طنز و مزاحمضامین

مہمان

شوکت تھانوی

منجملہ دیگر آفات ارضی و سماوی کے ایک آفت مہمان بھی ہے جو ہندوستان میں عموماً اور ہندوستان کے مسلمانوں کے یہاں خصوصاً ناگہانی طور پر نازل ہوا کرتی ہے۔ ہمارا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کو مہان برے لگتے ہیں یا ہم مہمانوں سے جان چراتے ہیں۔ ہاں اتنا ضرور ہے کہ ہم ہندوستانی مہمانوں کی اصلاح کے لیے ہر وقت دست بہ دعا ضرور رہتے ہیں کہ خداوند کریم ان کو مہمان بننا سکھادے اور اگر ان کو مہمان بننا نہیں آسکتا تو میزبانوں سے وہ اخلاق و مروت اٹھالی جائے جو مہمانوں کی عادتیں خراب کرنے کا باعث ہیں۔
یہ انسانیت ملاحظہ فرمائیے کہ رات کو ٹھیک ساڑھے بارہ بجے جب یہ ساری دنیا بے خبر سوتی ہے، یہ مہمان صاحب کسی غریب پر بغیر اطلاع کے ایک بلائے ناگہانی کی طرح اس طرح نازل ہوجاتے ہیں کہ دروازہ کھلوانے کی صداﺅں سے وہ تو وہ اس کے اہل و عیال بلکہ تمام اہل محلہ جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ بیچارہ آنکھیں ملتا ہوا باہر آتا ہے کہ کیا آفت ہے تو یہ مہمان صاحب مع ایک عدد بستر اور ایک آدھ ٹرنک کے سلام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ سچ بتائیے کہ ایسے موقع پر اس بیچارے کا کیا حال ہوگا جس کے گھر میں نہ تو جگہ ہے نہ چار پائیاں، لیکن وہ اپنی دلی کیفیات کو چھپا کر اپنے چہرے پر مہمان نوازی کی شان پیدا کرلیتا ہے اور زیرلب متبسم ہو کر اخلاق سے کہتا ہے:
”اخاہ۔ کدھر راستہ بھول گئے۔ آج کدھر چاند نکل آیا؟“
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
مہمان صاحب بھی اپنی بے حسی کا ثبوت دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
”ارے بھائی تم کیوں آتے، میں ہی بے غیرت بن کر آنکلا، دہلی جارہا تھا، نہ رہا گیا کہ آگرہ سے گزروں اور تم سے نہ ملوں۔ کہو اچھے تو رہے۔ اور بھاوج کیسی ہیں۔ میرا سلام کہہ دو اور ہمارا بیٹا کیسا ہے۔ بڑا دل چاہتا تھا اس سے ملنے کو۔ اچھا بھائی اس تانگے والے کو کیا دے دوں؟ میزبان فوراً تانگہ والے کو کرایہ دے کر رخصت کرے گا۔ مہمان صاحب بھی رسمی طور پر کرایہ دینے سے منع کریں گے لیکن میزبان ’بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے‘ کہہ کر اس قصہ کو بھی ختم کردے گا اور اب اس کو مہمان کے لیے چارپائی اور جائے قیام کی فکر ہوگی۔ بیچارہ اپنے کسی بچے کو تخت پر سلائے گا،کسی کو بیوی کے پاس ،خود اپنا بستر کسی جگہ رکھے گا، لیکن مہمان کے لیے بہترین چارپائی کا انتظام کرے گا اور اس مرحلے کے طے ہوجانے کے بعد اس کو مہمان کے کھانا کھلانے کی فکر ہوگی۔ یہ ایک بجے رات کا وقت دیکھیے اورمہمان کو کھانا کھلانے کی فکر ملاحظہ فرمائیے، لیکن وہ انتظام کرے گا او رمہمان صاحب بھی ایسے ہیں کہ اسی وقت ماحضر تناول فرمائیں گے۔ کھانے وغیرہ سے فراغت کے بعد مہمان صاحب تو چارپائی پر درازہوجائیں گے لیکن میزبان اب بھی ان کے قریب بیٹھا ہوا ادھر اُدھر کی باتیں کرے گا، کبھی پان کو پوچھے گا ،کبھی حقہ کو اور کبھی کبھی گھبرا کر پوچھ لے گا کہ ”بھائی کوئی تکلیف تو نہیں ہے۔ یہ خانہ بے تکلف ہے، خدا کے لیے تکلیف نہ اٹھانا۔“
ہم سچ کہتے ہیں کہ جو حرکت ان مہمان صاحب نے اس غریب ہندوستانی میزبان کے ساتھ کی ہے، اگر کسی انگریز کے ساتھ کرتے تو لطف آجاتا۔ اول تو رات کو اسٹیشن سے کسی انگریز کے گھر پر جانے کی جرات ہی نہ ہوتی اور اگر ایسا ہی دماغ خراب ہوجاتا تو اس بری طرح اس کے بنگلے سے نکالے جاتے کہ شاید پھر عمر بھر کسی کے مہمان نہ بنتے۔ انگریزوں پر یہ مہمان والی آفت اول تو نازل ہی نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو ناگہانی طور پر کبھی نہیں ہوتی۔ انگریز اپنے کسی دوست کے یہاں بدرجہ مجبوری ٹھہرتے ہیں ورنہ ہوٹل قیام کرنے کے ہوتے ہیں۔ اگر کسی انگریز کو اپنے کسی دوست کے یہاں ٹھہرنا ہوتا ہے تو وہ سب سے پہلے اس سے اجازت طلب کرتا ہے۔ اگر اس نے اجازت دے دی تو خیر ورنہ سیدھا ہوٹل کا اور اگر ہوٹل نہ ہوا تو ڈاک بنگلہ کا راستہ لیتاہو۔ انگریز مہمان بھی ایسے بدتمیز نہیں ہوتے کہ میزبان کے سر پر بھوت کی طرح سوار ہوجائیں گے اور نہ میزبان ہی ایسا نامعقول اخلاق برتتے ہیں کہ خواہ مخواہ خود تکلیف اٹھائیں اور ایک مفت کی بلا سرلیں۔
یہ بات تو کچھ ہندوستان کے مہمانوں میں پائی جاتی ہے کہ نہایت آزاد ہو کر بالکل بے تکلف ہو کر ہرا س شخص کے یہاں مع احباب کے پہنچ جائیں گے جس سے ایک مرتبہ بھی مل چکے ہیں اور پھر اس کو اس قدر تکلیفیں پہنچائیں گے کہ اسی دنیا میں اس بیچارے کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے ۔جس وقت سے تشریف لائیں گے اور جب تک واپس نہیں جائیں گے، میزبان بیچارے کا یہ حال ہوگا کہ ان کو آرام پہنچانے کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کرے گا اور اس گھر کے تمام بچے اور بوڑھے مرد اور عورت صرف ایک مہمان کے لیے اس طرح مصروف اور مشغول رہیں گے کہ گویا مہمان نے آکر ان کے گھر میں کوئی ورکشاپ کھول دی ہے۔
کوئی پان لگارہا ہے تو حقہ تازہ کرنے میں مصروف ہے او رپھر وقت پر کھانا تیا رکرنے کے لیے ایک پورا اسٹاف باورچی خانہ میں مصروف کار ہے، کسی کے ہاتھ میں تو اہے ا ور کوئی لگن دھورہا ہے، کوئی سیل بٹے کا انچارج ہے اور خود صاحب خانہ ہیں کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد باہر سے آکر تمام انتظامات کا معائنہ فرماجاتے ہیں ۔ کبھی خفا ہوتے ہیں کہ لاحول ولا قوة ابھی تک مرغ بھی صاف نہیں کیا گیا وہ مغرب کے بعد کھانا کھانے کے عادی ہیں اور ہمارے یہاں ابھی تک چاول تک نہیں چڑھائے گئے ۔ خدا کے واسطے تم لوگ میری ناک نہ کٹوانا، کہو تو میں کچھ بازار سے منگوالوں، اس کے جواب میں کچھ کام کرنے والے تو چپ رہیں گے۔ کچھ زیرلب بڑبڑا کر اپنی ناراضگی کا اظہا ر کریں گے، لیکن گھر والی اس قسم کی باتوں کا جواب آخر کب تک نہ دے۔ فوراً کسی برتن کو غصہ سے رکھ کر کہے گی کہ واہ ہاتھ پیر پھلائے دیتے ہیں ،کوئی چار ہاتھ پیر کیسے لگالے ہتھیلی پر سرسوں جماتے ہیں، کس وقت تو سودا آیا ہے، میں سودا لینے بھی نکل گئی ہوتی تو ایک بات تھی، ابھی دھوپ نکلی ہوئی ہے اور جلدی ایسی ہے جیسے چار دن کے فاقے سے ہوں۔“
اب اگر صاحب خانہ یعنی میزبان نے گھروالی کی بات کا کوئی جواب دیا تو یہی سلسلہ اس حد تک پہنچ سکتا ہے کہ بازار سے کھانا آجائے اور مہمان سے کہہ دیا جائے کہ ”گھر میں اختلاج کا ایسا دورہ پڑا ہے کہ تمام گھر پریشان ہے اور اگر صاحب خانہ نے دوراندیشی سے کام لے کر سکوت اختیار کیا تو تھوڑی دیر کے بعد کھانا تیار ہوجاتا ہے۔
مختصر یہ کہ ایک مہمان کے آجانے سے گھر کا نظام ایسا بدل جاتا ہے کہ گویا قیامت آگئی اور مہمان کا حال ہوتا ہے کہ اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، زیادہ سے زیادہ یہ کہ پُرتکلف کھانا دیکھ کر ایک مرتبہ اگردل چاہا تو اخلاقاً اور رسماً صر ف اتنا ضرور فرمادیتے ہیں کہ ”اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟“ اور بس، لیکن اگر میزبان بیچارہ یہ تکلفات نہ کرے تو یہی مہمان صاحب اس سے اس قدر خفا ہوجائیں گے دوسروں کے یہاںا جاکر اس کا مذاق اڑائیں گے اس کی شکایتیں کریں گے اور اس کو مہمان نوازی کے جرم میں ہر جگہ بدنام کریں گے۔
مہمانوں کی بھی مختلف قسمیں ہوتی ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اپنی فطرت کی وجہ سے میزبان کو تکلیفیں پہنچائیں گے کہ صبح ہوتے ہی چاوغیرہ کے انتظام کے علاوہ ان کے لیے نائی کا انتظام کیا جائے، غسل کا انتظام کیا جائے اور جس طرح بھی ہو ان کے لیے کموڈ کا انتظام کیا جائے ورنہ تمام خاطرتواضع خاک میں مل جائے گی۔ دوسری قسم وہ ہے جو اپنے گنوارپن سے میزبان کا ناک میں دم کردیتی ہے کہ ان کے لیے میزپر کھانا لگایا گیا تو وہ ہاتھ دھوکر بغیر کرسیاں لگنے کا انتظار کیے ہوئے بسم اللہ کہہ کر میزپر چڑھ کر بیٹھ گئے ۔ اب نہ ان کو میز پر سے ہٹاتے بن پڑتا ہے نہ ان کے ساتھ میزپر بیٹھ کر کھانا کھانے کو دل چاہتا ہے۔ رفع حاجت کے لیے ان کو غسل خانہ میں بھیجا تو وہ کموڈ کو چاروں طرف سے دیکھ کر واپس چلے آئے کہ وہاں تو کوئی جگہ رفع حاجت کی نہیں ہے۔ ان کے لیے سونے کا انتظام کیا اور چار پائی کے چاروں طرف بیس ہزار اگالدان رکھ دیے لیکن صبح اٹھ کر دیکھیے تو انشاءاللہ کمرہ کے تمام فرش مع دیواروں کے پان کی پچکاریوں سے نگارخانہ چین بنا ہوا ملے گا۔ ان کو اپنے کمرہ میں چھوڑ کر دفتر چلے جائیں تو واپسی میں کمرہ اس طرح کھلا ہوا نظر آئے گا کہ گدے اور کرسیوں کے بیچ میں حقہ اوندھا پڑا ہوگا اورمہمان صاحب غائب ہوں گے۔ اب ان کا انتظار ہورہا ہے ، نوکر بار بار کھانے کا تقاضا کررہا ہے، لیکن کھانا کیسے کھایا جائے۔ مہان صاحب غائب ہوں گے۔ میزبان بیچارہ اپنی بھوک کو ضبط کیے پیٹ پر ہاتھ رکھے ان کے انتظار میں بیٹھا رہے گا یہاں تک کہ وہ نہایت اطمینان سے رات کو جس وقت جی چاہے گا تشریف لے آئے اور ان کو اپنے دیر کرنے پر قطعاً افسوس نہ ہوگا بلکہ الٹی یہی شکایت ہوگی کہ خود میزبان اس آوارہ گردی میں ا ن کے ساتھ کیو ںنہ تھا۔
ایک تیسری قسم ان مہمانوں کی ہے جو غالباً میزبان کے یہاں مستقل سکونت کرنے کی غرض سے تشریف لاتے ہیں کہ مہینہ مہینہ بھر ہوجاتا ہے، لیکن وہ جانے کا نام نہیں لیتے۔ یہاں تک کہ میزبان تھوڑے دنوں تکلف کرنے کے بعد آخر ان کے ساتھ وہ سلوک شروع کردیتا جس کو اصطلاح عام میں روز مرہ کہتے ہیں یعنی نہ تو ان کے لیے کھانے پر انتظار کیا جاتا ہے نہ ان کے لیے کھانے میںکوئی خاص اہتمام ہوتا ہے اور نہ ان سے دن بھر میں پچاس ہزار مرتبہ پوچھا جاتا ہے کہ آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں ہے، لیکن اس لاپرواہی کے باوجود وہ میزبان کے یہاں بالکل اپنا گھر سمجھ کر رہتے ہیں۔ بلکہ ان کو اپنے نزدیک یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ ہماری وجہ سے ہمارے میزبان کو کوئی تکلیف نہیں ہے لیکن اسی تیسری قسم میں بہت سے ایسے بھی ہوتے ہیں جو عرصہ تک مہمان رہ کر اپنے کو اس گھر کا ممبر سمجھنے لگتے ہیں اور میزبان کے ملازموں پر میزبان کے بچوں پر اور میزبان کی بیوی پر اس طرح حکومت شروع کردیتے ہیں گویا یہ سب کچھ ان ہی کا ہے۔ کھانے میں دیر ہوئی تو تقاضا کہلا بھیجا، کھانے میں نمک تیز ہے تو اپنی ناراضگی کا اظہار فرمادیا۔ کوئی ایسی چیز پک گئی جو آپ کو اچھی نہیں معلوم ہوتی تو اس کی شکایت کردی غرضیکہ وہ اس طرح رہنا شروع کردیتے ہیں گویا یہ ان کا ذاتی گھر ہے اور وہ ہمیشہ سے یہاں رہتے ہیں۔ (باقی کل)
ہم کو تو دراصل ایسے مہمان اچھے لگتے ہیں جو اطلاع کے بعد ہمارے یہاں آئیں، ہم ان کو موٹر لے کر اسٹیشن سے لینے جائیں گے، ان کی دل کھول کر خاطر تواضع کریں، ایک وقت ان کے اعزاز میں ڈنر دیں جس میں ہمارے مخصوص احباب بھی شریک ہوں۔ وہ اس وقت تک ہمارے یہاں رہیں جب تک دعوتوں کا سلسلہ جاری رہے۔ اس کے بعد وہ رخصت ہوجائیں اور رخصت بھی اس طرح ہوں کہ ہمارے بچوں کو روپئے دیں، ہمارے نوکروں کو انعام دیں او رہم کو بھی اپنے یہاں مدعو کرکے چلے جائیں۔
خیر ان باتوں سے تو نہیں معلوم لوگ ہم کو کیا سمجھیں گے۔ یہ تو سب مذاق تھا۔ ہاں ہم کو دوست ایسے اچھے لگتے ہیں جو مہمان نہ بنیں اور مہمان ایسے اچھے لگتے ہیں جو ہوٹل میں ٹھہرنے کے بعد ہم سے ملنے آجایا کریں یا زیادہ سے زیادہ ہماری اجازت کے بعد یعنی ہم کو مطلع کرکے ایک آدھ دن ہمارے یہاں ٹھہرجائیں اور وہی زندگی بسرکریں جو ہم کرتے ہی، یعنی ہم رفع حاجت کے لیے کموڈ استعمال کرتے ہیں تو وہ بھی کریں اور اگر ہم بغیر کموڈ کے بھی یہ حرکت کرلیا کرتے ہیں تو ان کو بھی پس و پیش نہ ہو۔ اگر ہم مغرب کے وقت کھاناکھانے کے عادی ہوں تو وہ ہمارے وقت کا خیال رکھیں اور اگر ہم رات کو دوبجے کھانا کھاتے ہیں تو وہ ہماری وجہ سے یہ تکلیف بھی برداشت کرنے کی کوشش کریں۔ مختصر یہ کہ ان کے آجانے سے ہم کو اپنے گھر کے آسمان کو زمین اور زمین کو آسمان نہ بنانا پڑے۔
ہمارے بہت سے کرم فرما ایسے بھی ہیں جن کو واقعی مہمان بننا آتا ہے یعنی وہ بالکل ہماری مرضی کے مطابق مہمان بن کر رہتے ہیں اور ہم کو ا ن کا آنا بالکل ناگوار نہیں ہوتا۔ ہم ان کے ساتھ تکلف نہیں برتتے اور وہ ہمارے یہاں کی نان جوین سے ایسے ہی خوش رہتے ہیں جس طرح عا م طور پر لوگ پلاﺅ سے خوش ہوتے ہیں۔ ان کو ہماری مشکلات کا احساس ہو اور وہ جانتے ہیں کہ ہم کو ان کے لیے جگہ نکالنے میں کس قدر دقت ہوئی ہوگی او ران کو یہ بھی معلوم رہتا ہے کہ اگر وہ جلد سے جلد چلے جائیں گے تو گویا ہم پر ایک قسم کا احسان ہوگا۔ واقعی ہم اس زمانے میں اس قسم کے مہمانوں کی سچے دل سے قدر کرتے ہیںاور ہماری دعا ہے کہ خدا کرے تمام دنیا کے مہمان اسی قسم کے ہوجائیں ۔
ایمان کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے اب تک مہمانو ںکی جتنی قسمیں بتائی ہیں وہ سب کم از کم ہمارے لیے قابل برداشت ،ہیں لیکن ایک آخری اور سب سب سے زیادہ مہلک قسم وہ ہے جس کا خیال آتے ہی ہمار خون خشک ہوجاتا ہے ، ہم لرزہ براندام ہوجاتے ہیں اور اگر بجائے خیال کے وہ واقعی ہمارے سامنے آجائے تو شاید ہم چیخ مار کر بے ہوش ہوجائیں لیکن ہمارے جنتی میں ہونے میں کیا شک ہے کہ ہم نے اس قسم کے مہمانوں کو بھی نبایا ہے اور ہم کو خود تعجب ہے کہ کس طرح نبایا۔ ملاحظہ فرمایے کہ کسی نے ہم سے آکر کہا کہ تمہارے وہ علی گڑھ والے دوست جن کے منہ پر چیچک کے داغ ہیں اور جو شاعر بھی ہیں اور جن کا ذرا دماغ خراب سا ہے او رجو اپنے کو بہت بڑا آدمی سمجھتے ہیں، فتح گنج والی وریج سنگھ کی سرائے میں ٹھہرے ہوئے ہیں ہم یہ سنتے ہی بے چین ہوگئے کہ ہمارا دوست اور ہمارے شہر میں آکر سرائے میں ٹھہرے، فوراً پہنچے اور ان کو مع احباب کے غریب خانے پر لے آئے۔ ہم نے گناہ کیا اور ہم کو اس کی سزا دوسرے ہی دن بھگتناپڑی کہ انہوں نے صبح ہی کھانے کے وقت کہہ دیا کہ مجھ کو تو حکیم نے مرغ کی یخنی بتائی ہے اور ہر قسم کی دال کو منع کردیا او رکہا ہے کہ پلاﺅ کھایا کرو اور یہ بھی ہدایت کی ہے کہ تیل کھٹائی اور مرچ نہ کھانا۔ ہم نے ان کے حکیم صاحب کی ہدایت پر عمل کرنا شروع کردیا تو ایک روز کے بعد پھر فرمانے لگے ”آپ کے یہاں نہ تو یخنی ٹھیک بنتی ہے نہ پلاﺅ اچھاپکتا ہے۔ رات کو دونوں کو ملا کر مرغ پلاﺅ پکوائیے شاید کچھ منہ کا مزا بدلے، خیر صاحب یہ بھی سہی بلکہ اور جو کچھ انہوں نے فرمایا وہ بھی سہی۔ اب ایک دن فرماتے ہیں کہ آپ کے چٹرجی شو میکر سے مراسم ہیں ایک جوتا دلوادیجئے، قیمت جاکر بھیج دوں گا۔ ارادہ تو ہوا کہ دریافت کرلوں کہ حکیم صاحب نے جوتا بھی بتایا ہے مگر چپ ہورہا اور چوں کہ میں اس معاملے میں پڑنا نہیں چاہتا تھا لہٰذا خاموش ہورہا لیکن ان کو یہ پہلی شکایت تھی جو میری طرف سے پیدا ہوئی، اسی طرح کسی دن کپڑے کی فرمائش میں نے ٹالی، کسی دن سینما کی خواہش کو ردکیا، کسی دن ان سے صرف اتنا کہہ دیا کہ آپ میرے گھر پر اپنے داموں سے کوئی کھانے کی چیز نہ خریدا کریں، میں حاضر ہوں اور یہ خدمت مجھ ہی کو بجا لانے دیجے۔“ بس جناب پھر جو ہم گھر آکر دیکھںگے تو ہمارے مہمان کا ہم کو خط ملے گا کہ آپ کی مہمان نوازیوں کا شکریہ لیکن میں مہمان بن کروہ تذلیل برداشت نہیں کرسکتا جو آپ نے میری کی۔ مجھ کو سرائے میں ٹھہرنا بہ نسبت اس مہمان بننے کے زیادہ اچھا معلوم ہوتا ہے اور میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں۔“
اب بتائیے کہ اس خط کو پڑھ کر ہم میزبان بننے اور مہمان بنانے سے توبہ نہ کرلیں تو کیا کریں بلکہ ہماری تویہی رائے ہے کہ دنیا سے مہمانی اور میزبانی دونوں کو جلد اٹھ جانا چاہیے اور ہوٹلوں کو آباد ہونا چاہیے۔٭٭٭