سوشیل میڈیامذہب

مسلمانوں سے ’ہندوتوا‘ کے بے جا مطالبے

ہندستان کی شدّت پسند اور’ ہندوتوا‘ کی عَلَم بردار تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک راہ نما اور نظریہ ساز رام مادھو نے ایک سہ نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے، جس پر عمل کرکے ہندستانی مسلمان ملک میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے نکات درج ذیل ہیں:

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

ہندستان کی شدّت پسند اور’ ہندوتوا‘ کی عَلَم بردار تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ (RSS) کے ایک راہ نما اور نظریہ ساز رام مادھو نے ایک سہ نکاتی فارمولہ پیش کیا ہے، جس پر عمل کرکے ہندستانی مسلمان ملک میں سکون کے ساتھ زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس فارمولے کے نکات درج ذیل ہیں:

۱۔مسلمان غیر مسلموں (ہندؤوں)کو کافر نہ کہیں۔
۲۔ وہ خود کو عالمی مسلم امت کا حصہ سمجھنا ترک کردیں ۔
۳۔ وہ نظریۂ جہاد سے خود کو الگ کرلیں۔

یہ مطالبات اسی نوعیت کے ہیں، جیسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپؐ کے زمانے کے مشرکین کرتے تھے۔آپؐ نے اسلام کی دعوت دینی شروع کی تو مشرکین نے اس سے روکنے اور اس کام سے باز رکھنے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے۔ ابتدا میں مخالفت ہلکی رہی ، لیکن بعد میں اس میں شدّت آتی گئی۔کمزور سماجی حیثیت رکھنے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستایا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سودا بازی کرنے کی کوشش کی گئی ۔ آپؐ سے مطالبہ کیا گیا کہ کچھ باتیں آپؐ ان کی مان لیں تو وہ کچھ باتیں آپؐ کی مان لیں گے ، لیکن ان سے صاف صاف کہہ دیا گیا کہ دین کے معاملے میں کوئی مداہنت نہیں ہوسکتی۔قرآن مجید میں ہے:

فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِيْنَ۝۸ وَدُّوْا لَوْ تُدْہِنُ فَيُدْہِنُوْنَ۝۹ (القلم ۶۸: ۸-۹) لہٰذا تم ان جھٹلانے والوں کے دباؤ میں ہرگز نہ آؤ۔یہ تو چاہتے ہیں کہ کچھ تم مداہنت کرو تو یہ بھی مداہنت کریں۔

قرآن نے مخالفین ِ اسلام کی مسلمانوں سے عداوت اور ان کی قولی اور عملی شر انگیزی کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے دلوں میں چھُپے ارمانوں سے ان الفاظ میںپردہ اٹھایا ہے :

اِنْ يَّثْقَفُوْكُمْ يَكُوْنُوْا لَكُمْ اَعْدَاۗءً وَّيَبْسُطُوْٓا اِلَيْكُمْ اَيْدِيَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بِالسُّوْۗءِ وَوَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ ۝۲ۭ ( الممتحنۃ۶۰:۲)ان کا رویّہ تو یہ ہے کہ اگر تم پر قابو پاجائیں تو تمہارے ساتھ دشمنی کریں اور ہاتھ اور زبان سے تمھیں آزار دیں۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہوجاؤ۔

وَدُّوْا لَوْ تَكْفُرُوْنَ كَـمَا كَفَرُوْا فَتَكُوْنُوْنَ سَوَاۗءً (النساء۴:۸۹)وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود کافر ہیں اسی طرح تم بھی کافر ہوجاؤ ، تاکہ تم اور وہ سب یکساں ہوجائیں۔

یہی رویّہ موجودہ دور کے مشرکین کا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مسلمان اپنے امتیازات سے دست بردار ہوجائیں اور جو بنیادی عقائد و تصوّرات ان کے درمیان خطِّ امتیاز کھینچتے ہیں ان سے لاتعلّقی اختیار کرلیں ۔ ہندستانی مسلمانوں سے اِن دنوں جو مطالبات کیے جا رہے ہیں وہ اسی نوعیت کے ہیں۔

ذیل میں ان مطالبات کا ا سلامی نقطۂ نظر سے جائزہ لینے کی کوشش کی جائے گی۔
غیر مسلموں کے لیے لفظ’کافر‘ کا استعمال: موجودہ دور میں لفظ ’کافر‘ کو گالی کے مثل سمجھ لیا گیا ہے۔ اس لیے مسلمان جب دوسرے مذاہب والوں کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں، تو وہ سمجھتے ہیں کہ انھیں بُرا بھلا کہا جا رہا ہے اور مطعون کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ وہ اس کا اظہار کرتے ہیں کہ ’’اگر مسلمان اس ملک میں پُر امن بقائے باہم چاہتے ہیں تو دوسرے مذاہب والوں کے لیے اِس لفظ کا استعمال ترک کردیں‘‘ ۔ حالاں کہ یہ بات درست نہیں ہے، اس لیے ان کے اس مطالبے کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔

’کافر‘ عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ ’کفر‘ سے مشتق ہے۔ عربی زبان میں لفظ ’کفر‘ کے اصل معنٰی چھپانے اور ڈھانپنے کے ہیں ۔ عربوں کے کلام میں اس مادہ سے جتنے الفاظ آئے ہیں ، سب میں یہ معنیٰ کسی نہ کسی شکل میں پایا جاتاہے۔ اسی لیے وہ لفظ ’کافر‘ کا اطلاق ان چیزوں پر کرتے ہیں جو کسی چیز کو ڈھانپ لیں،مثلاً رات، سمندر، وادی،دریا، گہرا بادل، کسان،زرہ ،وغیرہ۔اسی طرح اس میں ناشکری کے معنٰی بھی پائے جاتے ہیں۔ لفظ ’کفر‘ کا استعمال اسلام کے بالمقابل ایک اصطلاح کے طور پر بھی ہوا ہے ، یعنی ’اسلام کو نہ ماننے والا‘۔ اسلام کی کچھ بنیادی تعلیمات ہیں ۔ کچھ لوگ اس کو مانتے ہیں، کچھ نہیں مانتے ۔ اسلام کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ وہ ہر انسان کو آزادی دیتا ہے کہ چاہے اس پر ایمان لائے، چاہے نہ لائے۔ قرآن مجید میں ہے:

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

اللہ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو منع فرمایا تھاکہ ایمان لانے کے معاملے میں کسی پر جبر سے کام نہ لیں:
وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۹۹ (یونس۱۰: ۹۹)اگر تیرے ربّ کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میں سب مومن و فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تُو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہو جائیں؟

اسلام ایک نظریاتی مذہب ہے ۔انسانوں کو آزادی ہے۔ جو لوگ چاہیں اسے مانیں، جو چاہیں نہ مانیں۔ جو اسے مان لیتے ہیں انھیں قرآن مجید’مومن‘ (یعنی ایمان لانے والا) کہتا ہے اور جو اسے نہیں مانتے انھیں ’کافر‘(یعنی ایمان نہ لانے والا) کہتا ہے۔ یہ حقیقت ِ واقعہ کا بیان ہے ۔ اس میں اہانت اور مذمّت کا کوئی پہلو نہیں ہے۔

مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اگر دوسرے اہلِ مذاہب کا رویّہ ان سے دشمنی، جنگ اور فساد کا نہ ہو تو وہ بھی ان سے خوش گوار سماجی تعلقات رکھیں، ان سے اچھا برتاؤ کریں اور ان کے ساتھ عدل و انصاف سے پیش آئیں۔ صرف ان لوگوں سے دوستانہ اور رازدارانہ تعلقات رکھنے کی ممانعت ہے، جو دشمنی پر آمادہ ہوں اور مسلمانوں کے جانوں اور مالوں کے درپے ہوں۔ قرآن میں ہے:

لَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْہُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْہِمْ۝۰ۭ اِنَّ اللہَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ۝۸ اِنَّمَا يَنْہٰىكُمُ اللہُ عَنِ الَّذِيْنَ قٰتَلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَاَخْرَجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ وَظٰہَرُوْا عَلٰٓي اِخْرَاجِكُمْ اَنْ تَوَلَّوْہُمْ۝۰ۚ وَمَنْ يَّتَوَلَّہُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ۝۹ (الممتحنۃ ۶۰:۸-۹) اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاؤ کرو جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالا ہے۔ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ وہ تمھیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمھیں تمھارے گھروں سے نکالا ہے اور تمھارے اِخراج میں ایک دُوسرے کی مدد کی ہے۔ اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں۔

مسلمان عالمی امّت کا حصہ: اسلام مساوات کا عَلَم بردار ہے۔ اس کی نظر میں دنیا کے تمام انسان برابر ہیں۔جو لوگ اس پر ایمان لے آتے ہیں، انھیں وہ اخوت کے رشتے میں باندھ دیتا ہے ، جو بسا اوقات خون کے رشتے سے زیادہ طاقت وَر ثابت ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ (الحجرات۴۹ :۱۰)مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان ِ نبوّت کے بعد جو لوگ آپ پر ایمان لائے انھیں مکہ مکرّمہ میں بہت ستایا گیا ، یہاں تک کہ وہ پہلے حبشہ ، پھرمدینہ منورہ ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ لوگ’ مہاجر‘ کہلائے ۔مدینہ کے لوگ ، جو پہلے ایمان لا چکے تھے، انھوں نے ان بے سر و ساماں لوگوںکی خوب بڑھ چڑھ کر مدد کی۔ انھیں ’انصار‘ کہا گیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت ِ مدینہ کے کچھ ہی دنوں کے بعد مہاجرین و انصار کے درمیان میں’ مواخات‘ (بھائی چارہ) کرائی ۔اس کے نتیجے میں وہ باہم شِیر و شکر ہوگئے۔ انسانی تاریخ نے ایمان کی بنیاد پر ایسے مضبوط رشتے کی کوئی مثال نہیں دیکھی۔ قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے کہ ایمان لانے کے بعد انسانوں میں دوئی باقی نہیں رہتی ، بلکہ وہ ایک ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْۢ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجٰہَدُوْا مَعَكُمْ فَاُولٰۗىِٕكَ مِنْكُمْ۝۰ۭ (الانفال۸:۷۵)اور جو لوگ بعد میں ایمان لائے اور ہجرت کرکے آگئے اور تمھارے ساتھ مل کر جدّوجہد کرنے لگے وہ بھی تم ہی میں شامل ہیں۔

اسلام اہلِ ایمان کو ایک امّت قرار دیتا ہے، جو ایک عقیدے اور ایک نظریے کے حامل ہوتے ہیں اور ان کے درمیان فکر و نظر کا کوئی اختلاف باقی نہیں رہتا۔ قرآن مجید میں ہے:

اِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ (الانبیاء ۲۱: ۹۲) یہ تمھاری امّت حقیقت میں ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمہارا رب ہوں، پس تم میری عبادت کرو۔

وَاِنَّ ہٰذِہٖٓ اُمَّتُكُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّاَنَا رَبُّكُمْ فَاتَّــقُوْنِ (المومنون۲۳:۵۲) اوریہ تمھاری اُمّت ایک ہی ا مّت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے ڈرو۔

موجودہ دور میں وطنیت اورقومی ریاست کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ دنیا مختلف ممالک کے دائروں میں تقسیم ہوگئی ہے ۔ ہر ملک کے اپنے مفادات ہیں،جن کی تکمیل کے لیے وہاں کی حکومت کوشاں رہتی ہے اور اس سلسلے میں جائز و ناجائز کی بھی پروا نہیں کرتی۔ ایک ملک کے شہریوں کا دوسرے ملک کے شہریوں سے کوئی تعلق نہیں رہتا ۔ اگر رہتا ہے تو وہ بھائی چارہ ، ہمدردی اور مودّت کے بجائے شک و شبہہ، منافرت، بلکہ بسا اوقات دشمنی پر مبنی ہوتا ہے۔یہ سراسر جاہلی تصوّر ہے ، جسے نیا پیراہن پہنا دیا گیا ہے۔جاہلی شاعر دُرید بن صمّہ کہتا ہے:

وَ مَا أنا الاّ مِن غَزیّۃ اِن غَوَتْ غَوَیتُ واِن تَرشُدْ غَزِیّۃ أرشُد۔ (میں تو قبیلۂ غزیّہ کا ایک فرد ہوں۔وہ غلط راہ پر چلے گا تو میں بھی اسی راہ پر چلوں گا اور اگر وہ صحیح راہ اختیار کرے گا تو میں بھی اس کے پیچھے چلوں گا)۔

اسلام اس نظریے کا قائل نہیں۔ وہ تمام اہل ِ ایمان کو ، چاہے وہ جس علاقے اور جس ملک میں رہتے ہوں، جس رنگ و نسل کے ہوں ، جو زبان بھی بولتے ہوں اور جس سماجی حیثیت کے مالک ہوں، ایک جسم کی مانند قرار دیتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بڑی بلیغ تمثیل بیان فرمائی:

مَثَلُ المُؤمِنِیْنَ فِی تَوَادِّھِم وَ تَراحُمِہِم وَ تَعَاطُفِہِم مَثَلُ الجَسَدِ ، اِذَا اشْتَکٰی مِنْہُ عُضْوٌ تَدَاعٰی لَہٗ سَائرُ الجَسَدِ بِالسَّھَرِ وَالحُمّیٰ (مسلم:۲۵۸۶)اہلِ ایمان کے درمیان میں باہم محبت، رحم و کرم اور اُلفت کے معاملے میں ان کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کے کسی ایک عضو میں کوئی تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے خوابی اور بخار کا شکار ہوجاتا ہے۔

اس سے واضح ہے کہ اسلام اور وطنیت کا کوئی کوئی میل نہیں ہے ۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے بالکل صحیح کہا ہے؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے

اسلام کا نظریۂ جہاد :اسلامی اصطلاحات میں سے جس اصطلاح پر شاید سب سے زیادہ اعتراضات کیے گئے ہیں وہ ’جہاد‘ ہے۔ اس کی اتنی بھیانک تصویر بنا دی گئی ہے کہ یہ لفظ سنتے ہی لوگوں پر خوف طاری ہونے لگتا ہے۔ اسی لیے ہندستانی مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ اس سے دست بردار ہوجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسلام کی اشاعت اور عروج کے لیے مسلمانوں نے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر زبردستی مجبور کیا اور تلوار کی طاقت سے ملک پر ملک فتح کیے۔ عجب طرفہ تماشا ہے کہ جو مذہب اسلام، آزادیِ فکر و نظر کا سب سے بڑا علم بردار ہے اور جس کے پیروکاروں کے اقتدار و حکومت کے ماتحت مختلف اقلیتیں صدیوں تک آزادی کی فضا میں سانس لیتی رہی ہیں ،اسی پر جبر کا الزام لگایا جاتا ہے۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اپنے افکار و خیالات کسی پر زبردستی مسلّط نہیں کرتا۔ وہ انسانوں کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اس کے عقائد و نظریات پر غور کریں، عقل و فکر کے دریچے کھلے رکھ کر اسے سمجھیں، پھر چاہیں تو اسے قبول کرلیں اور چاہیں تو نہ قبول کریں۔ وہ بہت تفصیل سے قبولِ حق کے اچھے نتائج و ثمرات بیان کرتا اور انکارِ حق کے نتائج بد سے آگاہ کرتا ہے، لیکن کسی کو اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ۝۰ۣ فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ۝۰ۙ (الکہف ۱۸:۲۹)صاف کہہ دو کہ یہ حق ہے تمھارے رب کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے مان لے اور جس کا جی چاہے انکار کردے۔

اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے سامنے حق اور ناحق دونوںکو خوب کھول کھول کر بیان کر دیا ہے، لیکن ساتھ ہی اس نے انھیں ارادہ و اختیار کی آزادی دی ہے۔ اس آزادی سے کام لے کر کچھ لوگ حق کو قبول کرلیتے ہیں اور اللہ کے فرماں بردار بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ اسے قبول نہیں کرتے اور نافرمانی کی روش پر گام زن رہتے ہیں۔ کسی شخص کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کرنا اس آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ہے، جس سے اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو بہرہ ور کیا ہے:

وَلَوْ شَاۗءَ رَبُّكَ لَاٰمَنَ مَنْ فِي الْاَرْضِ كُلُّھُمْ جَمِيْعًا۝۰ۭ اَفَاَنْتَ تُكْرِہُ النَّاسَ حَتّٰى يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَ۝۹۹ (یونس۱۰:۹۹) اگر تیرے رب کی مشیّت یہ ہوتی (کہ زمین میںسب مومن اور فرماں بردار ہی ہوں) تو سارے اہلِ زمین ایمان لے آئے ہوتے۔ پھر کیا تو لوگوں کو مجبور کرے گا کہ وہ مومن ہوجائیں؟

اسلامی عقائد و نظریات کے پیچھے دلائل کی قوت ہے اور اسے یقین ہے کہ جو شخص بھی کھلے دل و دماغ کے ساتھ ان پر غور کرے گا وہ ضرور حلقہ بہ گوشِ اسلام ہو جائے گا۔ اسی لیے وہ تاکید کرتا ہے کہ دین کے معاملے میں کسی پر زور زبردستی نہ کی جائے:

لَآ اِكْرَاہَ فِي الدِّيْنِ۝۰ۣۙ قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ۝۰ۚ (البقرہ ۲: ۲۵۶) دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ صحیح بات غلط خیالات سے الگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے۔

اسلام پُر امن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔تمام لوگ کھلے ماحول میں، پوری آزادی کے ساتھ بغیر کسی دباؤ کے، اسلام کے بارے میں غور و فکر کرسکیں۔ اس چیز کو یقینی بنانے کے لیے اسلام پُرامن فضا قائم رکھنا چاہتا ہے۔ فتنہ و فساد، انارکی، بدامنی اور جنگ کی حالت ہو تو افہام و تفہیم کی راہیں اور بھی مسدود ہوجاتی ہیں۔ اس لیے اسلام چاہتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، جنگ سے بچنے کی کوشش کی جائے اور اس پر اسی صورت میں آمادہ ہوا جائے جب جنگ کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہے۔اسلام امن و امان کا کس حد تک خواہاں ہے، اس کا اندازہ اس تعلیم سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اگر دورانِ جنگ دشمن کی طرف سے صلح کی پیش کش ہو تو اسے فوراً قبول کرلیا جائے، خواہ اس کے پس پردہ دشمن کی بدنیتی اور دھوکے کا شبہہ ہو، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَہَا وَتَوَكَّلْ عَلَي اللہِ۝۰ۭ اِنَّہٗ ہُوَالسَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۝۶۱ وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْـبَكَ اللہُ۝۰ۭ (الانفال۸:۶۱-۶۲) ’’اگردشمن صلح و سلامتی کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کے لیے آمادہ ہوجاؤ اور اللہ پر بھروسا کرو، یقیناً وہی سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ دھوکے کی نیت رکھتے ہوں تو تمھارے لیے اللہ کافی ہے۔

۶ھ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے عمرہ کے ارادے سے نکلے، مگر مکہ پہنچنے سے پہلے ہی دشمنوں نے آپؐ کو روک دیا اور آمادۂ جنگ ہوئے۔ اس موقع پر حدیبیہ کے مقام پر جو صلح نامہ تیار ہوا اس کی تمام شرائط یک طرفہ تھیں اور ان سے مسلمانوں کی پسپائی اور ان کے دشمنوں کی برتری ظاہر ہوتی تھی۔ اس بنا پر بہت سے مسلمان بے چینی محسوس کررہے تھے اور بعض اصحابؓ کے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔ لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تمام شرائط تسلیم کرلیں کہ ان کی بدولت امن و امان کا زرّیں موقع ہاتھ آرہا تھا۔ بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ یہ فیصلہ درست تھا۔ امن کے نام پر یہ ظاہری پسپائی ’فتح‘ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی اور دو سال کے عرصے میں جتنی بڑی تعداد میں لوگ دائرۂ اسلام میں داخل ہوئے اتنے مدنی عہد کے چھ سال میں بھی نہ ہوئے تھے۔

لیکن جب انسانوں کا ایک طبقہ دوسرے انسانوں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے لگے، ان کی آزادیاں سلب کرلے، ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انھیں مجبور و محکوم بنا کر رکھے تو اسلام ان مظلوموں کا حامی بن کر سامنے آتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ایسے ظالم و جابر لوگوں کی سرکوبی ضروری ہے، جو اللہ کی سرزمین پر اللہ کے بندوں کو ظلم و تشدّد کا نشانہ بناتے ہیں اور انھیں آزادی اور سکون کے ساتھ رہنے نہیں دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے:

وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاۗءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِيْنَ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَخْرِجْنَا مِنْ ھٰذِہِ الْقَرْيَۃِ الظَّالِمِ اَہْلُھَا۝۰ۚ وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ وَلِيًّا۝۰ۚۙ وَّاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنْكَ نَصِيْرًا۝۷۵ۭ (النساء۴:۷۵) آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں، اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مددگار پیدا کردے۔

اسی طرح اسلام مسلمانوں کو ان لوگوں کا مقابلہ کرنے اور ان سے جنگ کرنے کا بھی حکم دیتا ہے جو ان سے جنگ کرنے میں پہل کریں۔ وہ جس طرح دوسروں پر ظلم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا اسی طرح ظلم سہنے کا بھی روا دار نہیںہے۔ اسی لیے مشرکین مکہ کے مظالم جب حد سے گزرگئے، تو مسلمان اپنا دین و ایمان بچانے کی غرض سے مدینہ، ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، مگر یہاں بھی مشرکینِ مکہ نے مسلمانوں کو چین سے نہیں بیٹھنے دیا، ان کے خلاف سازشیں کیں اور دوسروںکو ان کے خلاف بھڑکا دیا۔ بالآخر جب پیمانۂ صبر لبریز ہوگیا تو مسلمانوں کو بھی ان سے جنگ کرنے کی اجازت دے دی گئی:

اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا۝۰ۭ وَاِنَّ اللہَ عَلٰي نَصْرِہِمْ لَقَدِيْرُۨ۝۳۹ۙ الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِہِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللہُ۝۰ۭ (الحج ۲۲:۹ ۳-۴۰) اجازت دے دی گئی ان لوگوں کو جن کے خلاف جنگ کی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں اور اللہ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے صرف اس قصور پر کہ وہ کہتے تھے:’’ ہمارا رب اللہ ہے‘‘۔

اسلام میں ’معروف‘ کا حکم دینے اور ’منکر ‘سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے نزدیک دونوںکی یکساں اہمیت ہے۔ قرآن میں دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ کیا گیا ہے۔ لیکن ایک اعتبار سے دونوں میں فرق ہے۔ اسلام تمام انسانوں کو معروف کی دعوت دیتا ہے اور انھیں قبول کرنے کی ترغیب دیتا ہے، لیکن ان کے قبول و اختیار کو ان پر لازم نہیں کرتا۔ تاہم وہ انھیں منکرات کا ارتکاب کرنے کی کھلی چھوٹ نہیں دیتا، بلکہ ان پر روک لگاتا ہے اور انھیں ان سے باز رکھنے کی تاکید کرتا ہے۔اسلام کہتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں ظلم و جور کر رہے ہوں، فتنہ و فساد پھیلا رہے ہوں اور برائیاں عام کر رہے ہوں، انھیں دنیا میں اللہ کے قانون کے تابع ہوکر رہنا پڑے گا اور دنیا کے اقتدار کے مالک وہ لوگ ہوںگے، جو اس پر اللہ کا حکم نافذ کریں اور اسے فتنہ و فساد سے پاک رکھیں:

وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ (الانفال ۸:۳۹) ان سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا کا پورا اللہ کے لیے ہوجائے۔

اس سے واضح ہوا کہ اسلام میں ’جہاد‘ کا مقصد دوسروں کو زور زبردستی سے مسلمان بنانا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد ’شر‘ کا زور ٹوٹے، فتنہ و فساد کا خاتمہ ہو اور ان لوگوں کو بے اختیار کردیا جائے، جو اس دنیا میں جبر و اِکراہ، ظلم و زیادتی اور برائیوں کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں، تاکہ اللہ کے بندوں کو آزادی نصیب ہو اور وہ بغیر کسی دباؤ کے اللہ کا دین قبول کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں۔
٭٭٭