ایم اے حفیظ کوڑنگلی
کسی قبرستان پر یہ لکھا نہیں ہوتا کہ یہاں صرف بوڑھوں کو ہی آنا ہے ،مگر طویل عمری اور ضعیفی انسان کو موت کے قریب تر ضرور کردیتی ہے۔ جب کار زیادہ مدت تک استعمال کی گئی ہو تو وہ ایک دن ناقابل استعما ل ہوجاتی ہے۔ ہمارا موجودہ موقف بھی داغ کے اس شعر کی طرح ہے
ہوش و حواس و تاب و تواں داغ جاچکے ٭ اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
ہم واقعتاً جی نہیں رہے ہیں بلکہ ایک مخصوص مقام پر رکھ دیے گئے ہیں جیسے کوئی کتاب یا پھولوں کا گلدستہ میز پر رکھا جاتا ہے۔ جسم کے اعضاءمیں زیادہ محنت کش و وفادار دل ہی ہوتا ہے۔ بے چارہ ہماری ازل سے ابد تک متواتر24X7 بے دھڑک دھڑکتا پھڑکتا رہتا ہے۔ کبھی کبھی غلطی آنکھ یا زبان سے ہوتی ہے، لیکن صدمہ بے چارے دل کو اٹھانا پڑتا ہے۔ کبھی کوئی مجبوبہ، کوئی قریبی دوست، بیگم یا داماد یا پڑوسی بھی اس کو بے دردی سے دکھاتے اور توڑتے ہیں۔
آج صبح سے ہی ہمارا دل ہم سے باغیانہ روش پر آمادہ تھا۔ بے دھڑک بے تحاشا میٹرو ریل کی رفتار سے دوڑ رہاتھا۔ بی پی ہمالیہ کی چوٹی سر کررہا تھا۔ نقاہت و بے چینی بھانپ کر بیگم دودھ لانے کچن گئیں۔اچانک خون میں مدو جزر سنامی میں بدل گیا اور سانس کی ڈور منقطع ہوگئی۔ ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے ہم اپنے وجود سے نکل کر ہوا میں تیرتے ہوئے کمرے کی چھت سے لگ گئے ہوں۔ کمرے کا پورا حال دیکھ اور سن رہے تھے، لیکن نہ نظر آسکتے تھے نہ بات کرسکتے تھے۔ بیگم دودھ لے کر آئیں اور زور زور سے ہلاکر جگانے کی کوشش کرنے لگیں، جب ناکام ہوئیں تو پیالہ پھینک کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں۔ آواز سن کر گھر کے دوسرے افراد بھی ہمارے اطراف جمع ہوگئے۔ ہماری بہو نے ہماری نبض اور بی پی کا تجزیہ کرکے سرکاری طور پر یہاں سے ہمارے کوچ کرجانے کا اعلان کردیا۔ میرا لڑکا جو آفس جانے کی تیاری کررہا تھا، دیوار سے سر لگائے سسکنے لگا۔ دونوں صاحبزیاں آئیں اور فرط غم سے بے ہوش ہوگئیں۔ لوگ ان کو ہوش میں لانے جٹ گئے۔ لمحوں میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی ۔ آج مصرف ترین دنیا کے لیے اس طرح غیر متوقع واقعات بہت پریشان کن اور تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ بعض لوگوں کا اصرار ہے کہ مرنے والے کو لوگوں کی سہولت، فرصت اور اپنے وزن کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ کچھ دل سے کچھ زبان سے کچھ آنکھوں سے رورہے تھے۔
بعض ہماری تعریف و توصیف کے پل باندھنے لگے جبکہ وہ خوبیاں ہم میں سرے سے تھی ہی نہیں۔ شاید ان کی مجبوری ہو یا اخلاقاً، مروتاً اور تعظیماً کررہے ہوں۔ کاش یہ تعریف و توصیف ایک دن پہلے شیئر کیے ہوتے تو کچھ اور بات ہوگی ۔ ایک محترم جن سے ہم بالکل واقف ہی نہیں تھے، شدید رنج و غم سے اس قدر نڈھال تھے کہ ان کو کچھ لوگ سنبھال رہے تھے۔ ہمیں شک ہوا کہیں ہم ان کے مقروض تو نہیں تھے۔ کمرے میں ہڑبونگ مچا ہوا تھا۔ کچھ لوگ اپنی سکت سے زیادہ گریہ وزاری کی سعی کررہے تھے۔ اتنے میں قریب کی مسجد کے خطیب قرآن و سنت کے حوالے دے کر لوگوں کو خاموش رہنے کی ترغیب دینے لگے او رکامیاب بھی رہے۔ شاید لوگ کسی جائز بہانے کے متلاشی تھے۔ کمرے میں سناٹا چھاگیا۔ چائے کا دور بھی چلنے لگا۔ ہمیں خطیب پر شدید غصہ آرہا تھا۔ لوگوں کو مرحوم سے دلی وابستگی، لگاﺅ ،انسیت کے اظہار کا موقع دیا جاناچاہیے۔ وہ موت ہی کیا جس کی وجہ سے کسی کی آنکھ سے کا جل نہ نکلے۔ کسی کی گریہ وزاری سے گھر کے در و دیوار میں ارتعاش نہ پیدا ہو۔ کوئی دیواروں سے سر ٹکراکر زخمی نہ ہوجائے، کوئی کپڑے پھاڑ کر بال بکھرا کر سڑک پر نہ نکل آئے۔ اگر اس طرح قدر و منزلت مرنے کے بعد بھی نہ ملے تو مر کر کیا فائدہ؟ خوشی منانے کے کئی مواقع ہیں۔ مرحوم کے لیے دیدار کے آخری چند گھنٹے اہم ہوتے ہیں۔
عورتیں ہماری موت سے زیادہ ہماری بیگم کے مستقبل کے تعلق سے بہت متفکر نظر آئیں۔ ایک خاتون نے کہا کہ بہن! تم نے ہوشیاری کی۔ سرکاری ملازم سے نکاح کیا تھا ،اب پنشن ملے گا او رایک شخص کے کھانے پینے کا خرچ بھی بچ گیا ہے۔ مکان ذاتی ہے، کسی ایک کمرے میں پڑی پڑی سکون سے عمر گزر جائے گی۔ اپنے لڑکوں پر بھروسہ مت کرو۔
ایک پڑوسن نے مشورہ دیا کہ اگر مہر انہوں نے نہیں دیا ہے تو معاف کردو بے چارے کو۔ زندگی بھر لڑکیوں کی شادیوں کے اخراجات میں الجھا رہا۔ ہماری بیگم نے فوراً بڑی فراخدلی و دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھلے عام مہر کی معافی کا اعلان کردیا۔
کچھ احباب محفل میں ہمارا ذکر خیر کرنے لگے ۔ پڑوسی نے کہا کہ بیگم سے نااتفاقی کی وجہ سے وہ رات کے اندھیرے میں گھر کے صحن میں آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے بڑی رقت انگیز موت کی دعا مانگا کرتے تھے اور مجھے اس کی قبولیت پر کوئی شک و شبہ نہیں تھا۔ دوسرے صاحب نے اس کی تصدیق کی اور تشریح کی۔ ایک بار جب میں نے ان کی ازدواجی زندگی کے بارے میں دریافت کیا تھا تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ یار ہم دونوں بہت خوش ہیں۔ جب میں آفس سے گھر جاتا ہوں تو وہ غصہ میں کچھ سامان میری طرف پھینکتی ہے اگر نشانہ لگ گیا تو وہ خوش ہوجاتی اور چوک گیا تو میں خوش ہوجاتا ہوں۔
لوگ ثواب کی خاطر میت کو کاندھا دینے اس قدر منڈلاتے اور پھڑپھڑاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے ان کا آخری جنازہ ہو ۔ بہرحال لواحقین کی صحت، عدم فرصتی و مصروفیت کے مدنظر ہمیں اسی شام ٹھکانے لگادیا گیا۔قبر میں ابتدائی امتحان (سوال جواب سیشن) شروع ہونے کو تھا۔ گوکہ وہ سوالات کا پرچہ بہت پہلے زندگی ہی میں لیک ہوچکا تھا، لیکن اس خوف سے کہ نہ جانے روز حشر ہمارا حشر کیا ہوگا کفن پسینہ میں شرابور ہوگیا۔
او ہم نیند سے بیدار ہوگئے….