سیاستمضامین

مرکزی وزیر داخلہ سے مسلمانوں کےوفد کی پہلی باضابطہ ملاقات۔۔۔

پروفیسر اختر الواسع

4 اپریل کو جمعیۃ علماء ہند کے جواں ہمت اور فعال صدر مولانا سید محمود اسعد مدنی کی قیادت میں ایک 16رکنی وفد نے وزیر داخلہ شری امت شاہ سے ملاقات کی۔ خیر سے عام طور پر اس ملاقات کا مسلمانوں نے خیرمقدم ہی کیا لیکن اس کے باوجود کچھ لوگ اس ملاقات پر بھی چہ بہ جبیں نظر آئے اور ملاقات کے حوالے سے جو خبر دی گئی اس میں جناب نیاز فاروقی کے ایک سچے بیان کو حوالہ بنا کر تنقیدیں شروع ہو گئیں۔ نیاز فاروقی صاحب نے انتہائی دیانت کے ساتھ جو امرِ واقعی بھی تھا، یہ کہہ دیا کہ وزیر داخلہ اس ملاقات میں ویسے بالکل نظر نہیں آئے جیسا کہ عام طور پر ان کی شبیہ بنی ہوئی ہے۔ بس پھر کیا تھا بعض لوگوں نے اسے مولانا محمود مدنی اور ارکانِ وفد کا شری امت شاہ کا مرید ہونا قرار دے دیا۔ جب کہ سچی بات یہی ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے سے زیادہ کی اس ملاقات میں وزیر داخلہ نے انتہائی شائستگی اور متانت کے ساتھ مولانا محمود مدنی کی قیادت والے اس وفد سے کھل کر باتیں کیں اور اسی طرح انتہائی تحمل کے ساتھ وفد کی باتوں کو سنا۔ اب اگر مرکزی وزیر داخلہ اپنی اس ملاقات میں شائستگی، متانت اور تحمل سے کام لیتے ہوئے نظر آئیں تو یہ کہاں کا انصاف ہوگا کہ اراکین وفد باہر نکل کر دنیا جہان کو یہ بتانے کی الٹی کوشش کریں کہ وہ نامہربان تھے جب کہ ایسا بالکل نہیں تھا۔ دراصل ہمارے یہاں کچھ لوگ زخموں کی تجارت کے اتنے عادی ہیں کہ وہ کسی سچی بات کو قبول کرنے کو آسانی سے تیار ہی نظر نہیں آتے۔
ہم اس سے پہلے بھی اپنے مضامین میں بارہا یہ لکھتے رہے ہیں کہ مسلمانوں اور حکومت کے بیچ میں بات چیت کے دروازے بند نہیں رہنے چاہئیں۔ ہمیں اور حکومت دونوں کو کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جمہوریت میں عوام کے ووٹوں کی اکثریت سے منتخب ہونے والی حکومت کسی ایک فرقے اور جماعت کی نہیں ہوتی بلکہ سب کی ہوتی ہے اور ہمیں اس بات کا پورا حق ہے کہ ہم سیاسی جماعتوں سے اختلاف کریں لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سماجی تحفظ اور معاشی منفعت کے لیے حکومت کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے اور سرکار اور کسی ایک سماجی گروہ کے بیچ میں یہ دوری اس وقت اور بھی سنگین ہو جاتی ہے جب بات چیت کے تمام دروازے بند کر دیے گئے ہوں اور سرکار سماج میں برپا تشد،د ظلم و زیادتی اور ناانصافی پر اگر خاموش رہے تو اس سے اور زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لیے سرکار اور تمام مذہبی اور لسانی گروہوں کے درمیان بات چیت ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے آپ اپنے مسائل کو حل کر سکتے ہیں، مصائب کا علاج ڈھونڈھ سکتے ہیں اور اپنے اور سرکار کے معائب کی اصلاح کر سکتے ہیں۔
رام نومی کے ارد گرد ملک میں فرقے وارانہ تشدد کا جو افسوس ناک منظر نامہ سامنے آیا، جس طرح ملک میں مذہبی اشتعال انگیزی، دھمکیاں اور ایک دوسرے پر حملے کے مناظر دیکھنے کو ملے بلکہ مستقل دیکھنے کو ملتے ہی رہے ہیں اس پر سبھی کو دکھ اور قلق ہونا چاہیے۔ اس لیے ان حالات میں بھی یکسر خاموش بیٹھنا اور صرف احتجاجی بیانات اخبار میں چھپوا لینا کافی نہیں تھا بلکہ صورتحال اس کی متقاضی تھی کہ اربابِ حل و عقد سے کھل کر بات کی جائے اور خدا بھلا کرے مولانا سید محمود اسعد مدنی کا کہ انہوں نے اس سلسلے میں جو کوشش کی اس کے نتیجے ہی میں مرکزی وزیر داخلہ سے مسلمانوں کی یہ ملاقات ممکن ہو سکی۔ اس میں انتہائی مختصر نوٹس پر دہلی، مہاراشٹرا، کرناٹکا، کیرالہ، تامل ناڈو، یوپی، پنجاب ، ہریانہ، ہماچل پردیش کے نمائندے شامل ہوئے اور اس میں کل ہند جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، مشہور ماہر تعلیم جناب پی اے انعامدار، انجمن اسلام مہاراشٹرا کے صدر ڈاکٹر ظہیر قاضی، جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر مولانا محمد سلمان بجنوری صاحب، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بوڑ دکے ممتاز رکن جناب کمال فاروقی، مولانا شبیر ندوی صاحب، صدر، ناصح ایجوکیشنل ٹرسٹ بنگلورو، مفتی افتخار احمد، صدر، جمعیۃ علماء کرناٹکا، مولانا ندیم صدیقی صاحب، صدر، جمعیۃ علماء مہاراشٹرا، مولانا علی حسن مظاہری صاحب، صدر، جمعیۃ علماء ہریانہ، پنجاب، ہماچل پردیش، مولانا محمد ابراہیم صاحب، صدر، جمعیۃ علماء کیرالہ، حاجی حسن احمد صاحب، جنرل سیکریٹری، جمعیۃ علماء تامل ناڈو اور راقم الحروف، مولانا نیاز احمد فاروقی، رکن مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کے علاوہ شامل تھے۔
اس وفد نے مولانا محمود مدنی کی قیادت میں مرکزی وزیر داخلہ کی خدمت میں ایک میمورینڈم بھی پیش کیا جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ ’’آج ہمارے ملک میں اسلاموفوبیا اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و اشتعال انگیزی کے واقعات میں لگاتار اضافہ ہورہاہے جن کے باعث ملک کے معاشی و تجارتی نقصان کے علاوہ ملک کی نیک نامی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اس لیے ہم حکومتِ ہند کو متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ فوری طور سے ایسے اقدامات پر روک لگائے جو جمہوریت، انصاف و مساوات کے تقاضوں کے خلاف اور اسلام دشمنی پر مبنی ہیں۔ نفرت پھیلانے والے عناصر اور میڈیا پر بلا تفریق سخت کارروائی کی جائے۔ بالخصوص سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کی روشنی میں لاپروائی برتنے والی ایجنسیوں پر ایکشن لیا جائے اور شرپسندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔‘‘ اس کے علاوہ وفد نے ماب لنچنگ کے واقعات خاص طور پر ناصر اور جنید کے ساتھ ہونے والی ظلم اور بربریت اور اسی طرح مدھیہ پردیش اور کرناٹکا میں جس طرح بہیمانہ واقعات پیش آئے ہیں، کو روکنے کے لیے سرکار کو ہر ممکن اقدام کرنا چاہیے، کی طرف توجہ دلائی۔ اس کے علاوہ یکساں سول کوڈ کے حوالے سے وفد نے وزیرداخلہ کو یہ بتایا کہ یکساں سول کوڈ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے اور ہماری تکثیریت کو نظراندازکرکے جو بھی قانون بنایا جائے گا اس کا براہِ راست اثر ملک کی وحدت اور سالمیت پر پڑے گا۔ وفد نے مرکزی وزیر داخلہ پر یہ بھی واضح کر دیا کہ مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی کوشش جمہوریت کی روح اور دستورِ ہند میں دی گئی ضمانت کے خلاف ہے۔ جب اس ملک کا آئین وضع کیا جا رہا تھا تو دستور ساز اسمبلی نے یہ ضمانت دی تھی کی مسلمانوں کے مذہبی امور بالخصوص ان کے شخصی قوانین کے ساتھ کوئی بھی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ اسی طرح مدارس اسلامیہ کی آزادی و خودمختاری کو دستور کے تئیں مسلمانوں کا بنیادی حق بتاتے ہوئے وفد نے مرکزی وزیر داخلہ کو دو ٹوک لفظوں میں یہ بتا دیا کہ ہم اس پر کوئی مصالحت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ مدرسوں کا وجود دیش کی سنسکرتی کے لیے قابل فخر سرمایہ ہے۔ اس کے علاوہ مولانا کلیم صدیقی، محمد عمر گوتم اور ان کے دوسرے ساتھیوں کی رہائی کابھی مطالبہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ آسام کے جبری انخلا اور کشمیر کی موجودہ صورتحال، وقت جائیدادوں کا تحفظ، کرناٹکا میں ریزرویشن ختم کرنے، مسلمان بچیوں کے حجاب پر اعتراض کرنے اور اس طرح تعلیمی پسماندگی کا شکار بنانے کی کوششوں پر بھی وزیر داخلہ کی توجہ مبذول کرائی گئی۔ وفد نے مولانا آزاد ایجوکیشن اسکالرشپ کی بحالی پر بھی زور دیا۔
وزیر داخلہ نے تشدد اور نفرت کی مہم پر وفد کی فکرمندی سے اتفاق کرتے ہوئے یہ کہا کہ اگر کہیں انتظامیہ کی طرف سے کیے گئے اقدامات سے آپ مطمئن نہیں ہیں تو آپ کو پوری آزادی ہے کہ آپ مجھے مطلع کریں اور میں اس پر صحیح کارروائی کو کرنے کے لیے دستوری طور پر پابند ہوں۔ انہوں نے کشمیر کے مسئلے کو مسلمانوں کا مسئلہ نہ بنانے پر زور دیا اور کہا کہ کشمیر میں رہنے والا ہر شخص وہ چاہے مسلمان ہو، ہندو یا سکھ، یا بدھسٹ، اس کی حفاظت اور ترقی ہماری ذمہ داری ہے۔
غرض اس ملاقات سے یہ سمجھنا کہ سارے مسئلے یک دم حل ہو جائیں گے، مصائب کا خاتمہ ہو جائے گا، ایسا وفد کے کسی شخص کا خیال نہیں تھا۔ لیکن بہرحال یہ کم سے کم پہلی دفعہ ہی سہی، ہوا تو کہ مسلمانوں نے اس ملک کے مرکزی وزیر داخلہ کی خدمت میں اپنے دکھ، اپنی پریشانیاں پیش کیں، انہوں نے انہیں سنا اور دستور اور انصاف کی پاسداری کا یقین دلانے کی کوشش کی۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر خیرسگالی کا ماحول پیدا ہوگا، اگر پریشانیاں دور ہوں گی تو اس کے لیے بات چیت کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ وقت ہے کہ کچھ سمجھ کر کچھ سمجھا کر حالات کو بہتر بنایا جائے۔ یہاں ایک بات اورکہنا ضروری ہے کہ صرف سرکار اور دربار سے بات چیت کا فی نہیں۔ضروری ہے کہ عامۃ المسلمین اس دیش کے رہنے والے عامۃ الناس سے رشتہ جوڑیں، بات کریں، بات سنیں، ان کی خوشی اور غم میں شریک ہوں اور اپنے سکھ دکھ میں ان کو ساجھی دار بنائیں۔ ہم بار بار یہ کہتے رہے ہیں اور پھر ایک بار کہنا چاہتے ہیں کہ ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں وہ نہ مجادلے کا زمانہ ہے، نہ مناظرے کا بلکہ مکالمے کا ہے۔ اس لیے:
گفتگو ختم نہ ہو بات سے بات چلے۔۔۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز)ہیں۔)