مضامین

مولانا آزاد کے افکار کی عصری معنویت

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

مولانا ابوالکلام آزاد کا شمار بیسویں صدی کی ان تاریخ ساز شخصیتوں میں ہوتا ہے جنہوں نے تاریخ کے دھارے کو ایک نئی سمت دی۔ مولانا آزاد محض ایک سیاستدان نہیں تھے بلکہ وہ ایک عالم دین ، مفسر قرآن اور بیباک صحافی کی حیثیت سے اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ ہندوستان کی جنگ آزادی کے دوران انہوں نے جو خدمات انجام دیں وہ تاریخ کے صفحات میں سنہری الفاظ سے لکھی گئی ہیں۔ ملک کی آزادی کے بعد مولانا آزاد نے ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے اپنی بے پناہ صلاحیتوں کاجو استعمال کیا وہ بھی آزاد ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ قومی اتحاد کے لیے ان کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ مولانا آزاد کی زندگی کامشن ہندو۔ مسلم اتحاد، ملک میں امن کا قیام ، قوم میں نظم و ضبط اور اعلیٰ مقصد کے لیے قربانی دینا تھا۔ اسی کی خاطر انہوں نے اپنوں کے طعنے بھی سنے اور غیروں کی سازشوں کا شکار بھی ہوئے ، لیکن وہ اپنے موقف پر آخری وقت تک ڈٹے رہے۔ 10 ڈسمبر 1921کو جب مولانا آزاد کلکتہ میں گرفتار کرلیے گئے تھے ،اس وقت عوام کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستانیوں کے باہمی اتحاد کے بغیرآزادی کا حصول ممکن نہیں ہے۔ مولانا آزاد نے اس پیغام کو عام کیا کہ پرامن بقائے باہم کے ذریعہ ہی انسانیت کا تحفظ ممکن ہے۔ مولانا آزاد نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز ایک ایسے وقت کیا جب کہ ہندوستان غلامی کے خطرناک دور سے گزر رہا تھا۔ مسلمان اقتدار کے کھونے سے مایوس ہوچکے تھے۔ ایسے نازک وقت مولانا آزاد نے قومی زندگی میں قدم رکھا۔ ایک طرف وہ تحریک آزادی کے ہراول دستے میں شامل ہوکر ہندوستانیوں میں آزادی کا صور پھونک رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں میں حالات سے نبرد آزما ہونے کا درس دے رہے تھے۔ مولانا آزاد کے سیاسی افکار و نظریات وقت اور حالات کی منا سبت سے ڈھلتے رہے۔ ان کی سیاسی فکر کا پہلا دور 1906سے 1915ءتک کا ہے۔ اس وقت مولانا آزاد کی عمر صرف 18سے 28سال کے درمیان تھی۔ اس پہلے دور میں مولانا آزاد ایک صحافی، انشاءپرداز، مدیر اور خطیب کی حیثیت سے ابھرتے ہیں۔ مولانا آزاد اس پہلے دور میںاپنے رسالے الہلال کے ذریعہ عالمگیر اخوت، اتحاد اسلامی اور حب الوطنی کے پیام کو عام کرتے نظر آتے ہیں۔ مولانا نے الہلال کے اجراءکی غرض و غایت بیان کر تے ہوئے لکھا کہ اس پرچہ کو جاری کرنے کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ مسلمانوں کو ان کے اعمال اور اعتقادات میں صرف کتاب اللہ اور سنت رسول پر عمل کرنے کی دعوت دینا ہے اور خواہ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل ہوں یا تمدنی یا سیاسی ہر جگہ مسلمانوں کو اسلام سے رہنمائی حاصل کرنا ہے۔ مولانا آزاد نے الہلا ل میں لکھا کہ "آپ پوچھتے ہیں کہ اس وقت ہندوو¿ں کے دو پولیٹکل گروہ ہیں ، ان میں سے آپ کس کے ساتھ ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ ہم کسی کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہم صرف خدا کے ساتھ ہیں۔ مسلمانوں کے لیے اس ے بڑھ کر شرمناک بات کیا ہوگی کہ وہ دوسروں کی پولیٹکل تعلیمات کے آگے جھک جائیں ۔ ان کو کسی پولٹیکل گروہ میں شامل ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے ۔ وہ خود اپنا راستہ متعین کریں ” مولانا آزاد نے کم و بیش ایک سو سال پہلے یہ بات کہی تھی کہ مسلمان سیاسی میدان میں اپنا ایجنڈا خود طے کریں۔ موجودہ حالات میں مولانا آزاد کی یہ بات کتنی معنویت رکھتی ہے کہ مسلمان اس ملک میں سیاسی طور پر کسی سیاسی پارٹی کے جھنڈے اٹھانے کے بجائے خود ایک سیاسی قوت بنیں۔
مولانا آزادکے سیاسی سفر کے دوسرے دور کا آغاز 1916 سے ہوتا ہے اور 1919تک چلتا ہے۔ یہ دور ہندوستان کی سیاست کا ایک ہنگامی دور تھا۔ اس کے اثرات مولانا آزاد کی سیاسی فکر پر بھی پڑے۔جب مولانا آزاد 1919 میں رانچی کی جیل سے رہا ہوکر عوامی زندگی میں ایک نئے نظریہ کے ساتھ حصہ لینے لگے تو بہت سارے حلقوں میں یہ محسوس کیا جانے لگا کہ مولانا نے اپنا راستہ بدل دیاہے۔ چناچہ وہ عالمگیر اتحاد اسلامی کے خواب کو چھوڑ کر تحریک خلافت اور ہندوستانی قومیت کے نظریہ کے علمبردار بن کر قوم کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینے لگے۔ ان کے سامنے یہ بات اہم تھی کہ ہندوستان کو غلامی کے چنگل سے آزاد کرایا جائے۔ اسی مقصد کے پیش نظر ان کی گاندھی جی سے 18 جنوری 1920کو ملاقات ہوتی ہے۔ اس پہلی ملاقات کے بعد مولانا آزاد اور گاندھی جی میں محبت اور خلوص کا ایک ایسا اٹوٹ رشتہ قائم ہوجاتا ہے کہ ہر دو قائدین آخری وقت تک ایک دوسرے کا نہ صرف احترام کر تے تھے بلکہ دونوں کے سیاسی نظریات میں ہم آہنگی کا ایسا عنصر تھا کہ کوئی دوسرا ان کے خلاف نہیں جا سکتا تھا۔ مولانا آزاد نے پھر پورے عزم اور حوصلہ کے ساتھ تحریک آزادی کے قافلے سے اپنے آپ کو وابستہ کرلیا۔ یہ مولانا آزاد کا کارنامہ تھا کہ انہوں نے دہلی کی جامع مسجد میں مدرسہ اسلامیہ کا افتتاح 13 ڈسمبر 1920کو گاندھی جی کے ہاتھوں سے کروایا۔ ان کی اس سیاسی بصیرت کا نتیجہ تھا کہ اس ملک کے ہندو ، مسلمانوں کے قریب ہونے لگے۔ انگریزوں نے ”لڑاو¿ اور حکومت کرو “کی جو روش اختیار کی تھی ، مولانا آزاد نے اس حکمت عملی کے ذریعہ اس کا قلع قمع کر دیا۔ ان کا یہ ایقان تھا کہ ہندو۔ مسلم اتحاد کے بغیر متحدہ قومیت کی عمارت تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ موجودہ حالات میں جب کہ ملک کی فسطائی طاقتیں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کے لیے ہندوو¿ں اور مسلمانوں کے درمیان نفرت کی فضاءپیدا کرنا چاہتی ہے۔ کیا یہ ضروری نہیںہے مولانا آزاد کی اس سیاسی فکر کو اپناتے ہوئے اسے آگے بڑھایا جائے تا کہ ملک سے مذہبی منافرت کا خاتمہ ہوسکے۔ملک میں اس وقت فسطائی طاقتیں نام نہاد قوم پرستی کے نام پر اکثریتی طبقہ کو اقلیتوں کے خلاف کھڑا کرنے کی جو مذموم حرکتیں کر رہی ہیں، اس سے ہندوستانی سماج میں ایک دوسرے کے تعلق سے شکوک و شبہات بڑھتے جا رہے ہیں ۔ ایسے نازک وقت ملک کے مختلف طبقوں کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاءکو پروان چڑھانے کے لیے ایک دوسرے کے مذہب کے احترام کا جذبہ عوام میں پیداکیا جائے تو سیاستدانوں کو عوام کو گمراہ کرنے کا موقع نہ ملے گا۔ اس کے لیے مولانا آزادی جیسی عبقری شخصیتوں کے افکار کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا آزاد کا دل قومی یکجہتی اور قومی اتحاد کے لیے کتنا بے چین رہتا تھا ، اس کا اندازہ ان کی اس تاریخی تقریر سے ہوتا ہے، جس میں انہوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ ”آج اگر کوئی فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور دہلی کے قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ کہے کہ سوراج چوبیس گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے ، لیکن شرط یہ ہے کہ ہندوستان ، ہندو ، مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سوراج سے دستبردار ہوجاو¿ں گا ، کیوں کہ سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوجائے تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا ، لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہوگا ©©“کیا آج ہندوستان کا کوئی قائد اس قسم کے پاکیزہ جذبات رکھتے ہوئے قوم کی صحیح رہنمائی کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ہر سیاسی لیڈر اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے معصوم عوام کا استحصال کر نا اپناایک ہنر مانتا ہے۔ عوام کے درمیان باہمی اتحاد کی جو کوششیں کی جاتی ہیں اسے محددو ذہنیت رکھنے والے عوامی قائدین اپنے لیے خطرہ محسوس کر تے ہیں اور اس اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے مذہب کا غلط استعمال کرکے عوام کو خانوں میں بانٹ دیتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک ایسے مدبر سیاستدان تھے جنہوں نے جدوجہدآزادی کے قافلے میں ایک نئی جان ڈال دی۔ انہوں نے انڈین نیشنل کانگریس کے صدر کی حیثیت سے ایسے انقلابی اقدامات کیے کہ اس سے ہندوستان کی آزادی کی منزل آسان ہوگئی۔ مولانا آزاد نے جس وقت کانگریس کی صدارت سنبھالی، اس وقت ان کی عمر صرف 35سال تھی۔ انہیں کانگریس کے سب سے کم عمر صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جس وقت مولانا آزاد کانگریس کی صدارت پر فائز ہوئے کانگریس پارٹی میں ایک ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ مولانا آزاد نے اپنی سیاسی بصیرت کے ذریعہ کا نگریس کو پھوٹ سے بچا یا اور اس میں ایک نئی روح پھونکی۔ وہ ملک میں کانگریس پارٹی کے ہوتے ہوئے کسی اور سیاسی پارٹی کی موجودگی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ کانگریس کے ایک اجلاس سے خطاب کر تے ہوئے مولانا آزاد نے کہا کہ ”آج ہمیں ہندوستان میں کسی ہندو سنگھٹن کی ضرورت ہے اور نہ مسلم سنگھٹن کی۔ ہمیں صرف ایک سنگھٹن کی ضرورت ہے اور وہ انڈین نیشنل کانگریس ہے“ کانگریس سے ان کی یہ والہانہ وابستگی کا مقصد صرف یہ تھا کہ ملک میں ہندو ۔ مسلم مسائل پیدا نہ ہوں اور سارے ہندوستانی کانگریس کے پرچم تلے ، تحریک آزادی کے قافلے میں شامل ہوجائیں۔ انہوں نے ہنگامی دور میں کانگریس کی قیادت کو بھی صحیح راستہ دکھایا اور ملک کے عوام کو بھی اس بات کے لیے آمادہ کیا کہ وہ ہر قسم کے مذہبی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک کو غلامی کے دور سے نکالنے میں اپنے آپ کو وقف کردیں گے۔ مولانا ا ٓزاد کی قومی زندگی کا یہ پہلو بھی منفرد ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل کرتے ہوئے ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ وہ ملک کی آزادی کی خاطر اپنے مذہبی معاملات سے کوئی سمجھوتہ کرلیں۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے ملک کی تعمیر و ترقی میں بھرپور حصہ لیں۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا آزاد، ہندوستان کے مسلمانوں کی آخری امید بن کر ابھرے۔ ملک کی تقسیم نے مسلمانوں میں مایوسی اور بزدلی کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ ایسے موقع پر مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں کو حوصلہ دیا۔ اکتوبر 1947 میں مولانا آزاد نے دہلی کی جامع مسجد سے جو تاریخی خطبہ دیا تھا، اس کی معنویت آج بھی بر قرار ہے۔ اپنے اس انقلابی خطاب میں مولانا آزاد نے جو تاریخی جملے کہے تھے وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے گئے۔ مولانا نے کہا تھا کہ "یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے اُچک کر سوال کرتے ہیں کہ تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیا؟ ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا۔ اور آج تم ہو کہ تمیں یہاں رہنے سے خوف محسوس ہور ہا ہے۔ حالاں کہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے“ مولانا آزاد کا یہ خطاب ایسے وقت ہور ہا تھا جب کہ مسلمانوں کے صاحب حیثیت لوگ ہجرت کے نام پر فرار کا راستہ اختیار کر رہے تھے۔ آزادی کا سورج مسلمانوں کے خون سے لہو لہان ہوکر طلوع ہو رہا تھا۔ خوف اوردہشت کا ایسا ماحول پیدا کردیا گیا تھا کہ سب کی زبانیں خاموش تھیں۔ ایسے وقت مولانا آزاد نے ہندوستانی مسلمانوں میں حالات سے نبردآزما ہونے کا حوصلہ پیداکیا۔ انہیں بتایا کہ وہ اپنی فاش غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے آزاد ہندوستان میں ایک کلیدی رول ادا کریں۔ مولانا آزاد نے آج سے 75 سال پہلے یہ پیشین گوئی کردی تھی کہ محض دستور اور قانون کی دہائی دے کر کوئی گروہ اپنا جائز حق حاصل نہیں کر سکتا۔ اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے جدو جہد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔مولانا آزاد کے لیے صحیح خراج عقیدت یہی ہے کہ ان کے بصیرت افروز افکار و نظریات کو ہندوستانی عوام کے سامنے لایا جا ئے تا کہ ملک میں پھر سے اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی فضاءعام ہو اور فرقہ پرستی کو لگام دی جا سکے۔

a3w
a3w