سید محمد جلیل
آج کے دور میں موبائل ایک وبا کی طرح گھر گھر میںاپنا پاو¿ں پھیلائے ہوئے ہے۔ بچے ہوں یا بوڑھے موبائل کے بغیر ایک قدم چلنا بھی پسند نہیں کرتے ۔ خاص کر بچوں کے لےے تو یہ ایک کھلونے کی طرح ہر وقت ان کے ساتھ رہتا ہے ۔ جس کے ہاتھ میں دیکھو کتاب ہو یا نہ ہو موبائل ضرور نظر آتا ہے ۔ اگر باتیں نہیں کرنی ہیں تو ایس ایم ایس پر دوستوں کو نت نئے پیغامات ایجاد کرکے بھیجتے رہو۔ پیغامات بھی ایسے کہ وہ سمجھیں یا خدا سمجھے۔ اگر اس سے فرصت ملی تو پھر گیم کھیلنے لگ جاو¿ ،گویا یہ موبائل اوڑھنا بچھونا ہے ۔ صبح اٹھے تو موبائل ہی کی آواز سے اور رات میں سوئے تو موبائل ہی ہاتھ میں لے کر۔ اگر کسی دوسرے کمرے میں بھی بیٹھے ہیں تو بلانے کے لےے موبائل ہی کا سہارا۔ عورتوں کو تو کھانا پکاتے وقت بھی اگر کسی سے مصالحے کی جانکاری لینی ہوتو موبائل حاضر ۔ اگر رات میں نیند نہیں آرہی ہے تو کسی دوسرے بے تکلف دوست کے موبائل پر بلا تکلف رِنگ کردیا یعنی اپنے لےے شب بیداری کا اور دوسروں کی نیند میں خلل ڈال کر بیزاری کا سبب بن گئے ۔ یوں بھی آج کل ٹیلی کمپنیاں رات کو فری باتیں کرنے اور مفت میں پیغام بھیجنے کا ایک سے ایک آفر دے رہی ہیں تو ظاہر ہے ایسے افراد کو راتوں میں باتیں کرنے کا ایک بہانہ بھی مل جاتا ہے اور جب سارا عالم سوتا ہے تو ان کی گفتگو کاآغاز ہوتاہے۔جیسی بے تکلف دوستی ویسی ہی بے تکان باتیں ۔ اور اگر اتفاق سے گھر کے قریبی رشتہ دارملک سے باہر رہتے ہوں تو یوں بھی جب ان کی شام یا صبح ہوتی ہے تو ہماری رات ،لہٰذا ان سے باتیں کرنے کے لےے بھی رات ہی کا وقت سب سے موزوں ہوتا ہے ۔ ایک شہر سے دوسرے شہر بلکہ ایک ملک سے دوسرے ملک کی دوری بھی اس موبائل نے قربت میں بدل دی ہے ۔ لوگ ایک دوسرے کے شب و روز کی مصروفیات سے اس طرح واقف رہتے ہیں جیسے ساتھ رہنے والوں کی مشغولیات سے۔ آپ کہیں بھی ہوں اور کسی بھی حالت میں ہوں موبائل کی رِنگ بجی تو ریسیو کرنے میں ہی عافیت ہے ،ورنہ بار بار رنگ سننے کی مصیبت ۔
اس موبائل نے جہاں نئے نئے رشتوں کو قائم کرنے میں اپنی خدمات پیش کی ہیں وہیں بنے بنائے رشتوں کو بگاڑنے کا بھی موجب بنتے ہیں ۔ اب یہ موبائل رکھنے والے کی شخصیت پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کیا کام لیتے ہیں۔ گرچہ اس موبائل کی بہتات نے گھر کے ماہانہ بجٹ کو بری طرح متاثر کیا ہے، لیکن عقلمندوں نے اس صورت سے نمٹنے کا راستہ بھی ڈھونڈ ہی نکالا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ خود فون کم کرتے ہیں اور دوسروں کی کال آنے کے ہی انتظار میں رہتے ہیں۔ اور اگر کسی سے باتیں کرنا ضروری محسوس ہوا تو بس اس کے نمبر پر کئی بار ”مِس کال“ کردیا کہ جواب تو آئے گا ہی اور اس طرح اپنے بجٹ کو قابو میں رکھنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ہمارے ایک بزرگ ہیں جنھوں نے اپنے گھر والوں کے اصرار پر موبائل تو خریدلیا ،لیکن اس کے استعمال سے بالکل ناواقف۔ بس اتنا معلوم کرلیا کہ فون آنے پر کس بٹن کو دبا کر بات کرنا ہے ۔ چونکہ وہ نمبر نام سے محفوظ نہیں رکھتے لہٰذا مخاطب کے تعارف میں ہی چند منٹ صرف کردیتے ہیں ۔ اگر کسی کو فون کرنا ہو تو بے دھڑک حاضر ہو گئے ذرا نمبرلگا دیجئے۔ اگر کوئی ایس ایم ایس کا ٹون بجا دوڑے چلے آئے کہ بھلا دیکھئے کس کا پیغام ہے ؟ اب انھیں کون سمجھائے کہ بھلا اس عمر میں وہ کس کے پیغام کے آنے کے منتظر ہیں ۔ یہ تو کمپنی والوں کا اشتہار ہے جو ایس ایم ایس کی شکل میں آتا رہتا ہے۔ شروع شروع میں تو موبائل رکھنا بھی ایک شان کی علامت تھی،لیکن اب تو حالت یہ ہے ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کے ہاتھ میں موبائل موجود ہے ۔ ایسے میں تو اپنے موبائل کو پوشیدہ رکھنے میں ہی بھلائی ہے۔ موبائل پر بات کرنے والے بعض حضرات گرچہ سال میں ایک ہی بار فون کرتے ہوں، لیکن اپنے پیمانہ¿ تخیل کے بقدر اس فریب میں مبتلا رہتے ہیں کہ ہماری آواز سنتے ہی مخاطب فوراً پہچا ن لے گا ۔ ایسے میں بڑی کوفت سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ اُدھر سے آواز آئی ”کہےے !پہچانا آپ نے؟“ کہیں آپ نے نام دریافت کرلیا تو بُرا لگ گیا ۔ ”واہ بھائی ، اتنا جلدی بھول گئے ۔ یاد کیجئے آپ کا کوئی ملاقاتی اسکول کے زمانے کا ہے؟ یاد آیا آپ کو؟“ اگر اتفاقاً ان کا نام زبان پر آگیا تو ان کی باچھیں کھِل گئیں ۔ ”خدا کا شکر ہے کہ آپ مجھے بھولے نہیں ۔“ اب انھیں کیا معلوم اس پہیلی کو بوجھنے میں دماغ پر کتنا بوجھ ڈالنا پڑا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر غالب کے زمانے میں موبائل کا ایجاد ہوچکاہوتا ۔ پھر تو ان کے بہت سارے اشعار کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ۔ خط کا ذکر کرنے کی بجائے وہ اپنے اشعار میں پیغام رسانی کے اس وسیلہ کا ذکر ضرور کرتے ۔ انھیں قاصد کے آتے آتے دوسرا خط لکھنے کی بھی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی اور چونکہ آنے والے جواب سے وہ واقف تھے لہٰذا خط کا جملہ Saveکرکے اسے بار بار Resendکردیا کرتے۔ اور صبح صبح کان پر قلم رکھ کر نکلنے کی بھی نوبت نہیں آتی بس جیب میں موبائل رکھ کر نکل جایا کرتے اور رقیبوں سے اپنے روبرو باتیں کرواتے ۔ فون کرکے اس کے شیریں لبوں سے گالیاں سنتے اور سناتے اور بے مزہ بھی نہ ہوتے ۔ آج نئی نئی ایجادیں ہو رہی ہیں ۔ کاش کوئی ٹیلی مواصلات کمپنی عالم برزخ میں اپنا اسٹیشن لانچ کرنے کی کوشش کرے۔ ذرا تصور کیجئے اگر ایسا ہو جائے تو شاید یہ دنیا کا مصروف ترین ٹیلی کام ثابت ہو کہ دنیا والوں کا ارواح رفتگاں سے رابطہ بھی قائم ہوجائے اور ان کے لےے قیامت کی گھڑیاں بھی آسان ہو جائیں ۔
بہرحال اگر آپ موبائل رکھتے ہیں تو ضرور رکھیئے ،لیکن ایک بات کا خیال رہے کہ اپنا موبائل کسی دوسرے کے حوالے کبھی مت کیجئے کہ اگر کسی نے آپ کے موبائل سے اپنے کسی قرض دار کا نمبر لگاکر اسے کھری کھوٹی سنانا شروع کیا تو اس کا سہرا آپ ہی کے سر آجائے گا ۔ یوں بھی موبائل کی کیفیت نامہ¿ اعمال سے کم نہیں کہ جس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں ۔ آپ کے موبائل میں درج پیغامات اور محفوظ نمبروں کے خفیہ رہنے میں ہی عافیت ہے۔