طنز و مزاحمضامین

مانسون جی۔23….چلے بھی آﺅ کہ گلشن کا ….

ڈاکٹرمحبوب فرید

یہ تو ہر عاقل و بالغ اچھی طرح جانتاہے کہ گلشن کے کئی کاروبار مانسون کی آمد سے جڑے ہوتے ہیں۔جس کوآسانی سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مانسون کی بلا وجہ تاخیر پر ہم ہر سال ایک مضمون روزنامہ منصف کے کالم کے توسط سے ان تک پہنچاتے ہیں،ا س کے بعد اتفاق سے زور دار بارش ہوجاتی ہے لیکن اس سال ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ایسا کوئی مضمون نہیں لکھیں گے کیوں کہ مانسون جی کو بھی ایسا مضمون پڑھنے کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے قارئین بھی باشعور ہیں ہر مضمون پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ چنانچہ دو چار فون آگئے کہ ہم اس موضوع پر ضرور لکھیں۔ ہم پھر بھی نہیں لکھے۔ آج کے دور میں فیس بک اور واٹس ایپ کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا چنانچہ اس نے ہمارا گزشتہ سال کا مضمون ڈال دیا۔ اب لا محالہ ہمیں یہ مضمو ن ہمارے باوقار قارئین کے لیے لکھنا پڑ ھ رہا ہے۔
معتبر ذرائع سے خبر آئی تھی کہ اسکولوں کی کشادگی سے قبل مانسون ہماری ریاست اور شہر حیدرآبا د میں داخل ہوجائے گا اور آثار بھی ایسے ہی دکھائی دے رہے تھے۔ لوگ مچھلی اور ہنگ کھا کر مانسون کے استقبال کے لیے تیار ہوگئے اور بار بار آسمان کی طرف دیکھنے لگے۔ ………… اس میں شک نہیں کہ …………باد ل آئے اور آس دکھا کر گزر گئے اورہم دیکھتے ہی رہ گئے۔اس بارش کی وجہ سے گرمی کی تمازت میں مزید اضافہ ہوگیا۔فیان ہی کیا کولر اور اے سی بھی اپنی بے بضاعتی بلکہ بے بسی کا رونا رونے لگے۔عموماً مانسون کی آمد کیر الا کی طرف سے ہوتی ہے۔ ٹامل ناڈو اور کرنا ٹک سے ہوتی ہوئی دو تین دن بعد ہماری ریاست میں داخل ہوتا ہے۔ کرنا ٹک میں حالیہ انتخا بات میں کانگریس کی غیر معمولی جیت کے بعد کوئی بھی چیز اُدھر سے آتی ہے تو بعض لوگوں کو ڈر لگتاہے۔ ہوا کے ساتھ فکر و نظر بھی نہ آجائے۔پتا نہیں مانسون کو کیا ہوگیا کہ کیرالا سے آگے بڑھ ہی نہیں رہا ہے۔ کہیں مانسون ریاستوں کے سیاسی حالات سے باخبر تو نہیں ہوگئے۔ یہ تو اللہ بہتر جانے۔البتہ ہم اتنا کہہ سکتے ہیں کہ مانسون کی مثال داماد جیسی ہوتی ہے۔ذرا مناؤ تو چنے کے جھاڑ پر جا بیٹھتا ہے۔ جھاڑ ایک محاورہ ہے درحقیقت چنے کا جھاڑ نہیں بلکہ پودا ہوتا ہے۔ شائد اس میں بھی طنز ہو اور ہم اس محاورے میں تبدیلی کے مجاز نہیں ہیں۔
بعض لوگوں کا خیال ہے اس طرح کے حالات میں ”مانسون۔ لا پتا“ کا اخبار میں اشتہار دینا چاہیے کار گر ثابت ہوتاہے۔مانسون کو معلوم ہوگا توخود چلے آئیں گے۔ مگر کون سے اخبار میں یہ اعلان شائع کروائیں۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ مانسون جی کون سا اخبار ملاحظہ فرماتے ہیں۔یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اخبار پڑھتے بھی ہیں کہ نہیں۔…………کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں برسنے یا گرجنے میں مصروف رہتے ہیں۔لیکن یہ ممکن ہے کہ وہ نہ پڑھیں تو ان کے نمائندے ضرور پڑھ لیں گے۔ اس لیے بہتر یہ ہوگا کہ مقامی یا علاقائی زبان کے اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار شائع کروادیں۔ہم کو یقین ہے کہ وہ روز نامہ منصف ضرور پڑھتے ہوں گے۔عموماً تلاش گمشدہ کے اشتہار اس طرح ہوتے ہیں۔ (بیٹا‘بیٹی‘ بہو‘ بیگم)تم کہیں بھی ہو گھر آجاؤ۔تمہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا۔ والدہ کے مزاج نا ساز ہیں۔ اسی طرح کا اشتہار تھوڑی تبدیلی کے ساتھ مانسون 23کے بارے میں شائع کروایا گیا۔ وہ پڑوسی ریاست کے مضافات میں رو پوش تھے جہاں پہلے ڈاکو رہا کرتے تھے۔وہ وہاں ڈاکوؤں کی بندقوں کی آواز و ں سے گھبرائے ہوئے تھے۔جیسے ہی یہ اشتہار پڑھا فوراً ہماری ریاست کی طرف آنے کا من بنا لیا۔محکمہ موسمیات کو بھی چاہیے کہ وہ پہلے مانسون جی سے مشورہ کرلیں۔ وہ قدرے جلد خفا ہیں۔
بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہم نے ہر سال مانسون کی شان میں قصیدہ پڑھ کر ان کی عادت بگاڑ دی ہے۔ جب تک یہ مضمون منصف میں شائع نہیں ہوتا وہ تشریف نہیں لاتے۔بعض لوگوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم نے مانسون کے ساتھ ساز باز کرلیاہے۔ یا ملی بھگت ہے۔ پھر ہم نے مانسون سے قطع تعلق کرلیا۔ اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بعض وقت تو لوگ …………گدھے کو بھی پہلوان کہتے ہیں ہم تو مانسون کو مانسون جی کہہ رہے ہیں۔ذرا آپ ہی غور کیجئے۔ بعض لوگ کتنے گدھو ں کو اب تک پہلوان کہہ چکے ہیں۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایک الگ بحث ہے۔ یہا ں تو گفتگوما نسون کی ہورہی ہے۔ دھوپ اور گرمی کی وجہ سے معصوم بچے‘ بزرگ حضرات اور خواتین بے چین و بے قرار ہیں۔ دن کو دھوپ کی وجہ سے گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ رات کو شہر میں بے انتہا ٹرافک ہوتی ہے۔ بعض لوگوں کے لیے تو دھوپ اور گرمی کی لُو سے بچنے کے لیے کوئی آسرا بھی نہیں ہے۔ ساری عمر فٹ پاتھ پر گزا را کرتے ہیں۔ معصوم پرندے اور جانور وں کے پاس گرمی سے بچاؤ کا کوئی آسرانہیں ہوتا۔ اللہ ان پر رحم کھا کر ہی مانسون کو بھیج دیتاہے ورنہ ہم تو اتنے ظالم اور کٹھور ہوگئے ہیں کہ نہ تو بیوی بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور نہ ماں باپ کا۔ رشتہ دار اور اڑوس پڑوس تو دور کی بات ہے۔ کچھ لوگ نیک ہیں اسی وجہ سے اللہ کو ہم رحم آتا ہے اور ہماری کوتا ہیوں کو درگز ر کرکے رحمت والی بارش برسا دیتے ہیں۔
مانسون جی! آخری بات سن لیں۔ہم نے آغاز میں کہا تھا کہ ”چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے“ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آ پ آئیں نہ آئیں گلشن کا کاروبار تو چلتا رہے گا۔البتہ آپ کے آنے سے اس کاروبار کا مزہ دوبالا ہوجائے گا۔مانسون جی کو ہماری یہ کھٹی مٹھی باتیں سننے کی عادت ہوگئی ہے۔ وہ ہمیں تو کیا محکمہ موسمیات کے ماہرین کو خاطر میں نہیں لاتے۔ ہم کو یقین ہے کہ وہ دوستی کی لاج رکھ لیں گے اور یہ مضمون شائع ہوتے ہی جھوم جھوم کر برس جائیں گے۔ خوش آمدید مانسون۔

a3w
a3w