نے سوچا کہ آج میں کچھ نہیں کروں گی،تاکہ آپ کو اپنے سوال کا جواب مل جائے…
اس لطیفے نما حکایت کا حاصل یہی ہے کہ جو لوگ دوسروں کی قدرنہیں کرتے ، وہ خود اپنی قدر کھو دیتے ہیں۔ معروف قلمکار ابو رجب عطاری رقم طراز ہیں:
’’ یاد رکھیے! اگر آپ میں صلاحیت ہے تو آج یا کل اس کے قدر دان ضرور ملیں گے کیوںکہ سو کا نوٹ نیا ہو یا پرانا، کڑک ہویا مڑا تڑا…اس کی قیمت سو روپے ہی رہتی ہے کم یا زیادہ نہیں ہوجاتی اور اگر آپ میں کسی چیز کی صلاحیت نہیں ہے تو خوش فہمی کے اثرات سے باہر آجائیے کہ گرد آسمان پر بھی چڑھ جائے اس کی قیمت نہیں بڑھتی اور سونا زمین میں بھی دفن ہوجائے تو اس کی قدر کم نہیں ہوتی۔ چنانچہ ’’میری قدر کرو، میری اہمیت کو سمجھو‘‘ کی تکرار کرکے ’’اپنے منہ میاں مٹھو بننے‘‘ کے بجائے آس پاس نظر دوڑائیے اور دوسروں کی قدر کرنا شروع کردیجئے، لوگ بھی آپ کی قدر کرنے لگیں گے، مگر نیت صاف ہونا شرط ہے۔‘‘
(اقتباس ختم ہوا)
قدر دانی دل سے ہوتی ہے ، اپنے منہ میاں مٹھوبننے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا …جب وزیر داخلہ امت شاہ نے وزیر اعظم کی مدح سرائی کرتے ہوئے کہا کہ نریندر مودی ہندوستان کے آج تک کے سب سے بڑے جمہوریت پسند رہنما ہیں …تو اس حوالے سے سوشل میڈیا پر لطائف کی ایک جھڑی سی لگ گئی تھی…اور اس کے پس پشت سابق ٹینس لیجنڈ مارٹینا نورا ٹیلووا بھی رہیں جنھوں نے اس بیان کو طنز کا نشانہ بناتے ہوئے موضوع بحث بنا دیا۔امریکی سابق ٹینس سٹار مارٹینا نوراٹیلووا نے ہندوستان ٹائمز کی امت شاہ کے بیان والی خبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا: ’’اور میرے اگلے لطیفے کے لیے…. ‘‘ان کے کہنے کا مطلب بس یہی تھا کہ مودی جمہوریت پسند رہنما ہیں ،یہ بیان کسی لطیفے سے کم نہیں ہے …ایک صارف نے نوراٹیلووا، مودی اور امت شاہ کی تصاویر ڈال کر لکھا کہ اسے کہتے ہیں ’’بین الاقوامی قدر دانی‘‘جبکہ کانگریس رہنما ڈگ وجے سنگھ نے لکھا: ’’ مودی جی مبارک ہو، اب آپ اپنے ’’جمہوری‘‘ اقدار کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہیں! شکریہ مارٹینا، آپ کے چبھتے ہوئے طنز کے لیے۔‘‘
ایک دور تھا، اردو کے قلمکاروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اردو ادب کی محفلیں خوب سجتی تھیںاور قلمکارخواب واہ واہ بٹورا کرتے تھے،یہ سب کچھ آج خواب و خیال کی باتیں معلوم ہوتی ہیں… سرراہ کوئی ہمیں روک کر یہ سوال بھی کرلے کہ ’’ کیاآپ حمید عادل ہیں؟‘‘ تو اس مشکوک سوال پر بھی رشک ہونے لگتا ہے کہ چلو کوئی ہمیں پوچھ تو رہا ہے …
ہم ’’جو بھی پیار سے ملا ، ہم اسی کے ہولیے‘‘پر یقین رکھتے ہیں …کل ہی کی بات ہے ،ہم لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے بس اسٹاپ جارہے تھے ،یہ صبح کا وہ وقت ہوتاہے جب ہمیں خود اپنا ہوش نہیں رہتا… چنانچہ دل و دماغ کئی ایک سواالات میں گھرا ہوا تھا… دو سوال کچھ زیادہ ہی پریشان کررہے تھے، پہلا سوال یہ کہ کیا آج بس آئے گی؟اور دوسرا یہ کہ اگر بس آئے تو کیا ہمارے بس اسٹاپ پہنچنے تک رہے گی یا چلی جائے گی؟ ’’ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی‘‘ کے مصداق ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو کبھی کسی بس کی خبر نہیں آتی…جی ہاں ! بس کا ملنا ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں …ہم مختلف وسوسوںمیں گھرے جانب بس اسٹاپ دوڑے چلے جارہے تھے کہ ہمارے ایک قدر دان نے ہمیں آواز دی…دیکھا تو چمن بیگ کے بڑے بھائی گارڈن بیگ کو روبرو پایا …انہوں نے اپنی بائیک کرتب بازی دکھاتے ہوئے اس تیزی سے گھمائی کہ بائیک کی پچھلے نشست ہمارا سامنے تھی مگر اس کوشش میںنقص ٹریفک کا خطرہ پیدا ہوگیا …گارڈن بیگ نے نہایت مودبانہ انداز میں کہا ’’ فوری بیٹھ جائیے، میں آپ کو بس اسٹاپ چھوڑ دیتا ہوں ۔‘‘یہ سب کچھ اس تیزی سے ہوا کہ ہمیں جھجکنے ، شرمانے اور منع کرنے کا موقع ہی نہیں ملا اور ہم فوری کود کر ان کی بائیک پر سوار ہوگئے …ہم نے پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے ان کا شکریہ ادا کیا تو کہنے لگے ’’ارے عادل بھائی ! ہم آپ کے اتنا بھی کام نہ آئیں تو پھر کیا فائدہ ؟‘‘ان کے پرخلوص جملے کو سن کر ہمارا صندوق نما سینہ کب پھول کر 56انچ کا ہوگیا ،ہمیں پتا ہی نہ چلا …
پچھلے دنوں ایک تقریب میں جانے کا اتفاق ہوا، جس کاانتظام اور پکوان مثالی تھا،حیدرآبادی بریانی جسے کہتے ہیں ، ہمیں وہ کھانے کو ملی … وہاں ایک صاحب ہمارے اس قدر، قدردان نکلے کہ انہوں نے جھوم کرکہہ دیا ’’آپ کی تحریریں توآج کی بریانی سے بھی زیادہ مزہ دیتی ہیں …‘‘ یہ تو محض ان کی ذرہ نوازی ہے ورنہ اُس تقریب کی ذائقہ دار بریانی سے ہماری بے مزہ تحریروں کا کیا مقابلہ؟
بہرکیف !قدر دانوں کی یہ وہ محبت بھری باتیںہیں جو کسی بھی قلمکار بطور خاص اردو قلمکارکو لکھنے پر اکساتی ہیں …ہمارے ایک بزرگ مداح ایک دن ہم سے کہنے لگے ’’ میاں! فری ہوں تو کبھی ہمارے گھر تشریف لائیے ۔‘‘ ہم نے کہا ’’ آپ جب چاہیں گے حاضر ہوجائیں گے …‘‘وہ فرط مسرت سے سرشار ہوکرکہنے لگے ’’ کل کی شام آپ کے نام ‘‘
دوسرے دن ہم حسب وعدہ، ان کے دولت کدہ پر حاضر ہوئے توانہوں نے ہمارا والہانہ استقبال کیا، ہمیںگلے سے یوںلگایا کہ چھوڑنا ہی بھول گئے … دریں اثناغیب سے آواز آنے لگی ’’ فیوی کول کا مضبوط جوڑ ہے ، ٹوٹے گا نہیں !‘‘… اس آواز کو سننے کے بعد تو ہماری سانسیں مزیدبے ترتیب ہوگئیں ، ہم نے اپنی بے ترتیب سانسوں پر بڑی مشکل سے قابو پاتے ہوئے ان سے شکایت کرڈالی ’’ انکل جی !اگر آپ نے ہمیں نہیں چھوڑا تو ہم دنیا چھوڑ جائیں گے۔‘‘ ہمارا اتنا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی باہوں کے مضبوط حصار سے ہمیںآزاد کردیا ، ان کا ہمیں آزاد کرنا تھا کہ ہم دھڑام سے فرش پرڈھیر ہوگئے …انکل جی نے ہمیں فرش سے اٹھا کر صوفے کی نذر کرتے ہوئے کہا ’’ معاف کرنا برخوردار! تم ہی نے مجھے چھوڑنے کو کہا تھا…‘‘
’’ غلطی آپ کی نہیں ہے ،ہم ہی خود سے دھوکا کھا گئے ۔‘‘
کھانے پر یاد آیا کیا کھاؤگے؟
’’ ابھی ابھی تو خود سے دھوکا کھایا ہے ، اب کچھ پی لیتے ہیں ۔‘‘ہم نے مسکرا کر جواب دیا۔
’’ ہمارے ہاں چائے بہت عمدہ بنتی ہے ۔‘‘
’’ جی نہیں !ہم چائے نہیں پیتے،خاص طورپر سرشام ہم چائے کو ہاتھ تک نہیں لگاتے ۔‘‘ہم نے صفائی بیان کی۔
’’ وہ کیوں بھلا؟‘‘ انکل جی نے آنکھیں مٹکاتے ہوئے سوال داغا۔
’’ ہمیں نیند نہیں آتی ، ویسے بھی چائے کی عادت نہیں ہے ناں۔‘‘
انکل جی نے ایک زور دار قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ’’ چائے پینے کے لیے عادت کی کیا ضرورت ہے بھلا ؟ کہو دودھ کی چائے پیو ٔگے یا ڈکاکشن؟‘‘
’’ ہم معافی چاہتے ہیں ،چائے تو ہم ہرگز نہیں پئیں گے۔‘‘ ہم نے ا پنا حتمی فیصلہ سنا ڈالا ۔
دریں اثنا انکل جی نے اپنے ہونہار لڑکے کو آواز دی،وہ آیا تو ان میں اور ان کے صاحبزادے میں خدا جانے آنکھوں آنکھوں میںکیسی گفتگو ہوئی…وہ دوڑتا ہوا گیا اور گیٹ کو مقفل کردیا…
ہم نے گھبرا کر سوال داغا ’’ یہ گیٹ کیوں مقفل کردی آپ نے ؟‘‘
’’ تاکہ تم راہ فرار نہ اختیار کرلو۔‘‘ انکل جی نے دو ٹوک انداز میں جواب دیا ۔
’’ یہ تو سراسر ظلم ہے ۔‘‘ ہم نے احتجاجی نعرہ مارا۔
’’ جی نہیں ! میرا خلوص ہے ،میرے گھر سے کوئی چائے پیئے بغیر نہیں جاتا۔‘‘
ان کے کڑے تیور دیکھ کرہم نے مکان کی چار فٹ بلندباونڈری وال کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ اسے پھلانگنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے… چنانچہ ہم نے وہ ہتھیار ڈال دیے جو ہمارے پاس تھے ہی نہیں اور چپ چاپ چائے پی لی…
ہم نے یار لوگوں سے انکل جی کے متعلق معلومات حاصل کیں تو پتا چلا کہ وہ نہایت سرپھرے اور ضدی واقع ہوئے ہیںاور فلم ’’ وانٹیڈ‘‘ کے سلمان خان کی طرح ہیں ، جو فلم میںبار بار شان بے نیازی سے کہتے ہیں ’’ ایک بار جو میں نے کمٹ منٹ کردی ، اس کے بعد تو میں خود کی بھی نہیں سنتا‘‘ اور پھر احباب نے ا نکل جی کا ایک یادگارواقعہ سنایا کہ وہ اپنے دور کے معروف اور ضدی ٹیلر رہ چکے ہیں ،ایک دن گاہک نے بتایا کہ وہ ممبئی جارہا ہے اور سلمان خان سے ملنے کی کوشش کرے گا …انکل جی نے اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ ’’تم اور سلمان سے ملو گے؟ مجھے تو یہ سوچ کر ہی ہنسی آ رہی ہے، وہ تم سے کیوں کر ملے گا؟‘‘ گاہک یہ سن کر خاموش رہا۔ کچھ عرصہ بعد وہی گاہک دوبارہ کپڑے سلوانے انکل جی کے پاس پہنچا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں ممبئی کیسا لگا؟ ’’بہت مزہ آیا اور میں سلمان سے بھی ملا۔‘‘ انکل جی نے حجت کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا تو تم نے اس کے بنگلے کے نیچے کھڑے ہو کر دوسرے لوگوں کے ساتھ اسے دیکھا ہو گا۔‘‘ ہاں! لیکن دو گارڈ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ سلمان سر تم سے تنہائی میں ملنا چاہتے ہیں۔ وہ مجھے اپنے ساتھ ان کے نجی کمرے میں لے گئے۔‘‘ ’’واقعی! سلمان نے تم سے کیا کہا؟‘‘ انکل جی نے حیرانگی کے عالم میں دریافت کیا۔ گاہک نےاطمینان سے جواباً کہا: ’’سلمان نے مجھ سے سوال کیا کہ تمہارے کپڑوں کی اتنی گھٹیا سلوائی کس احمق نے کی ہے؟‘‘اس جھوٹ کا انکل جی پر ایسا اثر ہواکہ انہوں نے اُسی وقت قسم کھالی کہ وہ اب کبھی سلوائی نہیں کریں گے…اور جس گاہک نے سلمان خان سے ملاقات کی جھوٹی کہانی سنائی ،اس کے چہرے پر ایسا زور دار گھونسہ رسید کیا کہ وہ آج بھی ٹیڑھے منہ کے ساتھ بازار میں گھومتا نظر آتا ہے …یار لوگوںنے ہمیں مبارکباد دی کہ ہم صحیح سلامت ان کے چنگل سے آزاد ہوگئے…
۰۰۰٭٭٭۰۰۰