سیاستمضامین

بیت المقدس لہـو لہـو

فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ اگر اسلامی دنیا نے حرم الشریف کی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے سخت موقف اختیار نہ کیا تو ٹیمپل مائونٹ پر انتہا پسندو ں کا قبضہ چند سالوں کی بات ہے

مسعود ابدالی

تقسیم ہندوستان سے قبل 1946ء میں بہار مسلم کُش فسادات کا شکار ہوا۔ تلہاڑہ و دنّیاواں مسلمانوں کے لہو سے سرخ ہوگئے۔ ہمارے والد حضرت رخشاں ابدالی نے ان علاقوں کا مشاہدہ کرکے ایک مرثیہ لکھا جس کے دو اشعار کچھ اس طرح ہیں:
ہے حشر کا منظر کہ قیامت کا ہے عالم
اِن آنکھوں سے اللہ یہ کیا دیکھ رہے ہیں
یہ عید کے دِن اور ہیں عاشورہ سے بدتر
مجبور ہیں جو حکمِ قضا دیکھ رہے ہیں
یہ فسادات غالباً عیدالاضحیٰ کے دوران ہوئے تھے۔ اب کچھ ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا فلسطینیوں کو ہے، کہ عید کی آمد آمد پر بیت المقدس، دریائے اردن کا مغربی کنارہ اور غزہ مظلوموں کے خون سے لہولہان ہیں۔ اسرائیلی فوج کا جوتوں سمیت مسجد اقصیٰ میں داخلہ روز کامعمول بن گیاہے ۔
ہر فلسطینی کی یہ خواہش ہے کہ رمضان میں وہ کم از کم ایک وقت کی نماز مسجد اقصیٰ میں ادا کرے۔ ان کے یہاں روزہ مسجد میں کھولنے کا رواج ہے، لہٰذا عصر کے بعد سے مسجد آباد ہوجاتی ہے۔ اس کے بابِ دمشق پر خوانچہ فروشوں کا بازار لگا رہتا ہے، جہاں سے لوگ افطار کا سامان خریدتے ہیں۔ افطار حرم شریف کے فرش پر ہوتا ہے جہاں ہر روز 75 ہزار اور جمعہ کو ایک لاکھ نمازی جمع ہوتے ہیں۔ تراویح کے بعد قریبی علاقوں کے لوگ تو گھر لوٹ جاتے ہیں لیکن دوردراز سے آنے والے افراد سحری اور نمازِ فجر کے بعد واپس ہوتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ ہر مسلمان کو محبوب ہے لیکن فلسطینی اسے اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں، حتیٰ کہ وہ افراد جو باقاعدہ نماز نہیں پڑھتے وہ بھی کم از کم جمعہ کو یہاں ضرور آتے ہیں۔ یوں سمجھیے کہ فلسطینی مسجد اقصیٰ کو آباد و پُررونق رکھنا اپنی ملّی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے مسجداقصیٰ حوصلے اور امید کا مرکز ہے۔ فوجی چھاپوں، شناختی پریڈ، فائرنگ، بمباری، پیاروں کی گرفتاری اور قید وبند کی صعوبتوں میں انھیں مسجد اقصیٰ آکر ایک خاص سکون ملتا ہے۔ فائرنگ سے شہید ہونے والے بچوں کے والدین اپنے جگر گوشوں کی تدفین کے بعد آہ و زاری اور اللہ سے مناجات کے لیے سیدھا مسجد اقصیٰ آتے ہیں۔ گویا اللہ کا یہ قدیم گھر فلسطینیوں کے لیے ماں کی گود کی طرح ہے۔ یہ شوق اور قبلہ اول سے دیوانگی کی حد تک عشق ان کے دشمنوں کو پسند نہیں۔ اسرائیلی اہلکار اکثر یہ کہتے پائے گئے کہ ہر فلسطینی محلے میں مساجد موجود ہیں تو پھر انھیں لمبا سفر کرکے مسجد اقصیٰ آنے کا خبط کیوں ہے!
فلسطینی خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کو پُرخطر بناکر یہاں آمد کی حوصلہ شکنی کرنا چاہتا ہے۔ عرب اور مسلمان دنیا کی سردمہری سے ان کا احساسِ محرومی مزید بڑھ چکا ہے۔ تقریباً تمام عرب ممالک فلسطینیوں کو نظرانداز کرکے اسرائیل کے خاصے قریب آگئے ہیں۔ جن ممالک نے اسرائیل کو سفارتی سطح پر تسلیم نہیں کیا ان کی فضائی حدود اب اسرائیلی طیاروں کے لیے کھولی جاچکی ہیں۔ بحر احمر سے اسرائیل آنے والے بحری جہازوں کے لیے بھی سعودی بندرگاہوں سے ایندھن لینا کچھ مشکل نہیں۔
اِس بار یہودیوں کا تہوارِ نجات(Passover) رمضان کے دوران آیا ہے۔ عرب نژاد یہودیوں کے خیال میں یہ اس عظیم واقعے کی یادگار ہے جب سمندر کو پھاڑ کر اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحر قلزم سے بحفاظت گزار کر ان کے سامنے فرعون اور اس کے پورے لشکر کو انتہائی ذلت کے ساتھ غرق کردیا۔ یہ عبورِ عظیم Passoverکہلاتا ہے۔ دوسری طرف یہودیوں کے سوادِ اعظم کے خیال میں قصہ کچھ اس طرح ہے کہ اللہ نے اہلِ مصر کو 10 آفتوں میں مبتلا کیا جو دراصل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے اللہ کی نشانیاں تھیں۔ قرآن میں 9 نشانیوں کا ذکر ہے۔ (سورہ بنی اسرائیل )
آخری عذاب سے پہلے اللہ نے حضرت موسیٰؑ سے فرمایا کہ فلاں رات کو تمہارے دشمن یعنی ہر مصری کا سب سے بڑا بیٹا مرجائے گا اور سزا صرف انسانوں تک ہی نہیں رہے گی بلکہ ان کے جانوروں اور مویشیوں کاپہلا بچہ بھی اس رات ہلاک ہوگا۔ اسرائیلیوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ شناخت کے لیے قربان کی گئی بھیڑ کا خون اپنے گھروں کے دروازوں اور دہلیز پر لتھیڑ دیں تاکہ موت کا فرشتہ انھیں چھوڑ کر (Passover)آگے بڑھ جائے۔
اس تہوار کی سب سے اہم عبادت ہر خاندان کی طرف سے ایک بھیڑ یا بکرے کی قربانی ہے۔ ان کی مذہبی کتابوں میں کہیں درج نہیں لیکن انتہا پسندوں کا اصرار ہے کہ Passoverکی خصوصی عبادت وہ حرہا بیت (پہاڑی پر مقدس گھر) یا Temple Mountپر کریں گے جو عملاً مسجد اقصیٰ کا دالان ہے۔ اس پورے حصے کومسجدالاقصیٰ کمپائونڈیا الحرم الشریف کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ کچھ شرپسند قربانی بھی وہیں کرنا چاہتے ہیں۔ یعنی دالانِ مسجد کو مذبح بنادیا جائے۔
ہر سال اس تہوار سے پہلے یہ شوشا اٹھایا جاتا ہے، لیکن بیت المقدس پر قبضے کے وقت اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کی حیثیت برقرار رکھنے کا جو وعدہ کیا تھا اس کی لاج رکھتے ہوئے انتہا پسندوں کو اب تک اس کی اجازت نہیں دی گئی۔ جب 1967ء میں سقوطِ مسجداقصیٰ کا سانحہ پیش آیا اُس وقت اسرائیل نے اقوامِ عالم کو القدس شریف کی حیثیت برقرار رکھنے کا یقین دلایا تھا جو Status Quo معاہدے کے نام سے مشہور ہے۔ معاہدے کے تحت القدس شریف میں غیر مسلموں کا داخلہ اوقاف کی اجازت سے مشروط ہے، اور زیارت کے لیے آنے والے غیر مسلم یہاں عبادت نہیں کرسکتے۔
گزشتہ سال کے اختتام پر جب انتہا پسند حکومت نے اقتدار سنبھالا، اُسی وقت وزیر اندرونی سلامتی المعروف وزیر پولیس اتامر بن گوئر نے کہا کہ ٹیمپل مائونٹ پر عبادت ہر یہودی کے لیے باعثِ سعادت ہے۔ اور حلف اٹھانے کے تیسرے ہی دن موصوف وہاں تشریف لے گئے۔ تاہم ضابطے کے مطابق انھوں نے اقصیٰ اوقاف ٹرسٹ کو قبل از وقت مطلع کیا، اور وہ چند منٹ چہل قدمی کرکے عبادت کیے بغیر وہاں سے واپس آگئے۔ اس بات پر متحدہ عرب امارات نے سلامتی کونسل میں اس پر احتجاج کیا تو اسرائیل کے سفیر جیلاڈ آرڈن نے ڈھٹائی سے کہا کہStatus Quo کا وعدہ غلط تھا۔ مسلمانوں کے لیے مسجداقصیٰ کا درجہ مکہ اور مدینہ کے بعد ہے جبکہ ہرہابیت یہودیوں کا مقدس ترین مقام ہے۔
اس ماہ کے آغاز پر وزیرپولیس نے یہودیوں کو پاس اوور کے دوران ٹیمپل مائونٹ یعنی الحرم الشریف جانے کی دعوت دی۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو اشتعال دلانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ انتہا پسندوں نے کہا کہ وہ قربانی کی بھیڑیں وہیں ذبح کریں گے۔ مویشیوں کے تاجروں نے قربانی کے جانور بابِ دمشق پہنچانے کی پیشکش کی۔ جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا، بابِ دمشق مسلمانوں کی بیٹھک ہے جہاں خوانچہ فروش سحر و افطار کا سامان اور مشروبات فروخت کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ کچھ متمول اسرائیلیوں نے اعلان کیا کہ ذبح خانوں سے باہر جانور ذبح کرنے کے الزام میں میونسپلٹی کا جرمانہ وہ ادا کریں گے۔ مسجد آنے کی حوصلہ شکنی کے لیے جگہ جگہ ناکے لگا دیے گئے جہاں تلاشی کے نام پر تذلیل کی جاتی ہے۔ پردہ دار خواتین سے بدتمیزی بلکہ دست درازی کے واقعات عام ہیں جس پر تصادم میں کئی فلسطینی مارے گئے۔
ان حرکات پر مسلمانوں کا اشتعال فطری تھا، چنانچہ 4 اپریل کو افطار کے بعد تراویح سے پہلے مسلمانوں نے القدس لنا (القدس ہمارا ہے) کے روایتی نعرے لگائے۔ اس پر پہلے تو پولیس نے دالان میں آنسو گیس کے گولے پھینکے۔ بزرگ، اِن جوشیلے نوجوانوں کو سمجھا بجھا کر مسجد کے اندر لے آئے اور احتیاطاً مسجد کے دروازے اندر سے بند کرلیے گئے تاکہ تصادم نہ ہو۔ لیکن مسلح پولیس مسجد اقصیٰ کے اندر گھس گئی۔ آنسو گیس اور ربر کی گولیوں کے علاوہ اعصاب کو وقتی طور پر مائوف کردینے والے Stun Grenade پھینکے گئے۔ مسلح سپاہیوں نے سیکڑوں نوجوانوں کو ہاتھ پیر باندھ کر مسجد کے فرش پر ؒلٹا دیا، بعد میں یہ بندھے ہوئے نوجوان بھیڑ بکریوں کی طرح گاڑیوں میں ٹھونس کر جیل پہنچادیے گئے۔ صرف ایک رات میں 500 سے زیادہ بچے گرفتار ہوئے۔ جمعہ 7 اپریل تک ہر روز تراویح سے پہلے پولیس آپریشن معمول بنارہا۔ پولیس کا اصرار ہے کہ نماز صرف مسجد کے اندر ہوگی، لیکن آنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ ہے چنانچہ گنبدِ صخرا تک سارے کمپائونڈ میں صفیں بنی ہوتی ہیں۔ سحری و افطار بھی دالان ہی میں ہوتی ہے۔ سوشل میڈیا پر وہ بصری تراشے دیکھے جاسکتے ہیں جس میں اسرائیلی سپاہی جماعت میں کھڑے نمازیوں کو لاٹھیاں مار رہے ہیں۔
دوسری طرف غربِ اردن کے مختلف شہروں میں اسرائیلی فوج کا آپریشن اپنے عروج پر ہے۔ مکانوں کے انہدام اور چھاپوں میں کئی نوجوان فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔ بیت المقدس اور فلسطینی آبادیوں پر حملوں کے ساتھ غزہ پر فضائی حملے جاری ہیں اور گزشتہ ہفتے سے ان کا دائرہ جنوبی لبنان اور شام تک بڑھادیا گیا ہے۔
اس ساری وحشت کے دوران امریکہ پورے عزم و حوصلے کے ساتھ اسرائیل کی پشت پر ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ویدانت پٹیل نے واشنگٹن میں صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ غزہ اور لبنان سے راکٹ حملے کی مذمت کرتا ہے۔ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ اسرائیل کی سلامتی کے لیے ہمارا عزم آہنی ہے۔ گزشتہ ہفتے جب چین اور متحدہ عرب امارات کے مطالبے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس ہوا تو امریکہ کا اصرار تھا کہ غزہ سے راکٹ باری کی مذمت کی جائے، جبکہ دوسرے ارکان کا کہنا تھا کہ راکٹ باری کے ساتھ اسرائیلی بمباری اور مسجد اقصیٰ میں پُرتشدد کارروائیاں بھی قابلِ مذمت ہیں۔ اسرائیلی جریدے ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر جیلاڈ آرڈن نے بائیڈن انتظامیہ سے مداخلت کی درخواست کی، چنانچہ کونسل کے صدر نے کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ سلامتی کونسل میں کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہوسکتی جب تک پانچوں مستقل نمائندے یعنی امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین متفق نہ ہوں، یہی اصول بیان کے اجرا کے لیے بھی ہے۔
وزیر پولیس کی دعوت پر ہفتہ 15 اپریل کو مسلح سپاہیوں کے ساتھ کئی درجن انتہاپسند زیارت کے لیے ٹیمپل مائونٹ آگئے۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ زائرین کی آمد سے پہلے اوقاف بورڈ کو مطلع کردیا گیا تھا۔ زائرین کو قربانی کے جانور لانے کی اجازت نہ تھی، اور یہ لوگ عبادت کیے بغیر ترانہ دائودؑ اور مناجات پڑھ کر وہاں سے چلے گئے۔
اِس بار بہت عرصے بعد ایران نواز حزب اللہ نے فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اہلِ غزہ کی طرح اسرائیل کے فوجی ٹھکانوں پر راکٹ برسائے۔ اکثر راکٹ اور میزائیل تو امریکہ کے فراہم کردہ آئرن ڈوم میزائیل شکن نظام نے ناکام بنادیے لیکن لبنان سے داغا جانے والا ایک راکٹ شمالی اسرائیل کے شہر سلامی (عبرانی تلفظ شلومی) میں سرکاری بینک پر گرا جس سے عمارت بالکل تباہ ہوگئی۔ فلسطینی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایران سعودی عرب کشیدگی کم ہونے سے حزب اللہ اور حماس کے درمیان عسکری تعاون دوبارہ بحال ہورہا ہے۔
فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ حالیہ دنوں میں شام اور لبنان سے حماس کو جو کمک فراہم کی گئی ہے وہ عارضی و اتفاقی ہے یا اب حزب اللہ نے حماس کی ویسی ہی پشت پناہی کا فیصلہ کرلیا ہے جیسی وہ شام کی خانہ جنگی سے پہلے کیا کرتے تھے۔ اسرائیل نے یہ خطرہ بھانپ لیا ہے، چانچہ شامی راکٹ باری کے بعد مصر کے ذریعے حماس سے امن بات چیت کا آغاز ہوگیا ہے۔ دوسری طرف یہودی زائرین کو بیس بیس کے گروپ میں ٹیمپل مائونٹ آنے کی اجات دی جارہی ہے اور زیارت کا وقت بھی نمازِ فجر کے ایک گھنٹے بعد سے ظہر تک محدود کردیا گیاہے۔ اس دوران جب فلسطینیوں نے القدس لنا کے فلک شگاف نعرے لگائے تو پولیس مسجد میں داخل ہوئی اور نہ باہر لگے لائوڈاسپیکر کو منقطع کیا۔ بیت المقدس آنے والے راستوں پر لگے کچھ ناکے بھی ختم کردیے گئے ہیں۔
4 سے 13 اپریل تک تشدد، قبلہ اول کی بے حرمتی اور نمازیوں کو عبادت سے روکنے کے جو واقعات ہوئے اس تناظر میں موجودہ صورتِ حال کچھ بہتر محسوس ہورہی ہے، لیکن حرم الشریف کی حیثیت یا Status Quo برقرار رکھنے کا اسرائیل نے اقوام عالم کے سامنے جو تحریری وعدہ کیا تھا اس کی صریح خلاف ورزی قابلِ تشویش ہے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق اس سال پاس اوور کے دوران 843 یہودی زائرین ٹیمپل مائونٹ آئے جو گزشتہ سال سے 43 فیصد زیادہ ہے۔ فلسطینیوں کو ڈر ہے کہ اگر اسلامی دنیا نے حرم الشریف کی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے سخت موقف اختیار نہ کیا تو ٹیمپل مائونٹ پر انتہا پسندو ں کا قبضہ چند سالوں کی بات ہے۔