خورشید عالم داؤد قاسمی(مون ریز ٹرسٹ اسکول، زامبیا، افریقہ)
غاصب اسرائیل میں نئی حکومت تشکیل دی جاچکی ہے۔ یہ حکومت ایک بار پھر "لیکوڈ” پارٹی کے چیرمین بنجامن نیتن یاہو کی قیادت میں، 29/دسمبر 2022کو تشکیل دی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی نیتن یاہو نے بحیثیت وزیر اعظم پانچ بار غاصب و قابض اسرائیل کی حکومت کی قیادت کی ہے۔ یہ چھٹی بار اس شخص نے وزارت عظمی کا حلف لیا ہے۔ اس حکومت میں جو خاص بات ہے وہ یہ ہے کہ اس بار نیتن یاہو نے جن پارٹیوں کی حمایت سے حکومت سازی کی ہے وہ پارٹیاں نہایت ہی دائیں بازو کی ہیں۔ ان پارٹیوں کے قائدین نے ماضی میں نہایت ہی شدت پسندانہ موقف کا اظہار کیا ہے۔ پھر ان پارٹیوں کے جن شدت پسند ارکان کو کابینی وزراء بنایا گیا ہے، وہ نہایت ہی قوم پرست، سخت گیر، صہیونی اور رجعت پسند ہیں۔ ان کابینی وزراء میں جُوِش پاور پارٹی کا اتمار بین گویر، شاس پارٹی کا آریہ ڈیری، ریلیجس زائنزم پارٹی کا بینزل اسموٹرچ اور یوان گلانٹ جیسے لوگ شامل ہیں۔
اتمار بین گویر کو قومی سلامتی کا وزیر بنایا گیا ہے۔ یہ شخص وزارت کا حلف اٹھانے کے دو ہی دنوں بعد، عالمی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، 3/ جنوری 2023 کو مسجد اقصی میں اشتعال انگیز در اندازی کا ارتکاب کیا۔ مسجد اقصی میں کسی اسرائیلی وزیر کا داخل ہونا بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور مسجد اقصی کی تاریخی حیثیت کے خلاف ہے۔ اس وزیر کی اس اشتعال انگیز در اندازی کے ارتکاب کے بعد، مختلف ممالک نے اپنی تشویش اور بے چینی کا اظہار کیا ہے اور اس در اندازی کی مذمت کی ہے۔ واضح رہے کہ مسجد اقصی مسلمانوں کی تیسری اہم عبادت گاہ ہے جو مشرقی بیت المقدس میں واقع ہے۔ 1967کی عرب اسرائیل جنگ میں قابض اسرائیل نے مشرقی حصہ کو بھی قبضہ کرلیا؛ مگر اس کے باوجود دہائیوں سے مسجد اقصی میں صرف مسلمانوں کو ہی داخل ہونے کی اجازت ہے۔
اس شدت پسند وزیر کی در اندازی پر فلسطینی وزارت خارجہ نے شدید ردّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ فلسطینی رہنماؤں نے اس در اندازی کو غیر معمولی اشتعال انگیز اقدام قرار دیا ہے۔متحدہ عرب امارات، اردن، اسلامی جمہوریہ مصر اور سعودی عرب نے بھی وزیر کے اس دورے سے پیدا ہونے والے حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔ ترکی نے اس دورے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر کے دورے کو اشتعال انگیز قرار دیا ہے۔اس حوالے سے امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ بھی ناراض دکھائی دے رہی ہے۔ امریکہ کی جو بائیڈن انتظامیہ نے اتمار بین گویر کے مسجد اقصی کے احاطے کے اشتعال انگیز دورے کے بعد، 3/ جنوری 2023کو اپنے بیان میں کہا ہے کہ یروشلم (مقبوضہ بیت المقدس) میں مقدس مقامات کی حیثیت کو کمزور کرنے والا کوئی بھی یک طرفہ اقدام ناقابل قبول ہے۔ امریکہ یروشلم میں مقدس مقامات کے حوالے سے جوں کی توں صورت حال برقرار رکھنے کی بھرپور حمایت کرتا ہے اور ایسا کوئی بھی یک طرفہ اقدام جو "اسٹیٹس کو” کو کمزور کرتا ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔ بیان میں بنجامن نیتن یاہو سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بیت المقدس میں مقدس مقامات کی حیثیت کو برقرار رکھنے کے اپنے وعدے کی پاسداری کرے۔
اس معاملے کی شدت کو محسوس کرتے ہوئے چین اور متحدہ عرب امارات نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا تھا۔ بہ روز: جمعرات، 5 ؍جنوری 2023کو ہنگامی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں سلامتی کونسل نے مسجد اقصی کی صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے پر زور دیا۔ مگر کونسل نے اسرائیلی وزیر بین گویر کے مسجد اقصی میں غیر قانونی در اندازی کے حوالے سے کسی طرح کی کاروائی کے حوالے سے خاموشی اختیار کی۔ فلسطینی سفیر ریاض منصور نے بین گویر کی اشتعال انگیز حرکت کے تناظر میں سلامتی کونسل سے اسرائیل کے خلاف کاروائی کرنے کی اپیل کی۔ انھوں نے کہا: "سلامتی کونسل آخر اسرائیل کی طرف سے کس حد کو پار کرنے کے انتظار میں ہے۔ اب تو انتہا ہوچکی ہے”۔ انھوں نے اسرائیل پر سلامتی کونسل کے تئیں "مکمل توہین” کا مظاہرہ کرنے کا الزام بھی لگایا۔ فلسطینی سفیر نے کونسل کی جانب سے کسی طرح کی کاروائی نہیں کیے جانے پر مایوسی کا اظہار کیا اور متنبہ کیا کہ اس سے صورت حال قابو سے باہر ہوسکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیاسی امور کے سینئر اہل کار: خالد خیری نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: "گو کہ اس وزیر کے دورے کے بعد، کسی طرح کا تشدد نہیں ہوا؛ لیکن "اسٹیٹس کو” میں تبدیلی کے حوالے سے بین گویر کے سابقہ بیانات کے تناظر میں اسے اشتعال انگیز حرکت کے طور پر دیکھا جارہا ہے”۔
روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر ہے۔ روس نے کونسل کے اجلاس میں اسرائیلی وزیر بین گویر کی اشتعال انگیزی پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ایک سنگین اور حساس مسئلہ قرار دیا ہے۔ اس موقع پر روس نے اپنی تجویز دہرائی کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تمام فریقوں کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ، روس اور یورپی یونین کے نمائندے خطے کے اہم فریق ممالک اور اسرائیل کے درمیان مصالحت کراکر، اس مسئلے کو حل کریں۔ روس کے نمائندے نے واضح لفظوں میں کہا کہ امریکہ علاقے میں امن مذاکرات شروع کرانے میں کوئی تعاون نہیں کر رہا ہے۔ انھوں نے "یو این، امریکہ، روس اور یورپی یونین” سے اپیل کی کہ وہ ایک ایسی حکمت عملی وضع کریں کہ سلامتی کونسل میں پاس قراردادوں کی روشنی میں اس مسئلے کو حل کرلیا جائے۔
اقوام متحدہ میں غاصب اسرائیل کا مستقل مندوب جلعاد اردان نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس کو مایوس کن قرار دیا۔ اس نے اسرائیلی وزیر کے دورے کا دفاع کرتے ہوئے اسے مختصر، پر امن اور قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ "یہ مسجد اقصی میں در اندازی نہیں ہے اور نہ ہی کچھ اور ہے”۔
یہ کتنی مضحکہ خیر بات ہے کہ ایک طرف اسرائیل مندوب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بین گویر جیسے شدت پسند کے مسجد اقصی میں در اندازی کو پر امن بتا رہا ہے اوردوسری طرف اردن کے سفیر کو مسجد اقصی میں داخلے سے اسرائیلی حکومت روک دیتی ہے۔ 17/جنوری 2023 کو تل ابیب میں متعین اردنی سفیر برائے اسرائیل نے مسجد اقصی کا دورہ کرنے کا منصوبہ بنایا؛ تو اسے اسرائیلی حکومت نے دورہ کرنے سے روک دیا؛ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی مسجد اقصی کے تمام امور کی ذمہ داری مملکت ہاشمیہ اردن کی "اردنی اوقاف، اسلامی امور اور مقدس مقامات” کی ہے۔ اردنی اوقاف مسجد اقصی کے تمام امور کو منظم کرنے اور اس تک رسائی کو منظم کرنے کے لیے خصوصی دائرہ اختیار کے ساتھ قانونی اتھارٹی ہے۔ اس رویے سے ناراض ہوکر،اردن نے سخت لفظوں میں احتجاجی مراسلہ اسرائیلی حکومت کو بھیجا ہے۔
یہاں قارئین کی یاد دہانی کے لیے یہ ذکر کردینا مناسب ہے اسرائیلی فوج کا سابق سربراہ اور اسرائیل کا سابق وزیر اعظم، ایریل شیرون نے بہ روز: جمعرات، 28؍ستمبر2000ء کو، تین ہزار اسرائیلی پولیس کی سخت نگرانی میں، بیت المقدس میں اپنے ناپاک قدموں سے دراندازی کرکے، بیت المقدس کی بے حرمتی کی تھی۔ شیرون کے اس اشتعال انگیز اقدام پر، عرب وعجم کے مسلمانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیے تھے۔ فلسطینی عوام اور خاص طور پر فلسطینی بچے اور جوان نے انتفاضہ کی کاروائی شروع کی تھی۔ اس وقت بھی شیرون کے اس در اندازی کو اشتعال انگیز قرار دے کر، عالمی سطح پر اس کی مذمت کی گئی تھی۔ اسی طرح گلارڈ ارڈن نے سن 2017ء میں، وزیر برائے پبلک سکیورٹی کی حیثیت سے بیت المقدس کی مقدس سرزمین کا دورہ کرکے اشتعال انگیزی کا ارتکاب کیا تھا۔ آج کے وزیر بین گویر کی یہ حرکت اپنے سابق رہنماؤں کی اشتعال انگیزی کا اعادہ ہے۔
اسرائیل کے غاصبانہ قیام کے روز اول سے مغربی ایشیا میں، امن کے امکانات دن بہ دن مزیر معدوم ہوتے نظر آرہے ہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل اپنے قیام کے دن سے ہی فلسطینیوں کے خلاف ظلم و جبر کا راستہ اپنائے ہوا ہے۔ فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیلی حکومت کی دن بہ دن شدت بڑھتی جارہی ہے۔ اسرائیل جس راستے پر چل رہا ہے وہ امن کے بجائے شورش کو جنم دینے والا ہے۔ وہ اپنی حرکت سے باز نہیں آرہا ہے۔ غاصب اسرائیل کی تاریخ میں، موجودہ حکومت سب سے زیادہ دائیں بازو کی ہے۔ موجودہ حکومت فلسطینیوں کے خلاف ہر وہ اقدام اٹھانے کی کوشش کر رہی ہے جو بنیادی حقوق اور عالمی قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ وزیر برائے قومی سلامتی کا اپنی ذمہ داری کا حلف اٹھانے کے دوسرے دن ہی مسجد اقصی میں در اندازی اور اشتعال انگیز حرکت، موجودہ سرکار کی ترجیحات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یہ در اندازی در حقیقت اس کے شدت پسندانہ ایجنڈا کو نافذ کرنے کی ایک کوشش ہے۔
خدشہ ہے کہ یہ حکومت آنے والے دنوں میں مزید تنازعات کا سلسلہ شروع کرے گی۔ جن میں فلسطینیوں کی زمین کو قبضہ کرکے یہودی بستیوں کی تعمیر کا معاملہ بھی شامل ہوگا؛ کیوں کہ اس حکومت میں اتمار بین گویر کی نوعیت کے کئی اور بھی انتہائی دائیں بازو کے لوگ شامل ہیں، جن کا موقف یہی ہے۔ ایسے وقت میں بروز: جمعہ، 30؍دسمبر 2022ء کو، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک قرارداد منظور کی جس میں بین الاقوامی عدالت انصاف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ فلسطینی زمینوں پر اسرائیلی قبضے کے معاملے پر غور کرے۔ عدالت انصاف سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی عوام کے حق خود ارادیت کی مسلسل خلاف ورزی کے قانونی نتائج کے ساتھ ساتھ القدس شہر کی آبادیاتی ساخت، کردار اور حیثیت کو تبدیل کرنے کے لیے اس کے اقدامات کا تعین کرے۔ اس قرار داد کے حق 87اور مخالفت میں 26ووٹ آئے۔ سارے عرب ممالک نے متفقہ طور پر اس کے حق میں ووٹ دیا۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ جمہوریت، عدل وانصاف اور حقوق انسانی کے چمپین ہونے کا دعوی کرنے والے امریکہ، برطانیہ اور جرمنی نے اس قرارداد کی مخالفت کی؛ جب کہ فرانس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ جنرل اسمبلی کی اس قرار داد سے انصاف پسند لوگوں کو کچھ امیدیں بندھیں ہیں۔ یہ بات قبل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے برعکس، جنرل اسمبلی کو کسی کو پابند کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے۔
اتمار بین گویر کا ماضی نہایت ہی داغدار ہے۔ یہ شخص سن 2007ءمیں فلسطینیوں کے خلاف تشدد بھرکانے کے الزامات میں مجرم قراد دیا گیا تھا۔ یہ شخص فلسطینیوں کا بہت بڑا مخالف ہے۔ وہ ایک خود مختار فلسطین کا مخالف ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی سرکار کو ختم کرنے کا حامی ہے۔ یہ اسرائیلی قابض افواج کو گولی چلانے کی آزادی دینا چاہتا ہے۔ اس شخص کو قومی سلامتی کی وزارت دی گئی ہے۔ بہت سے عالمی رہنماؤں کو اس شخص کو وزارت دیے جانے پر زبردست تشویش ہے۔ شاس پارٹی کا آریہ ڈیری جسے وزیر صحت بنایا گیا ہے، وہ بھی نہایت ہی سخت گیر ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ قابض فوجیوں کو زیادہ سے زیادہ اختیار دیا جائے؛ تاکہ وہ فلسطینیوں کے خلاف سر عام اپنی وحشیانہ کاروائی انجام دے سکے۔ خلاصہ یہ ہے کہ نیتن یاہو کی اس حکومت میں جن لوگوں کو وزارت دی گئی ہے وہ سب کے سب سخت گیر اور شدت پسند ہیں۔ وہ چاہتے ہیں مغربی کنارہ میں فلسطینیوں کی زمین پر طاقت کے زور پر زیادہ سے زیادہ غیر قانونی تعمیرات کی جائيں اور زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو آباد کیا جائے۔ یہ لوگ دو قومی نظریے کے بھی مخالف ہیں۔ ان کو یہ پسند نہیں ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ایک خود مختار اور اقتدار اعلی والی ریاست قائم ہوسکے۔ یہ گھڑی مشکل کی ہے۔ فلسطینیوں کے امتحان کا وقت ہے۔ فلسطینیوں نے فلسطین، قدس اور مسجد اقصی کے لیے ماضی میں بھی بے دریغ قربانیاں دی ہیں۔ یہ وقت ان سے مزید قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ خدا کرے کہ ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئے!
۰۰۰٭٭٭۰۰۰