طنز و مزاحمضامین

لیکن وہ بات کہاں…

وہ بھی کیا دور تھا کہ جب تقریبات گھر کے روبرو شامیانہ ڈال کر یاکسی قریبی رشتے دار یا پھردوست کے کشادہ گھر پرمنعقد کی جاتی تھیں۔ شادی خانے بالکل نہیں تھے یا پھر برائے نام تھے ،کھلی زمینیںتھیں لیکن لینڈ گرابرس کا زور نہ تھا۔ خود ہم نے جب شادی کرنے کی ہمت کی تو سیدھے ہمت پورہ پہنچ گئے، جہاں سڑک ہی پر ڈیرہ جماکر نکاح پڑھاگیا۔ ترکاری کی بریانی اور مرچیوں کا سالن دعوتیوں نے جم کر کھایا تھالیکن سرراہ ڈیرہ ڈال کر بچھائے گئے دستر خوان پر دعوت لوٹنے والے ہمارے دوست آج بھی اکثر ہم پر طنز کیاکرتے ہیں: ’’ حمید کی شادی کا ڈنر،روڈ پر بیٹھ کر کھانے والے سارے دوست آج بھی روڈ ہی پرہیں! ‘‘

حمید عادل

حیدرآبادی دعوتوں میں شرکت کرکے مہمان یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ دعوت ہے یا عداوت؟ …’’ وقت کی پابندی‘‘ کا نعرہ لگانے والے ویڈنگ کارڈ بھی کبھی کبھی فریب ثابت ہوتے ہیں .. رات دیر گئے کی دعوتیں شہر کا حصہ بن چکی ہیں،ویسے بھی شہر کے سونے اور جاگنے کا اب کہاں کوئی وقت رہا ہے ،رات کے دو تین بجے بھی محسوس ہوتا ہے جیسے شہر ابھی جاگ رہا ہے ، بلکہ کبھی کبھی تولگتا ہے جیسے شہر حیدرآباد سونا بھول چکاہے …
دوستو!دعوت اڑانا کوئی آسان کام نہیں ہوتا ہے، دعوت اڑانے کے چکر میں اکثر آدمی کے ہوش تک اڑ جاتے ہیں …کھانے کی میزپر وہی مہمان سرخرو ہوتا ہے جو معہ احباب ہوتا ہے ،اتحاد میں کتنی طاقت بلکہ برکت ہے، ہم نے بارہا ڈائننگ ٹیبل پر محسوس کیا ہے ۔’’ ساتھی ہاتھ بڑھانا ساتھی رے‘‘ کا نغمہ چپ چاپ گنگناتے ہوئے ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی ٹولی جو دھوم مچاتی ہے وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے …
دعوتوں میںکھانے کے بجائے مسلسل منہ کی کھانے کے بعد چمن بیگ نے فیصلہ کیاکہ اب وہ اس ڈائننگ ٹیبل کا رخ کریںگے، جہاں سینئر دعوتی ہوں، تاکہ وہ ان کی عمر یعنی ناتوانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک کامیاب دعوتی کا اعزاز حاصل کرسکیں…چمن بیگ دراصل اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ سینئر دعوتی ’’گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے ،رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے ‘‘ کا شعر پڑھتے رہ جائیں گے اور وہ دعوت لوٹ لیں گے … لیکنچمن بیگ جب تک ڈائننگ ٹیبل پررہے، بغلیں جھانکتے رہے اور سینئر دعوتیوں نے میدان مار لیا، کیوں کہ وہ بریانی کو ’’ بگھارا کھانا‘‘ بنانے کا ہنر جانتے تھے …اس شرمناک شکست کے بعد چمن نے فیصلہ کرلیا کہ اب وہ اس ڈائننگ ٹیبل پر قبضہ جمائیں گے جہاں جونیر دعوتیوں کا ڈیرہ ہو،تاکہ بچوں کی سادہ لوحی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ڈشس اپنی پلیٹ میں اتار سکیں …چمن بیگ نے دعوت لوٹنے کی ساری منصوبہ بندی کررکھی تھی لیکن بچوں نے ابتدا ہی سے جارحانہ رخ اختیار کیا،ڈشوں پر تابڑ توڑ حملوں نے چمن بیگ کو حواس باختہ کردیا، بچوں کی جانب سے زمین سے ہوا پر ڈش کو نشانہ بنانے والے جس قسم کے حربوں کا انتخاب کیا گیا، وہ کلیدی چیز تھی…. مذکورہ دونوں واقعات کے بعد چمن بیگ کو یہ سمجھتے دیر نہ لگی کہ دعوت اڑانا بھی ایک فن ہے جو ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں …
پچھلے دنوں مشکوک حیدرآبادی کی دعوت میں شرکت کا اتفاق ہوا،جس کی خاص بات یہ تھی کہ ہر شخص مہمان خصوصی تھا،جی ہاں محض بیس لوگوں کی دعوت تھی… مشکوک نے ہم سے پرزور اصرار کرتے ہوئے کہا تھا: دعوت ہمارے مزاج کے مطابق ہوگی ، یعنی آٹھ بجے شروع اور دس بجے ختم…ہم بہت خوش ہوئے کہ چلو ایک مدت کے بعد دعوت کے مزے لوٹنے کا ہمیںموقع ملے گا ورنہ ہم گھر سے کھاکر نکلتے ہیں تاکہ پیٹ کی بد دعا سے محفوط رہ سکیں …ہم مقررہ وقت پر مشکوک کے گھر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ چند ایک مہمان کرسیوں پر براجمان ہیں، ہم نے بھی ایک کرسی سنبھال لی … کچھ ہی دیر میں ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ مچھر، مچھیرے بنے بیٹھے ہیںاور ہم ان کے جال میںبری طرح سے پھنس چکے ہیں … ارد گرد نظریں دوڑائیں تو پتا چلاکہ ہر مہمان کرسی پر بیٹھے بیٹھے مچھروں سے بچنے کے لیے ’’ حرکت میں برکت ہے‘‘ کے قول پر عمل پیرا ہے ،یعنی وہ مسلسل اپنے ہاتھ پیر حرکت میں رکھے ہوئے ہے …دریں اثنا مشکوک نے مہمانوں کو آواز دی، تمام حضرات معہ مچھرات مشکوک کے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے …ہم کھا رہے تھے اورمچھر پی رہے تھے، جی ہاں! وہ ظالم ہمارا خون پی رہے تھے …ہم نے ہاتھ روک لیا لیکن مچھروں نے ہمیں کاٹنا نہیں روکا…جب ہم اٹھ کر جانے لگے تو مشکوک نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور سرگوشی کی ’’ آئندہ ہفتے میرے ایک اور لڑکے کی سالگرہ ہے، ضرور تشریف لانا۔‘‘ ہم نے ہاتھ جوڑ کر معذرت چاہتے ہوئے کہا ’’ معاف کرنا مشکوک،ہم نہیں آسکتے!‘‘ کہنے لگے ’’ وہ کیوں؟‘‘ہم نے کہا ’’ تمہاری دعوت میں خون دے کر کھانا،کھانا پڑتا ہے ۔‘‘…
فی زمانہ جو شادیاں ہوا کرتی ہیں،وہ صبر کا امتحان ہوا کرتی ہیں،دعوت نامے میںبعد عشاتناول طعام کا اعلان کرکے گویا یہ لائسنس حاصل کرلیا جاتا ہے کہ مہمانوں کو فجر تک لٹکایا جاسکتا ہے …میزبان کسی طرح اپنی خوشیاں نکالنا چاہتا ہے، چاہے وقت پر غذا نہ ملنے سے کسی کی جان پر ہی کیوں نہ بن آئے … کچھ دعوتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ مہمانوں کو بلا تولیا جاتاہے لیکن میزبان ،ان کی خاطر مدارت بھول جاتے ہیں …
گاؤں کے چودھری کی شادی تھی، مراثی کو بھی دعوت ملی، وہ خوشی خوشی پہنچ گیا کہ گوشت کھانے کو ملے گا مگر جب کھانا پیش کیا گیا تو مراثی کے حصے میں فقط شوربہ ہی آیا، بوٹی نہ ملی۔ مراثی نے پھر سالن مانگا تو دوبارہ اس کی پلیٹ شوربے سے بھر دی گئی، دو تین مرتبہ جب ایسا ہی ہوا تو مراثی نے سالن کی پلیٹ پرے رکھی اور چودھری کے بیٹے کو آواز دے کر کہا ’’پتر، ذرا ٹوتھ پک دینا میرے دانتوں میں شوربہ پھنس گیا ہے۔‘‘
موقع کی مناسبت سے ہمیں ملا نصیر الدین کا وہ لطیفہ بھی یاد آرہا ہے جب ایک شخص ملا کے پاس آیا اور کہا: آپ کا بڑا کرم ہوگا اگر آج رات کا کھانا آپ میرے ساتھ کھائیں.. ملا نے کہا : میاں ! کیوں زحمت کرتے ہو؟اس شخص نے کہا:زحمت کی کوئی بات نہیں جو دال روٹی ہم گھر میں کھاتے ہیں وہی آپ کی نذر کروں گا… ملا جب رات کو اس شخص کے گھر پہنچے، دستر خوان کھلا تو دیکھا وہاں واقعی دال روٹی دھری ہے، اس اثناء میں میزبان کا بچہ اپنے باپ کے پاس آیا اور اس سے پیسے مانگے میزبان نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا: دفع ہوجاؤ یہاں سے، اگر تم نے اب پیسے مانگے تو میں تمہاری ٹانگیں توڑدوں گا… ملانے فوراً بچے کو گود میں اٹھایا ، اسے پچکارا اور کہا: ابو سے اب واقعی پیسے نہ مانگنا یہ شخص جو کہتا ہے وہی کرتا ہے!‘‘
وہ بھی کیا دور تھا کہ جب تقریبات گھر کے روبرو شامیانہ ڈال کر یاکسی قریبی رشتے دار یا پھردوست کے کشادہ گھر پرمنعقد کی جاتی تھیں۔ شادی خانے بالکل نہیں تھے یا پھر برائے نام تھے ،کھلی زمینیںتھیں لیکن لینڈ گرابرس کا زور نہ تھا۔ خود ہم نے جب شادی کرنے کی ہمت کی تو سیدھے ہمت پورہ پہنچ گئے، جہاں سڑک ہی پر ڈیرہ جماکر نکاح پڑھاگیا۔ ترکاری کی بریانی اور مرچیوں کا سالن دعوتیوں نے جم کر کھایا تھالیکن سرراہ ڈیرہ ڈال کر بچھائے گئے دستر خوان پر دعوت لوٹنے والے ہمارے دوست آج بھی اکثر ہم پر طنز کیاکرتے ہیں: ’’ حمید کی شادی کا ڈنر،روڈ پر بیٹھ کر کھانے والے سارے دوست آج بھی روڈ ہی پرہیں! ‘‘
آج کی دعوتوں میںہمہ اقسام کا چکن، ہمہ اقسام کی بریانی او رہمہ اقسام کے میٹھوں کے علاوہ حلیم ، مرگ، بکرے کی رانیں اور مختلف آئسکریمس وتھ ڈرائی فروٹس کی کثرت ہوا کرتی ہے اور تقریبات ختم ہونے پر بچا ہوا رزق ضائع کرتے ہوئے ہم ذرا نہیں سوچتے کہ ہم کتنے بڑے گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں ۔ایک طرف امیر طبقہ غذا کو بڑی بے دردی سے ضائع کررہا ہے تو دوسری طرف عام آدمی ہوا کھاکر اوراپنا خون پی کر زندہ ہے۔ پانی تو خیر سے فروخت ہونے لگا ہے ، لیکن نجانے کب ہوا بھی فروخت ہونے لگے اور غریب آدمی کا ہوا کھانابھی محال ہو جائے!ویسے کھانے کے معاملے میں حضرت انسان جتنا پیٹو واقع ہوا ہے،اتنا اس سرزمین پر دوسراکوئی اور جاندار ہرگزنہیں ہوسکتا ۔وہ نہ صرف کھانا کھاتا ہے بلکہ کھانے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ کھاتا ہے، مثلاً وہ گالی کھاتا ہے،غم کھاتا ہے ،چانٹے کھاتا ہے،چوٹیں کھاتا ہے، ہوا کھاتا ہے ،خود کو سچا ثابت کرنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھاتا ہے،حتیٰ کہ اپنی حرکتوں کی بدولت بسا اوقات جوتے تک کھاجاتا ہے لیکن اس کا پیٹ ہے کہ بھرنے کا نام ہی نہیں لیتا۔وہ جہاں اپنی بھوک مٹانے کی خاطرکیڑے مکوڑے تک چٹ کر جاتا ہے وہیں اپنی ہوس کا پیٹ بھرنے کے لیے رشوت اور کمیشن ہی نہیں دوسروں کا مال اور زمین جائیداد تک ہڑپ جاتا ہے ۔ویسے آج آدمی ، آدمی کو کھارہا ہے لیکن پھر بھی اس کی بھوک مٹ نہیںپا رہی ہے۔ہماری جھوٹی شان و شوکت کا یہ عالم ہے کہ لڑکے والے اپنے پسندیدہ عالیشان شادی خانے میں محفل عقد منعقد کرنے کے لیے لڑکی والوں پردباؤڈالتے ہیں۔بے شک ایسی شاندار دعوتوں کا مقصد اپنی جھوٹی شان بگھارنا ہوتاہے۔ بگھارنے پر ہمیں دال کاوہ بگھار یاد آگیا جب کہیں دال بگھاری جاتی توسارا محلہ اس بگھار سے مہک جاتا اور پڑوسی چھینکنے اور کھانسنے لگتے تھے۔ ماضی میں بریانی ، لقمی ، ڈبل کا میٹھا، سالن اورچٹنی اگر دسترخوان پر ہوتے توکہا جاتا تھاکہ لوازمات کے ساتھ کھانا دیا گیا۔
حیدرآبادی ڈبل کا میٹھا، دعوتوں سے ٹھیک اسی طرح غائب ہوچکا ہے جس طرح ملک سے کانگریس! گاجر کے حلوے کے علاوہ چقندر کا میٹھا ہر گھر میں تیار کیا جاتا تھا۔ آج شوگر کی بدولت لوگوں نے میٹھا کھانا تقریباً ترک کردیا ہے۔شاید مٹھاس ہمارے دلوں سے نکل کر خون میں شامل ہوگئی ہے۔ ایک دور تھا ڈبل کا میٹھا، ہر دعوت کی آن ، بان اور شان ہوا کرتا تھا،بلکہ یہ کہیں تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اس کے بغیر دعوت کا تصور ہی محال تھا۔ ڈبل کے میٹھے کی اپنی ہی پہچان تھی ، برصغیر ہند میں اسے ’’شاہی ٹکڑے‘‘ کہاجاتا تھا۔ آج کے میٹھوں کی طرح وہ کھلے عام دعوتوں میں ہرگزدستیاب نہ ہوتا، بلکہ اسے نہایت سلیقے اور اہتمام کے ساتھ چھوٹی سی خوب صورت پلیٹ میں سجا کردستر یا میز پر رکھتے اور پھراسے بڑی پلیٹ سے ڈھانک دیا جاتا تھا ، تاکہ کسی بد نظر کی نظر نہ لگے۔ نشست سنبھالنے کے بعد اپنی اپنی رکابی الٹتے ہی ڈبل کے میٹھے کو دیکھ کر مہمانوں کو جو مسرت میسر ہوا کرتی تھی وہ مسرت آج انہیںبے شمار میٹھوں کو دیکھ کر بھی نہیں ہوپاتی ہے۔وہ دعوتی جو رکابی الٹنے کے باوجود ڈبل کے میٹھے سے محروم ہوتے، فوراً غل غپاڑہ مچانا شروع کردیتے اور ان کے آس پاس بیٹھے دعوتیوں میں بھی ایسا غضب کا خلوص ہوتا کہ وہ بھی ان کے نعروں کے ساتھ نعرے لگاتے اور میزبان فوری انہیں ڈبل کا میٹھا فراہم کرنے پر مجبور ہوجاتے ! ایسا بھی ہوتا کہ کبھی کسی کے حصے میں ڈبل کا میٹھا ’’ ڈبل‘‘ آجاتا۔ ایسااس وقت ہوتا جب کسی دعوتی کے نہ آنے یا جگہ کی تنگی کی بدولت رکابی منہ کے بل یوں ہی پڑی اپنی قسمت پر ماتم کرتی رہتی اور قریب ہی بیٹھا چالاک دعوتی اس رکابی کو الٹ کر ڈبل کا میٹھا ہتھیا لیتاتھا۔ اس دعوتی کو سارے لوگ حسرت بھری نگاہوں سے گھورتے اور اپنے آپ میں کف افسوس ملتے کہ کاش! ایسا ’’سنہری‘‘ بلکہ ’’زعفرانی‘‘ موقع ہمیں ملا ہوتا ! بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ہاتھ دھوتے دھوتے ،گھر پہنچتے پہنچتے ، دوست احباب میںاِسی بات کے چرچے ہوتے اور اس دعوتی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جاتا:’’ یار! تم نے تو آج بازی مارلی، ڈبل کا میٹھا ڈبل کھالیا!‘‘ اور ڈبل کا میٹھا ڈبل کھانے والا بھی مونچھوں مونچھوں میں مسکرا تا جاتا اور جس کی مونچھیں نہیں ہوتیں وہ زیر لب مسکرا اٹھتا اور سوچتا کہ آج اس نے واقعی قلعہ فتح کرلیا ہے!
آج محل نما شادی خانوں کی دعوتوںمیں ہمہ اقسام کے پکوان ڈائننگ ٹیبل پرسجے ہوتے ہیں لیکن وہ بات کہاں …
۰۰۰٭٭٭۰۰۰