محمد ضیاءالدین۔پربھنی
انسانی زندگی مختلف یادوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ان میں زندگی کے خوشگوار و حسین ترین لمحات بھی ہوتے ہیں ، کامیابیوں کی دل خوش کن یادیں تو ناکامیوں کی دلخراش یادیں بھی ہوتی ہیں۔ زندگی میں کچھ واقعات و حادثات انسانوں کے لیے سبق آموز و عبرت انگیز ہوتے ہیں جب یہ وقوع پذیر ہوتے ہیں تب انسان اپنے رب سے رجوع ہوکر پناہ مانگتا ہے تب یوں لگتا ہے کہ شاید اب یہ انسان زندگی میں کبھی کوئی گناہ نہ کرے گا لیکن جیسے ہی آفت ٹل جاتی ہے، انسان پھر اپنی روش پہ لوٹ آتا ہے کہ یہی انسان کی فطرت ہے اور ہر جگہ یہی منظر دیکھنے ملتا ہے۔ کل کا دن مہاراشٹر کے لاتور ضلع کے کلاری میں گزرا۔ کلاری جو آج سے تقریباً تیس سال قبل عالمی خبروں کا مرکز بنا تھا جب ایک نہایت بھیانک زلزلے نے اس گاوں کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا تھا ۔اس گاوں کے بہت سارے مسلم غیر مسلم لوگوں سے ملاقات کی۔ اس گاوں کا کوئی بھی انسان ایسا نہیں جس کے دل پر اس سانحہ کا کوئی اثر نہ ہوا ہو کہ اس کا کوئی نہ کوئی قریبی عزیز اس حادثہ میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔ کہتے ہیں کہ وقت سب سے بڑا مرہم ہوتا ہے جو گہرے سے گہرے زخم کو بھر دیتا ہے اور یہ بھی ہے کہ یہ اللہ کی نعمت ہی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مصائب زمانہ کا شکار انسان پل بھر بھی چین نہیں پاتا اور صدمے سے پاگل ہوجاتا۔ یہاں بھی وہی بات دیکھنے ملی کہ لوگ اپنے اپنے عزیزوں کے دکھ درد کو بھول کر زندگی کی مصروفیات میں مصروف ہیں۔ اس سوال کا جواب کہ کیا اس سانحہ کے سبب لوگوں کی زندگی اور برتاﺅ میں کوئی نمایاں فرق واقع ہوا ہو، جواب تھا کچھ بھی نہیں بلکہ زیادہ تر لوگوں نے کہا کہ زندگی کے رویﺅں میں کوئی مثبت تبدیلی تو واقع نہیں ہوئی بلکہ پہلے سے زیادہ خراب ہے یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ غرض کہ انسان وہ سخت ترین شئے ہے جس پر حوادث زمانہ کا وقتی طور پر اثر ہوتا ہے اور انسان پھر اپنی روش پر لوٹ جاتا ہے ۔
جب یہ سانحہ پیش آیا تھا، تب کلاری میں مسلمانوں کی آبادی بہت کم تھی، اسی سبب یہاں مرنے والوں میں بھی مسلمان بہت کم تھے، لیکن آج اس گاﺅں میں مسلمانوں کی ایک الگ بستی ہے۔ پانچ مساجد ہیں (یہاں یہ تذکرہ بے جا نہ ہوگا کہ جب زلزلہ آیا تھا اور ساری بستی زمین بوس ہوگئی تھی، لیکن گاوں کی اکلوتی مسجد سرو قد کھڑی ہوئی تھی جو اہلیان ایمان کے ایمانی جذبے کے لیے باعث تقویت تھی ) ایک اردو ہائی اسکول ہے مولانا آزاد پرائمری و ہائی اسکول۔ زیادہ تر مسلمان مزدور پیشہ ہیں ،مسلمان جہاں رہیں اور چاہے تعداد میں جتنے ہوں اوروں کی مصیبت میں جان جوکھم میں ڈالنا ان کا وصف ہے، وہ بھی نہایت اخلاص اور صلہ و ستائش کی پرواہ کیے بنا ( یہ اور بات ہے کہ باوجود مسلمانوں کے ان اوصاف کے فرقہ وارانہ ذہنیت ان کے خلاف زہر افشانی اور ریشہ دوانیوں میں مصروف رہتی ہے) کلاری کا یہ کردار واقعی جرات مندی، بے خوفی اور مصیبت کے وقت پورے حوصلے سے کام کرنے کی ترغیب دینے والا ہے۔ نام ہے حیات خواجہ ملا حیات خواجہ نہ صرف اس دلدوز سانحہ کا عینی شاہد ہے بلکہ اس مصیبت کی گھڑی میں نہایت پامردی سے اوروں کی جان بچانے والا بھی ہے۔
حیات خواجہ کی یادوں کے ذخیرے میں وہ نہایت دلدوز یادیں ہیں جو اس روز وقوع پذیر ہوئی اور ان یادوں کو وہ اوروں سے شیئر بھی کرتے ہیں ۔ حیات خواجہ کی عمر آج ۷۰ سال سے زائد ہے۔ یہ ایک محنت کش انسان ہیں۔ آج بھی کلاری کی مین روڈ پر ان کی چائے کی دکان ہے۔ چاچا کے نام سے ہر خاص و عام میں جانے جاتے ہیں۔ راقم الحروف سے گفتگو کرتے ہوے انھوں نے بتایا کہ ۳۰ستمبر ۱۹۹۳ کو جب یہ سانحہ پیش آیا وہ ایک غیر مسلم سرپنچ کے ہاں بطور جیپ ڈرایﺅر ملازم تھے اور حادثے کی رات وہ جیپ کے ذریعہ اپنے مالک کے کسی رشتہ دار کو دواخانہ لے کر گئے جب لوٹے تو رات دو بج رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اسی دوران گاﺅں کے مضافاتی علاقے میں گھر کے لیے ایک قطعہ زمین خریدی تھی جس پر ایک کچا مکان بنایا تھا (مزیدار بات یہ ایسے لوگ جن کے کچے مکانات اس مضافات میں تھے، وہ بچ گئے ) گھر آکر انھوں نے کھانا کھایا، ان کے آنے کے سبب گھر کے دیگر لوگ بھی جاگ گئے جس میں ان کی بہن بھی تھی جس کی چند روز قبل ہی ڈیلیوری ہوئی تھی اور گاﺅں کے طریقہ کے مطابق اسے میکے لایا گیا تھا۔ سب لوگ بات چیت کرنے لگے۔ ادھر گاوں میں گنپتی کے جلوس کا جشن جاری تھا۔ بینڈ باجوں کا شور پرجوش نعرے سنائی دے رہے تھے۔ کھانے سے فارغ ہوکر حیات ملا وہیں قریب میں حوائج ضروریہ سے فارغ ہوکر آیا، تب تک جلوس کا شور تھم چکا تھا۔ تھکے تھکائے جلوسی اپنے اپنے گھروں میں جاکر بستروں پپر لیٹ گئے تھے اور ایک مہیب سناٹا چھا گیا تھا۔تھوڑی دیر بعدیک مہیب اور بھیانک آواز اس کے کانوں میں پڑی اور تھوڑی دیر کے لیے وہ حواس کھو بیٹھا۔ چند لمحوں بعد جب کچھ حواس درست ہوے تو دیکھا کہ گاﺅں کی سمت سوائے گرد و غبار کے کچھ دکھائی نہ دیتا تھا اور اس کے بعد دلدوز چیخیں، آہیں و کراہیں پھر وہ مدد کے کام میں جٹ گئے جہاں جسے ملبے میں سے نکالا جانا تھا ملبے سے نکالا، دواخانے میں زخمیوں اور لاشوں کے ڈھیر لگ گئے۔ زندگی اور موت کے بیچ بس لمحوں کا فرق رہ گیا۔ لائے جانے والے زخمیوں میں سے کئی پہنچتے پہنچتے لاش بن گئے۔ نیرنگی زمانہ اور حیات و موت کا زندہ فلسفہ کہ کچھ دیر پہلے جو ہنس بول رہا تھا گھنٹوں ہی میں وہ چھوڑ کر چل بسا۔ انھوں نے بتایا ایک کانسٹبل چابک سوار جو بندبست کے سلسلے میں کسی گاﺅں میں تھے، رات گاوں کی طرف واپسی کے لیے ان کے ساتھ ان کی جیپ میں سوار ہوگیا۔ اس با ت سے بے خبر کہ وہ سکون کے لیے گھر نہیں بلکہ موت
کے منہ میں جارہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ جس جگہ چارپائی پر لیٹا ہو ا تھا اوپر سے ایک پتھر کی سل گری جس نے اس کو چارپائی سمیت دو ٹکڑے کردیا ، انسان اچھے دنوں میں کسی کو گننے بھی تیار نہیں ہوتا لیکن وقت ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اچھے اچھوں کو جھکا دیتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی پولیس ولا کسی معمولی آدمی سے ہاتھ بھی ملائے چہ جائیکہ یہ کہ اسے اپنے کندھوں پر سوار کرائے، لیکن وقت نے یہ بھی کرایا۔ حیات ملا نے بتایا کہ اسی پولیس اسٹیشن کے انسپکٹر جن کانام ناوندر تھا، انھوں نے ان سے کہا کہ ان کی بیوی کی جان بچانی ہے چلو۔ یہ دونوں چل پڑے ،انسپکٹر کا گھر کچھ اس طرح زمین بوس ہوگیا تھا کہ اس کی بیوی ایک طرف ٹھیری ہوئی تھی جسے نیچے آنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا، اب انسپکٹر نے ان سے کہا کہ وہ اس کے کندھوں پر سوار ہوجائے۔ ایک غریب آدمی پولیس انسپکٹر کے کندھوں پر سوار ہو یہ خیال بھی محال ہے وہ حیرت سے انسپکٹر کا چہرہ تکنے لگے ، لیکن یہ وقت حسب مراتب کا نہیں تھا انھوں نے لجاجت سے ان کو اپنے کندھوں پر کھڑے رہنے کے لیے کہا اور وہ انسپکٹر کے کندھوں پر سوار ہوگئے اور اس خاتون کو نیچے اتارا غرض کہ کئی ایک واقعات انھوں نے سنائے۔
آزاد اسکول کے ٹیچر سمیر حمزہ شرنگاپورے نے سابق نائب سرپنچ ہارون اللہ بخش سے ملاقات کرائی۔ عمر کے سات دہے گزار چکے ہارون بھائی گاﺅں کے لحاظ سے ایک سمجھدار انسان لگے، کہنے لگے کہ زندگی کا بڑا حصہ سیاسی سماجی خدمت میں گزرا ہے۔ اس سانحہ کے تعلق سے بتایا کہ جب زلزلہ آیا تب میں پولس اسٹیشن گیا تب تھانے عملدار نہایت گھبرایا ہوا اور بد حواس تھا اور اس سانحہ کی اطلاع ہیڈکوارٹر کو دینے سے بھی ڈر رہا تھا تب میں نے اس کے ہاتھ سے وائر لیس کا ریسیور لے کر اس سے بٹن دبانے کے لیے کہا اور بتایا کہ کلاری میں بھیانک زلزلہ آیا ہوا ہے۔ مدد کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ہی مواصلات کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ انھوں نے بتایا کہ اس موقع پر اس وقت کے وزیر اعلیٰ شرد پوار نے نہایت فرض شناسی کا ثبوت دیا اور چند ہی گھنٹوں میں جائے واردات پر پہنچ جانے کے سبب راحت کے کاموں میں تیزی آئی ۔ ہارون بھائی کے ساتھ ان کے ۹۸سالہ والد اللہ بخش عطار اور ایک بزرگ ۸۲ سالہ اسمعیل شمش الدین پٹھان بھی تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ایک تو زلزلہ جس نے سارے گاﺅں کو زمین دوز کردیا جو لوگ بچے ہوے تھے وہ زخمیوں کو بچانے میں لگے ہوے تھے۔ حیات ملا نے بتایا کہ آزمائش کے اس موقع پر بھی جب کہ نظروں کے سامنے موت رقص کررہی تھی مدد کے نام پر آگے آنے والے بہت سارے لوگ جو اسی گاﺅں کے تھے، مردہ عورتوں کے جسم سے زیور لوٹ رہے تھے۔ بعد میں جب پولیس والے بندوبست کے لیے آگئے تب ان میں سے بھی بہت سارے مردوں کا مال لوٹ رہے تھے۔ کہتے ہیں کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی۔ ایک طرف زلزلہ ابھی لوگ باگ اسی میں تھے بہت ساری لاشیں نالے کے سامنے ڈھیر کردی گئیں تھیں زخمی زخموں سے کراہ رہے تھے کہ زوردار بارش شروع ہوگئی اتنی موسلا دھار کے سب جہاں تہاں ٹھپ ہوگئے زوردار بارش کے سبب دواخانے کے سامنے کا نالہ بہنے لگا اور کنارے رکھی کئی لاشیں اس نالے میں بہہ گئیں۔ اس موقع پر بھی جب کہ ان ہزاروں لاشوں کو جلانا ایک مسئلہ تھا۔ لاتور سے موٹر آنر مہاسنگھ کے صدر تاج الدین بابا نے کیروسین کا ایک ٹینکر بھیجا تھا۔ اس سانحہ سے جڑی کئی یادیں ہیں۔ یہ وہی سال تھا جب بابری مسجد ڈھادی گئی تھی بمبئی اور دیگر مقامات پر ہوئے فسادات میں ہزاروں لوگ مارے گئے تھے پھر بمبئی کو ہلادینے والے بم دھماکے جہاز ٹرین اور بسوںکے حادثات میں سینکڑوں جانوں کی ہلاکت اور پھر یہ آسمانی آفت جس نے قہر بن کر چشم زدن میں ہزاروں افراد کو اپنی آغوش میں لے لیا (اس سانحے سے جڑی مزید تفصیلات ہیں جو جگہ کی تنگی کے سبب نہیں دی جاسکتیں ) ۔
٭٭٭٭