تلنگانہسوشیل میڈیا

نظام آباد اور نرمل میں اکبر الدین اویسی کی نفرت انگیز تقاریر کا معاملہ

تلنگانہ اسٹیٹ ہائی کورٹ نے دس سال قبل نظام آباد اورنرمل میں مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی اکبرالدین اویسی کی نفرت انگیز تقاریر کے معاملہ میں حکومت تلنگانہ اور پولیس کونوٹیس جاری کی ہیں۔

حیدرآباد: تلنگانہ اسٹیٹ ہائی کورٹ نے دس سال قبل نظام آباد اورنرمل میں مجلس اتحاد المسلمین کے رکن اسمبلی اکبرالدین اویسی کی نفرت انگیز تقاریر کے معاملہ میں حکومت تلنگانہ اور پولیس کونوٹیس جاری کی ہیں۔

شہر کے ایک وکیل کرونا ساگرنے اکبرالدین اویسی کی اشتعال انگیز تقاریر کے متعلق نامپلی کریمنل کورٹس کی جانب سے صادرکردہ فیصلہ کوچالنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی تھی۔

آج ہائی کورٹ میں اس عرضی پرسماعت عمل میں آئی جس کے بعد عدالت نے حکومت اور پولیس کو نوٹیس جاری کرتے ہوئے مقدمہ پرمزید سماعت 30دسمبرتک ملتوی کردی۔واضح رہے کہ جاریہ سال اپریل میں تحت کی ایک عدالت نے اکبرالدین اویسی کواس معاملہ میں بری کردیا تھا۔

عوامی نمائندوں کی عدالت نے دس سال قبل درج دومقدمات پر فیصلہ سنایا تھا۔ عوامی نمائندوں کی عدالت نے دونوں مقدمات میں 30سے زیادہ گواہوں پرجرح کے بعدیہ فیصلہ صادر کیاتھا۔ عدالت نے واضح کیاتھا کہ شواہدکی مکمل جانچ کے بعد مقدمہ کوخارج کیاجارہاہے۔

عدالت کے معززجج جئے کمار نے رکن اسمبلی اکبرالدین اویسی کو وارننگ بھی دی تھی۔ ان پرواضح کردیاتھا کہ اس برا ء ت پر جشن نہ منائیں اور دوبارہ کبھی بھی اس طرح کی تقاریر نہ کریں۔ قانون سازی کے امورسے وابستہایک عوامی نمائندہ کوایسا عمل اور رویہ اختیارنہیں کرنا چاہئے جس سے ملک کی سالمیت کونقصان پہنچتا ہویا خطرے میں پڑسکتی ہے۔ واضح رہے کہ دسمبر 2012 میں اکبرالدین اویسی نے نظام آباد اورنرمل کے دوروں کے دوران تقاریرکی تھیں جن لئے جمہوریت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔

ان کی اس تقاریرسے سارے ملک میں ہنگامہ برپاہو گیا تھا۔ انہوں نے مبینہ طورپریہ کہاتھا کہ آپ لوگ سوکروڑہیں اورہم آبادی میں 25 کروڑ ہیں ہمیں 15 منٹ کا وقت دیں ہم دکھا دیں گے کہ کون زیادہ طاقتور ہے۔ اُس وقت این کرن کمارریڈی کی حکومت میں پولیس نے از خودکارروائی کرتے ہوئے اکبرالدین کے خلاف مقدمہ درج کیاتھا۔

اُس دوران اکبر الدین اویسی لندن چلئے گئے۔کچھ دن کے قیام کے بعد جب وہ حیدرآبادواپس آئے تو شمس آباد ائیرپورٹ پر انہیں گرفتار کرلیاگیا۔ اس معاملہ میں اکبرالدین اویسی تقریباً 40 دنوں تک جیل میں تھے بعدمیں انہیں ضمانت پررہا کیاگیا۔اس دوران یہ مقدمہ تقریباً 9 سال تک نامپلی میں عوامی نمائندوں کی عدالت میں زیر دوران رہااور طویل سماعت کے بعدمقدمہ کوخارج کردیاگیا

۔دوسری طرف اکبرالدین اویسی کی براء ت پرصدر بی جے پی تلنگانہ بنڈی سنجے کمار نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ہائی کورٹ میں اپیل کرنے کی خواہش کی تھی۔ انہوں نے کہاتھا کہ اکبراویسی کی نفرت انگیزتقریر کوساری دنیا میں سنااور دیکھا گیا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ عدالت نے انہیں بری کردیا۔ عدالت نے ثبوت مانگے لیکن حکومت نے مطلوبہ شواہد پیش نہیں کئے۔ انہوں نے اکبر الدین اویسی کوبری کئے جانے کوحکومت اورایم آئی ایم کی ملی بھگت قرار دیاتھا تاہم آج ہائی کورٹ نے اس سلسلہ میں ایڈوکیٹ کرونا ساگر کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے حکومت اور پولیس کونوٹیس جاری کی ہیں۔