بھارت

اسد اویسی حملہ کیس، ملزمین کو منظورہ ضمانت کو سپریم کورٹ میں چالینج

سپریم کورٹ نے آج اے آئی ایم آئی ایم صدر اسد الدین اویسی کی درخواست پر حکومت ِ اترپردیش سے جواب طلب کیا، جس کے ذریعہ جاریہ سال فروری میں ان کی گاڑی پر فائرنگ کرنے والے دو ملزمین کو ضمانت منظور کیے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

نئی دہلی۔: سپریم کورٹ نے آج اے آئی ایم آئی ایم صدر اسد الدین اویسی کی درخواست پر حکومت ِ اترپردیش سے جواب طلب کیا، جس کے ذریعہ جاریہ سال فروری میں ان کی گاڑی پر فائرنگ کرنے والے دو ملزمین کو ضمانت منظور کیے جانے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

جسٹس ایم آر شاہ اور جسٹس کرشنا مراری پر مشتمل بنچ نے ریاست ِ اترپردیش اور دونوں ملزمین سچن شرما اور شبھم گرجر کو نوٹسیں جاری کردیں۔ عدالت نے تیسرے ملزم’عالم‘ کو دی گئی ضمانت کے خلاف درخواست خارج کردی۔ بنچ نے کہا کہ جہاں تک عالم کی ضمانت پر رہائی کا سوال ہے، ان سے منسوب کردہ رول اور الزامات یہ واقعہ پیش آنے سے 6 ماہ پہلے رونما ہوئے تھے۔

اس نے صرف پستول فراہم کیا اور گولی چلائے جانے میں اس کا کوئی رول نہیں، لہٰذا ہائی کورٹ کی جانب سے ملزم کو ضمانت پر رہا کیے جانے کے حکم میں مداخلت کی ہمیں کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ عالم کی ضمانت کے خلاف داخل کی گئی درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے۔ عدالت ِ عظمیٰ نے دیگر دو ملزمین کی ضمانت کے خلاف اویسی کی درخواست پر سماعت 11 نومبر کو مقرر کی۔

یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ اترپردیش میں اسمبلی انتخابات شروع ہونے سے ایک ہفتہ پہلے 3 فروری کو جب صدر مجلس اتحاد المسلمین انتخابی جلسوں میں شرکت کے بعد دہلی واپس ہورہے تھے تو ہاپور میں ان کی کار پر فائرنگ کی گئی تھی۔ بعدازاں پولیس نے تینوں ملزمین سچن شرما، شبھم گرجر اور عالم کو گرفتار کرلیا تھا اور ان پر اس واقعہ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔

اویسی نے سپریم کورٹ میں داخل کی گئی اپنی درخواست میں انہیں دی گئی ضمانت کو چیلنج کیا اور کہا کہ یہ غیرمتناسب تعصب اور نفرت پر مبنی جرائم کی ایک شاندار مثال ہے، جس کے نتیجہ میں اقدامِ قتل کا واقعہ پیش آیا اور اس کا نشانہ معروف رکن پارلیمنٹ تھے۔

ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد کے ذریعہ داخل کی گئی اپنی درخواست میں اویسی نے کہا کہ سچن کی ضمانت پر رہائی کے بعد اس نے ایک بار پھر درخواست گزار کو سنگین نتائج و عواقب کی دھمکی دی تھی۔ عوام کے بیچ دیا جانے والا یہ بیان سنگین ہے اور اس کا نوٹ لیے جانے کی ضرورت ہے۔ علاوہ ازیں ملزم نے اس واقعہ میں ملوث ہونے کی بھی تردید نہیں کی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس جرم کے ارتکاب پر فخر کرتا ہے۔