امپھال: منی پور کی ایک قبائلی خاتون نے جب اپنی لڑکی کی واپسی میں تاخیر پر اسے فون کیا تو دوسری جانب سے بولنے والی خاتون نے سوال کیا ”تم اپنی بیٹی کو زندہ چاہتی ہو یا مردہ“۔
گمشدہ لڑکی کی ماں کو بعد ازاں اطلاع دی گئی کہ اس کی بیٹی مرچکی ہے۔ اس کا خون اور بال امپھال کی ایک عمارت کی دیواروں پر چپکے ہوئے پائے گئے۔
اس خاندان کو ابھی تک لاش نہیں ملی ہے۔ اس خاتون نے این ڈی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ میں اب بھی اس حقیقت کو قبول نہیں کرپا رہی ہوں اور مجھے ابھی بھی یہ امید ہے کہ ایک نہ ایک دن میری بیٹی واپس آجائے گی، کیوں کہ میں نے اسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔
اس کا باپ ابھی بھی سینا پتی کے ایک ہاسپٹل میں شریک ہے۔ میں اب بھی یقین نہیں کرپارہی ہوں کہ میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ اس کی لڑکی ان دو نوجوان لڑکیوں میں شامل تھی جن کی 5 مئی کی شام اجتماعی عصمت ریزی کی گئی تھی اور بعد ازاں انھیں قتل کردیا گیا تھا۔
منی پور میں نسلی تشدد پھوٹ پڑنے کے دو دن بعد یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ 7 افراد نے دونوں لڑکیوں کا منہ بند کرکے انہیں ایک کمرہ میں مقفل کردیا تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ دونوں لڑکیوں نے کافی چیخ و پکار اور التجائیں کیں، لیکن حملہ آوروں نے ان کی ایک نہیں سنی۔ ایک ورکر نے بتایا کہ ہجوم میں شامل عورتوں نے دونوں لڑکیوں پر جنسی حملہ کرنے کے لیے مردوں کو اُکسایا۔
دونوں کی لاشیں مبینہ طور پر امپھال کے جے این آئی ایم ایس ہاسپٹل میں رکھی ہوئی ہیں۔ لڑکی کی ماں نے این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ تشدد کی وجہ سے میں پریشان تھی، اسی لیے میں نے اسے(لڑکی کو) فون کیا تھا۔ ایک عورت نے فون اٹھایا تھا اور مجھ سے پوچھا تھا کہ میں اپنی بیٹی کو زندہ چاہتی ہوں یا مردہ۔
پھر اس نے فون رکھ دیا تھا اور میں خالی الذہن ہوگئی تھی۔ اس نے بتایا ”میں دل کی مریض ہوں، اسی لیے خاندان والے مجھے کچھ نہیں بتاتے۔“ میں نے اپنے تمام بچوں کو اکٹھا کیا اور انھیں بتایا کہ کیا ہورہا ہے۔ اس کے بعد مجھے کوئی کال نہیں آئی۔ چند دن بعد ایک فون کال موصول ہوئی اور مجھے بتایا گیا کہ میری بیٹی کے ساتھ کیا ہوا تھا۔
یہ مظالم اسی دن ہوئے تھے جس دن اس علاقہ سے تقریباً 40 کیلو میٹر دور دو خواتین کی برہنہ پریڈ کرائی گئی تھی۔ جاریہ ہفتہ کے اوائل میں سامنے آنے والے ایک ویڈیو نے ملک بھر میں صدمہ کی لہر دوڑا دی ہے۔