مضامین

موہن بھاگوت کی مسلم دانشوروں سے ملاقات

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ہندوستان جیسے تکثیری معاشرہ میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان مذاکرات اور گفت و شنید کا سلسلہ ملک اور قوم کے اتحاد کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اس سے قربتیں بڑھتی ہیں اور فاصلے گھٹتے ہیں۔ ایک ایسے وقت جب کہ ہمارا ہردلعزیز ملک ،مذہبی، سیاسی، لسانی اور علاقائی عصبیتوں کی زنجیروں میں جکڑتا جا رہا ہے ، ایسے وقت اگر کوئی بامعنی، مخلصانہ اور ٹھوس بنیادوں پر باہمی بات چیت کی پہل کسی جانب سے ہوتی ہے تو اس کا خیرمقدم کیاجانا چاہیے، لیکن محض کسی مذہبی گروہ کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے بند کمروں میں بات چیت کی جا تی ہے تو اس سے مزید غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پھیل سکتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گز شتہ دنوں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کے سر سنچالک موہن بھاگوت اور مسلمانوں کی با اثر شخصیتوں کے درمیان دہلی میں واقع آر ایس ایس کے ہیڈ کوارٹر میں ملاقات ہوئی۔ آرایس ایس سربراہ سے ملاقات کرنے والوں میں دہلی کے سابق لیفٹنٹ گورنر نجیب جنگ، سابق چیف الیکشن کمشنر ایس وائی قریشی، سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی لیفٹنٹ جنرل ( ریٹائرڈ ) ضمیرالدین شاہ اور راشٹریہ لوک دل کے قومی صدر شاہد صدیقی کے علاوہ دیگر احباب تھے۔ یہ تمام شخصیتیں اپنے علم ، تجربہ اور اپنی دیرینہ خدمات کی بنیاد پر سماج میں بڑی عزت و احترام سے دیکھی جاتی ہیں۔ ان سے اس بات کی بھی امید کی جا تی ہے کہ انہوں نے ملک کی ایک منظم تنظیم کے سربراہ کے سامنے ان سے مرعوب ہوئے بغیر بے لاگ انداز میں گفتگو کی ہوگی اور اپنے موقف کو واضح بھی کردیا ہوگا۔آرا یس ایس کے صدر سے ملاقات کے بعد ان شخصیات نے تادم تحریر باضابطہ پریس کانفرنس کرکے یہ نہیں بتایا کہ یہ ملاقات کس پس منظر میں کی گئی اور کن مسائل پر گفتگو کا فوکس رہا۔ موہن بھاگوت نے بھی مسلم دانشوروں سے ہوئی اپنی بات چیت کو پردہ¿ راز میں ہی رکھنا مناسب سمجھا۔ ان کی جانب سے بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ آخر کس تناظر میں اس بات چیت کا اہتمام کیا گیا۔ باور کیا جا رہا ہے کہ یہ میٹنگ زائد از دوگھنٹے طویل رہی اور اس میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے استحکام اور بین المذاہب تعلقات کو بہتر بنانے پر زور دیا گیا۔ اس بات پر بھی شرکاءکے درمیان اتفاقِ رائے پایا گیاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے بغیر ملک کی ترقی ممکن نہیں ہے۔ میٹنگ میں شامل ایک رکن نے جنہوں نے اپنا نام ظاہر کرنا نہیں چاہا ،یہ کہا کہ اس اجلاس کا مقصد مسلم برادری کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنا تھا اور آرایس ایس کے سربراہ سے دریافت کرنا تھا کہ انہیں مسلمانوں سے کیا مسئلہ درپیش ہے۔ اجلاس میں شرکت کرنے والے ایک اور رکن نے بتایا کہ موہن بھاگوت نے بھی مختلف مسائل پر اظہار خیال کیا اور وفد کو گیان واپی مسجدتنازعہ کے موقع پر دیے گئے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوںنے اس وقت یہ کہا تھا کہ ”ہر مسجد میں شیو لنگ کیوں تلاش کیا جائے ۔“ ان کا ادعا تھا کہ ان کے اس ریمارک کو مسلمانوں تک پہنچانا چاہیے تھا تا کہ ہندوو¿ں اور مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی خلیج کو پاٹا جا سکے۔ مسلم دانشوروں کے ساتھ ہوئی اس ملاقات کو آر یس ایس ”برف کو پگھلانے“ کی ایک کوشش قرار دے رہی ہے اور آئندہ مسلم دانشوروں کے ساتھ وسیع پیمانے پر اجلاس رکھنا طے پایا ہے۔ ممتاز مسلم شخصیتوں سے آرا یس ا یس کا یہ تال میل اگر ملک میں سیکولرازم اور جمہوریت کو صحیح رخ دینے میں کوئی کلیدی رول ادا کرتا ہے تو اس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے اور ایسی ملاقاتیں بار بار ہوں۔ لیکن کیا ان رسمی ملاقاتوں سے واقعی برف پگھل سکتی ہے؟
آر ایس ایس اپنی ایک آئیڈیالوجی رکھتی ہے۔ وہ اپنے قیام کے پہلے روز سے ہندوتوا کی علمبردار ہے۔ اس نظریہ کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اس ملک کا مقدر ہندوتوا سے وابستہ ہے۔ آرایس ایس کی نظر میں ہندو مذہب کو چھوڑ کر سارے دوسرے مذاہب غیر ملکی ہیں۔ اور جب تک اس ملک میں رہنے والے سارے لوگ اپنے مذہب اور تہذیب کو خیرباد کرکے ہندو مذہب اور ہندو کلچر میں ضم نہیں ہوجائیں گے اس وقت تک ان کی ملک سے وفاداریاں مشکوک رہیں گی۔ اس قسم کے جارحانہ نظریات رکھنے والے کس طرح ملک میں رہنے والے دوسرے لوگوں کو ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔قومی اتحاد اگر اولین ترجیح بن جائے اور تمام شہریوں کو دستور ہند میں دی گئی آزادیوں کے مطابق باوقار زندگی گزارنے کا موقع دیا جائے تو فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا ماحول ملک میں پیدا ہوسکتا ہے اور اس سے ملکی ترقی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں، لیکن آرایس ایس کا ایجنڈا تو ملک کو ہندو راشٹر بنانے کا ہے۔ اسی ایجنڈے کے مطابق اس وقت مرکز کی بی جے پی حکومت اپنی پالیسیاں بنا رہی ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا باقی نہ رہا جہاں ہندوتوا کو ٹھونسنے کی کوشش نہ کی جا رہی ہو۔ نئی تعلیمی پالیسی کے ذریعہ نصاب میں ایسی چیزیں شامل کردی گئیں جس سے نوخیز نسل کے ذہن پراگندا ہوتے ہیں۔ ابھی اطلاع آئی کہ کرناٹک کی بی جے پی حکومت نے بھگود گیتا کو اسکولی نصاب میں لازمی قرار دے دیا ہے۔ اگر گیتا کی تعلیم اسکولوں میں لازمی ہے تو پھر دیگر مذاہب کی مقدس کتابوں کو بھی شاملِ نصاب کرنا چاہیے۔ قرآن، بائبل اور گروگرنتھ کی تعلیم سے بھی بچوںکو آراستہ کرنا چاہیے۔ لیکن کرناٹک میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔ وہاں مسلم لڑکیوں کے حجاب پہننے پر ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ میں اس پر بحث جا ری ہے۔ منگل ) 20 ستمبر) کو سپریم کورٹ میں ہوئی بحث میں کرناٹک حکومت کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے عدالت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ حجاب اسلام کا حصہ نہیں ہے۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن میں حجاب کا ذکر ہونے سے وہ اسلام کا لازمی حصہ نہیں ہوجاتا۔ سالیسٹر جنرل کو اب کون یہ بتائے کہ اسلام کے ایک ایک حکم پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیے لازمی ہے۔ عدالتوں میں قرآن کی تشریح ، قرآن کا علم نہ ہونے والوں کی جانب سے کی جائے گی تو پھر بھلا موجودہ حکومتیں مسلمانوں کا اعتماد کیسے حاصل کرسکیں گی۔ موہن بھاگوت کیا کرناٹک کی حکومت کو یہ مشورہ نہیں دے سکتے کہ ریاست میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایسے موضوعات کو نہ چھیڑا جائے جس سے کسی کی مذہبی آزادی پر ضرب پڑتی ہو۔ اسی طرح وی ایچ پی اور بجرنگ دل جیسی انتہا پسند تنظیمیں ملک کی فضاءکو اپنے زہریلے بیانات کے ذریعہ زہر آلود کر رہی ہیں۔کیا آر ایس ایس کے سربراہ ان کو لگام نہیں دے سکتے؟ آسام اور یوپی کی حکومتیں مسلمانوں کو پریشان کرنے کا کوئی حربہ نہیں چھوڑ رہی ہیں ، ان حکومتوں کو سنگھ پریوار کے سربراہ وارننگ کیوں نہیں دیتے کہ ان کے مسلمانوں کے خلاف جارحانہ اقدامات سے ملک عالمی سطح پر بدنام ہو رہا ہے۔ ان سارے ہنگاموں کے بیچ آر ایس ایس کے سربراہ مسلمانوں کی سربرآوردہ شخصیتوں سے بند کمرے میں تبادلہ خیال کر تے ہیں تو بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے اپنی کارستانیوں پر پردہ ڈالتے ہوئے مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے وہ بدلے ہوئے حالات سے سمجھوتہ کرلیں۔ آر ایس ایس کا جو دیرینہ خواب ہے، اس کو شرمندہ تعبیر کرنے میں مسلمان آ گے آئیں۔ مسلمانوں کے شاکلہ ذہنی (Mindset) کو بدلنے کی ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت موہن بھاگوت نے مسلمانوں کے دانشوروں کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے اس اجلاس کو منعقد کیا تاکہ مسلمانوں کے یہ ”بہی خواہ “ یہ پیغام دینے لگیں کہ آر ایس ایس مسلمانوں کی دشمن نہیں بلکہ دوست ہے۔
یہ دراصل 2024 میں ہونے والے الیکشن کی تیاری ہے۔ بی جے پی کو تیسری مرتبہ اقتدار پر لانے کے لئے سنگھ پریوار مختلف سطحوں پر الگ الگ انداز کی حکمت عملی اختیار کررہا ہے۔ ایک طرف فرقہ پرست طاقتیں دعویٰ کرتی ہیں کہ انہیں مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے اور د وسری طرف موہن بھاگوت ، مسلمانوں کے با اثر طبقے کے سامنے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ آر ایس ایس اس ملک میں سب کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم رکھتی ہے۔ لیکن ان کے خود کئی ایسے بیانات بطور سند کے پیش کئے جا سکتے ہیں جس میں انہوں نے ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی بات پورے زور و شور کے ساتھ کی ہے۔ ایودھیا میں بابری مسجد کے ملبے پر رام مندر کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ آج محض ایک مندر کی تعمیر کا آغاز نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ یہ ہندوستان کو ہندو ررشٹر ا میں بدلنے کا اعلان ہے۔ اسی طرح کئی موقعوں پر انہوں نے کہا کہ یہاں کے تمام لوگوں کا ڈی این اے ایک ہے۔ ان سب کے آباءو اجداد ہندو تھے ۔ اس لیے سب اپنے آپ کو ہندو کہتے ہوئے فخر محسوس کریں۔ موہن بھاگوت کی نظر میں سب ہندو ہیں اور سب کا ڈی این اے ایک ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ یہاں کے سارے لوگ ان کے ان متنازعہ بیانات کو قبول کرتے ہوئے اپنا مذہب بدل لیں۔ ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے لئے یہ ذہنیت کام آنے والی نہیں ہے۔ سب سے پہلے انہیں ہندوستان کے تہذیبی تنوع کو تسلیم کرنا لازمی ہے۔ ہندوستان ” کثرت میں وحدت ” ہے۔ اس ملک کی عظمت کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ ملک کے معماروں نے اس کی صدیوں قدیم روایات کو باقی رکھا۔ ہر مذہب ، ہر زبان اور ہر تہذیب کو پھلنے پھولنے کے پورے مواقع دیے۹۔ آج جن قوتوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی لگام ہے وہ سارے مذاہب، ساری تہذیبوں اور ملک کی دیرینہ روایات کا قلع قمع کرکے ایک مذہب، ایک تہذیب اور ایک زبان کو ملک کے ساری عوام پر مسلط کرنا چاہتی ہیں۔ اس تنگ نظری اورتعصب کے ہوتے ہوئے کیا آر ایس ایس کے ذمہ داروں کی باتوں پر یقین کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں اس وقت فرقہ پرست طاقتوں نے عدم برداشت اور مذہبی منافرت کا جو ماحول پیدا کردیا ہے اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ ایک سراب بن کر رہ گئے۔ ہندوتوا کو سب کی آرزوو¿ں اور تمناو¿ں کا مرکز بنانے کی بیجا خواہش نے ملک کے سماجی تانے بانے کوتار تار کرکے رکھ دیا ہے۔ تحمل پسندی اور باہمی تعاون کی جگہ نفرت ، عداوت اور حقارت نے لے لی ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ، عیسائیوں، دلتوں اور کمزور طبقات کے لئے بھی ہندوتوا کے علمبرداروں کے دل میں نرم گوشہ نہیں ہے۔ عدم رواداری اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات نے ملک میں گھٹن کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ یہ بدبختانہ صورت حال کیوں اور کیسے پیدا ہوئی اس پر آر ایس ایس کے سربراہ کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اس کے تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ان کا فرض بنتا ہے۔ حکومت کی ساری مشنری کا ریموٹ کنٹرول ان کے ہاتھوں میں ہے۔ ملک کے وزیراعظم سے لے کر بی جے پی کا مقامی ورکر بھی ان کے حکم کا تابع ہے۔ وہ اگر واقعی ملک میں فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں تو ان کے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ ان عناصر پر اپنا شکنجہ کَس سکتے ہیں جو اپنی شرانگیزی کے ذریعہ ملک کو ایک خطرناک دہانے پر لے جارہے ہیں۔ جہاں تک ان مسلم دانشوروں کی بات ہے ، جنہوں نے موہن بھاگوت سے ملاقات کی،ان ”مصلحین قوم“ کو یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہئے کہ آر ایس ایس کے عزائم کیا ہیں اور وہ کس طرح سماج کے مختلف طبقوں کو اپنے دامِ فریب میں لینا چاہتی ہے۔ ایک رسمی ملاقات کے بعد مسلم دانشور سنگھ پریوار کے ترجمان بن کر سامنے آئیں گے تویہ ہندوستانی مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہ ہوگا۔