مذہب

مومن اور متقی پرہیز گار ہوا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نوازیں گے: مولانا حافظ پیر شبیر احمد

حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علما تلنگانہ و آندھرا پردیش نے آپ نے ایک بیان میں کہا کہ ولی کا معنی ہے قریب و نزدیکی اور ولایت کا معنی ہے محبت کرنا، قریب ہونا شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی پرہیز گار ہوا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے۔

حیدرآباد: حضرت مولانا حافظ پیر شبیر احمد صدر جمعیۃ علما تلنگانہ و آندھرا پردیش نے آپ نے ایک بیان میں کہا کہ ولی کا معنی ہے قریب و نزدیکی اور ولایت کا معنی ہے محبت کرنا، قریب ہونا شریعت میں ولی اسے کہتے ہیں جو مومن اور متقی پرہیز گار ہوا اور اللہ تعالیٰ اسے اپنے قرب محبت سے نواز دے۔

حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمتہ اللہ نے مرتبہ ولایت پر فائز ہونے کے وہ اسباب ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مرتبہ ولایت کے حصول کی یہ صورت ہے کہ بالواسطہ یا بلا واسطہ آئینہ دل پر آفتاب رسالت کے انوار کا انعکاس ہونے لگے اور پر تو جمال محمد قلب و روح کو منور کر دے اور یہ اُمت  انہیں بخشی جاتی ہے جو بارگاہ رسالت میں یا حضور کے نائین کا یعنی اولیاء امت کی صحبت میں بکثرت حاضر رہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا جو شخص میرے کسی ولی (بندہ مقرب) سے عداوت رکھے تو میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور میرا بندہ کسی اور میری پسندیدہ چیز کے ذریعے میرا قرب نہیں پاتا جتنا کہ فرائض کے ذریعے (میرا قرب پاتا ہے اور میرا بندہ نفل (زائد) عبادات کے ذریعے ہمیشہ میرا قرب پاتا رہتا ہے۔

یہاں تک کہ میں اس سے محبت فرماتا ہوں۔ جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے اور اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگے تو اسے ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو اسے ضرور پناہ عطا فرماتا ہوں۔

بزرگان دین فرماتے ہیں اتعالیٰ نے دو گنا ہوں پر وعید جنگ فرمائی ہے۔ (1) سود (2) اللہ تعالی کے محبوب بندوں سے حضرت ملاعلی قاری فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں کے ساتھ عداوت رکھنا انتہائی خطرناک عطاف ہے۔ اس کی وجہ سے ایمان کے خاتمہ کا خطرہ ہے سلسلہ بیان جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تعلی کا اپنے بندہ محبوب کے کان ہاتھ اور پاؤں بن جانے سے مراد یہ ہے کہ جب بندہ مومن فرائض پر پابندی کے بعد نوافل کی کثرت اختیار کرتا ہے اور مجاہدات وریاضت کے ذریعے وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے انوار و تجلیات اس پر وارد ہوں۔ تو خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر بن جاتا ہے۔

اب اس کا سننا، دیکھنا پڑھنا اور چلنا عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتا بلکہ اس کیلئے دوریاں اور فاصلے ختم کر دیئے جاتے ہیں اور وہ جہاں چاہے تصرف کر سکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے ایک صحابی واقعہ موجود ہے کہ بلی ملک میں سلمان ہونے کی غرض سے حضرت مسلمان ہونے سلیمان علیہ السلام کے دربار کے قریب پہنچ چکی تھی۔ تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں کون ہے جو بلقیس کا تخت سینکڑوں میل دور صنعاء یمین ہے) اس کے میرے پاس پہنچنے سے پہلے میرے پاس لائے؟

تو قرآن مجید میں ہے: اس شخص نے جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہا میں آپ کے پاس وہ تخت آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے لاتا ہوں یہ تو حضرت سلیمان علیہ السلام کی اُمت – کے ولی تھے لیکن حضور سید الانبیاء حضرت محمد مصطفے کی اُمت کے اولیاء کی شان پہلی امتوں کے اولیاء کرام سے کہیں زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ جتنے لوگ دنیا میں ولی بنے ہو چاہئے وہ پیران حضرت عبدالقادر جیلائی یا خواجہ معین الدین چشتی حضرت با با فرید الدین گنج حضرت نظام الدین اولیاء وغیرہ نے بھی ان سب ہمارے ہندوستان کے بڑے اولیاء کزریں ہے انہوں نے عوام الناس سے درخواست کی ہے کہ وہ ہفتہ میں ایک مرتبہ کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کریں اور اپنے مردہ دلوں کو زندہ کرے۔ اللہ تعالی ہم سب کو عمل صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔

a3w
a3w