’’مدھو بنی تصاویر‘‘ حیدرآباد سے اس کا کیا تعلق ہے؟
’’مدھو بنی‘‘ بہار کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ،جو لوک تصاویر کے لیے مشہور ہے ۔ اب ان تصاویر کے بنانے والوں کو حکومت امداد بھی دے رہی ہے اور قومی انعاموں سے نوازا بھی جارہا ہے ۔ مدھو بنی کی مشہور مصورہ جمنا بائی کی تصاویر کو جاپان کی حکومت نے خریدا بھی ۔
اودیش رانی
’’مدھو بنی‘‘ بہار کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے ،جو لوک تصاویر کے لیے مشہور ہے ۔ اب ان تصاویر کے بنانے والوں کو حکومت امداد بھی دے رہی ہے اور قومی انعاموں سے نوازا بھی جارہا ہے ۔ مدھو بنی کی مشہور مصورہ جمنا بائی کی تصاویر کو جاپان کی حکومت نے خریدا بھی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تصاویر صرف خواتین ہی بناتی ہیں۔اب حیدرآباد سے اس کا کیا تعلق ہے ؟دلچسپ سوال ہے کیوں کہ بہت کم لوگوں نے ان تصاویر کو یہاں دیکھا ہوگا ۔ اگر دیکھا بھی ہوگا تو نظر انداز کردیاہوگا۔
کائستھوں کے گھروں میں ہر تہوار کے موقع پر شادی بیاہ کے موقع پر گھر میں بچے کی پیدائش پر یہ تصاویر بنائی جاتی تھیں ۔ یہ تصاویر پوجا گھروں یا اس کے برآمدے میں بنائی جاتی تھیں۔ ان تصاویرکو بنانے کے فن سے لڑکی کا واقف ہونا ایسا ہی ضروری تھا جیسا کہ آج کے زمانے میں جہیز سے لدا پھندا ہوناضروری ہے۔
تہوار پر ایک ہفتے قبل ہی اس کی تیاری کرلی جاتی تھی۔ جس دیوارپر تصاویر بنانی ہوتی تھی اسے پہلے اس طرح کھروچ لیا جاتا تھا جیسے ٹائٹل لگانے کے لیے آج دیوار پر تیز نوکیلے ہتھیار سے ضرب لگاتے ہیں پھر دیوار کو دھویا جاتا اور اسے گوبر سے لیپا جاتا تاکہ دیوار قابل مصوری ہوجائے۔ جب گوبر سوکھ جاتا تو اس پر کاغذ سے پونچھا جاتا پھر لال مٹی سے لیپا جاتا ۔ لال مٹی سوکھ جاتی اور دیوار چکنی اور صاف ہوجاتی۔ اب چاول کو بھگو کر باریک پیس لیا جاتا ، اس میں ہلدی ملائی جاتی ۔ یہ مرکب بہت ہی ملائم پیسٹ بن جاتا ۔ اب دیوار پر حاشیہ بنایا جاتا جو چوکور ہوتا جس کے لیے پتلی لکڑی پر ردی لپیٹ کر برش تیار کیا جاتا ۔ حاشیہ عام طورپر کسی مکان کے دروازے جیسا ہوتا ۔ اوپر گنبد اور مینار کی شکل ہوتی جس میں چاند اور سورج بنائے جاتے پھر نیچے عام طورپر پیپر کے نشان بنائے جاتے تھے ۔ جن میں بچھوے اور پازیب بھی بنائے جاتے تھے ، ناخن پر کم کم سے رنگ بھی بھرا جاتاتھا۔
اب تہوار کے اعتبار سے اس میں تصویر بنائی جاتی تھی اور تصویر ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب بنائی جاتی تھی یعنی پہلے گنبدنما میناروں میں سورج اور چاند بنائے جاتے تھے اور ان کے درمیانی فاصلے کو ستاروں سے بھرا جاتا تھا ۔ منگل ، برہیت، شنی ، شکر جیسے ستارے اس میں بنائے جاتے تھے۔
اگردیوالی کا تہوار ہوتا تو رام، لکشمن ،بھرت ،سیتا کا ایودھیا میں آنا بتایا جاتا پھر ان کی آمد پر شہر میں آتش بازی کا منظر دکھاتے ۔ بیچوں بیچ رام، لکشمن، سیتا کو دکھاتے ۔ اب شہر کو ندی ، کنویں اور درختوں سے بھر دیتے۔ رام، لکشمن سیتا کے سر پرجس درخت کی چھایا ہوتی وہ آنولے کا درخت ہوتا۔ یہ نقش و نگار بہت ہی خوبصورت ہوتے اور اتنے باریک لکیروں سے بنائے جاتے کہ دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔
دیوالی کے بعد کروا چوتھ کا تہوار ہوتا ، اس میں ستیہ وان اور ساوتری کی کہانی بنائی جاتی تھی ۔ جس میں ساوتری کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوجاتی ہے جس کی موت کی پیشن گوئی ہوچکی ہوتی ہے ۔ ساوتری اس شخص کو موت کے منہ سے کھینچ لاتی ہے اور یم دوت سے بحث کرتی ہے اور اس بحث میں یم دوت ہار جاتے ہیں اور ستیہ وان کو واپس کردیتے ہیں ۔ ستیہ وان جو ایک لکڑ ہارے تھے ان کو ایک ملک کا بادشاہ بنا دیتے ہیں۔ اب ستیہ وان اور ساوتری مرکزی کردار ہوتے ہیں ، ان کے سر پر نیم کے پیڑ کا سایہ ہوتا ہے ۔
اگر شادی ہو تو سبھی دیوی دیوتاؤں کی اشکال بنائی جاتی تھیں تاکہ سبھی دلہا،دلہن کو آشیر واد دیں ۔شادی کی رسم پوری ہونے پر دلہن اور دلہا سیدھے اس تصویر کے سامنے پہنچتے تھے ۔ سب سے دلچسپ تصویر بچے کی پیدائش پر بنائی جاتی تھی۔ اس میں سانپ ،بچھو ، شیر ، بندر ، سبھی جانور ہوتے تھے ۔ پیڑوں پر چڑیاں ، طوطے اورپھل ہوتے تھے۔مرکزی حصے میں جھولا ہوتا تھا جس میں بچے کو انگوٹھا چوستا دکھاتے تھے۔
اب تو زندگی سکڑ رہی ہے ۔ کسی کے پاس بھی اتنی فرصت نہیں ہے کہ محنت سے یہ تصاویر بنائے۔ کچھ گھروں میں عمر رسیدہ خواتین کاغذ پر رنگوں کا استعمال کرکے تصاویربنا کر دیتے ہیں ۔ شادی اور بچے کی پیدائش پر بنی تصویریں تو گھروں میں گشت کرتی ہیں جب کہ دیوالی اور کروا چوتھ پر بنائی گئی تصویریں چند گھروں میں باقی رہ گئی ہیں۔
اب آپ کوان مدھو بنی تصویروں کا حیدرآباد سے تعلق سمجھ میں آگیا ہوگا کیوں کہ بہار سے کائستھ منتقل ہوکر دہلی اور شمالی ہند آنے پر مغلوں کے ساتھ جنوب میں آکر بس گئے تھے ۔ وہ آصف جاہی دور کے ہیں ، انہوں نے نمایاں حیثیت حاصل کرلی تھی۔
آج مدھو بنی کی ساڑیاں اور ڈریس میٹرئیل فیشن میں شامل ہیں ۔ مدھو بنی تصاویر اب دو طرح سے کپڑوں میں استعمال ہورہی ہیں ایک پینٹنگ اور دوسری بنوائی میں ۔افسوس تو یہ ہے کہ آج خود کائستھوں کے گھرانوں میں یہ فن بھولا بسرا ہوگیا ہے اور بہت لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ ان کے بزرگوں نے جو تصاویر کاغذ پر بنا کر دی ہیں وہ برسوں پرانی روایت ہے۔
شاید ہماری آج کی مصروفیات اور مہنگائی کی دہشت نے ہمارے نازک احساسات کو دبا دیا ہے ۔
ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہم پودوں ، پھولوں ، پیڑوں کی پرستش نہیں کرتے بلکہ ان کی حفاظت کرنا ہمارا مقصد ہے ۔اس کا عکس ہم مدھو بنی کی تصاویر میں بہت واضح ملتا ہے کیوںکہ ہم اس میں کنواں ، ندی ، پیڑ ، مکان ( جھونپڑی نما) بچے ،جانور ، گائے ، بکری ، خوبصورت بیلیں، سانپ ، چوہے دونوں کھیتوں میں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
پھر دلچسپ کہانیاں جس میں عورت،سورگ کے دروازے سے اپنے شوہر کو واپس دنیا میں لاتی ہے ۔ یہ تصاویر صرف عورتیں بناتی ہیں، اس لیے ان میں عورتوں کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔
٭٭٭