سیاستمضامین

میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لوں گا

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی پی ایچ ڈی

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ؐ نے فرمایا فسادِ اُمت کے زمانے میں میری سنت پر عمل کرنے والے کو ایک شہید کا ثواب حاصل ہوگا۔ (طبرانی) اس عظیم فرمان سے یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ امت محمدی میں ضرور اختلافات ہوں گے لیکن ایسے موقع پر بھی اگر کوئی شخص حضور اکرم ؐ کے حکم پر چلتا ہے تو گویا وہ شہادت کا رتبہ حاصل کرتا ہے یعنی حق پر رہنا‘ حق کی بات کہنا جہاد جیسا ہی مرحلہ ہوگا۔ آج اگر ہم اپنے اِرد گرد دیکھتے ہیں تو ہر طرف اختلافات کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ ہر شخص اپنے آپ کو قابل سمجھنے لگا ہے اور یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہی حق پر چل رہا ہے۔ ہمارے مسالک مختلف ہوسکتے ہیں ، ہماری سوچ میں فرق ہوسکتا ہے ، ہماری عبادتوں کے انداز الگ ہوسکتے ہیں لیکن کیا کسی کو توحید، نماز، روزہ ، زکوٰۃ اور حج پر اختلاف ہوسکتا ہے ؟ کیا کوئی مسلمان ان بنیادی باتوں سے رد گردانی کرنے کا تصور بھی کرسکتا ہے ۔ اگر نہیں کرسکتا ہے تو پھر کیوں ہم مختلف خانوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ عقیدے اور مسالک کے نام پر ہر شہر اور ہر قصبہ میں تصادم کیوں نظر آرہا ہے۔ درگاہوں پر حاضری کو برا کیوں سمجھا جارہا ہے۔ مسجدوں میں فرض نماز کے بعد دعائیں کیوں نہیں کی جارہی ہیں؟ شادیوں میں فرسودہ رسومات کی بہتات کیوں ہے؟ شرم، حیاء اور بے پردگی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ ہماری مائیں ، بہنیں غیر مردوں کے ساتھ بیٹھ کر شادی اور بیاہ کی رسومات کے دوران آرکسٹرا کی دُھن پر ناچ گانوں سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔ آرکسٹرا کے فنکاروں کو کسی کونے کے کمرے میں شراب بھی مہیا کی جارہی ہے۔ اگر ایسا ہی سلسلہ جاری رہے گا تو ہمارے اور مغرب کے سماج میں کیا فرق رہے گا اور ہم آہستہ آہستہ صرف نام کے مسلمان بن کر رہ جائیں گے۔ درگاہوں میں حاضری دی جاسکتی ہے لیکن حاضری کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا ہوگا۔ ہمارے لوگ درگاہوں میں جاکر صاحب مزار کے سامنے لکھت میں درخواستیں پیش کرتے ہیںاور ناڑے باندھتے ہیں ،یہ عمل ناقابل فہم ہے۔ درگاہ کے منتظمین اور سجادگان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ وہ صاحبِ مزار سے عقیدت رکھنے والوں کو یہ سمجھائیں کہ وہ ایسا کوئی بھی عمل نہ کریں جس سے خود ان بزرگانِ دین کے بتائے ہوئے راستوں کی منافی ہوتی ہو۔ کچھ مسجدوں میں جمعہ کی نماز کے بعد لوگ بڑے احترام کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی شان مبارک میں سلام پڑھتے ہیں تو دوسرے مسلک کے لوگوں کو اس پر اعتراض ہوجاتا ہے۔ حالانکہ اللہ جل جلالہ خود فرماتے ہیں کہ بے شک اللہ اور ان کے فرشتے حضور اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والوں تم بھی حضور اکرم ﷺ پر درود و سلام بھیجو ۔ کچھ مسجدوں میں فرض نماز کی ادائیگی کے بعد اجتماعی دعا نہیں کی جاتی جو ٹھیک نہیں لگتا ۔ اگر ہم ہماری نمازوں میں اور بنیادی باتوں پر عمل کے ذریعہ یکسانیت کا مظاہرہ کریں تو ہمیں ایک دوسرے کے قریب آنے میں بڑی مدد ملے گی ۔ آج کل کچھ گھروں میں آیت کریمہ کی مجلس کا انعقاد عمل میں لایا جارہا ہے ، بے شک اس طرح کی مجالس سے بندہ‘ اللہ کے قریب ہوتا ہے اور پتہ نہیں کہ اللہ کس وقت کس کی کونسی دعا قبول کرلیتا ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس طرح کی مجلسوں کے انعقاد کے لئے ایک مقررہ رقم دے کر آیت کریمہ کا ورد کرنے والے ایک گروپ کو بلایا جاتا ہے جو گھر پر آکر سوا لاکھ مرتبہ اس آیت کے ورد کا دعویٰ کرتے ہوئے رقم بٹور کر چلا جاتا ہے ۔ اس عمل میں اور ایمان نہ رکھنے والوں کے عمل میں بتایئے تو بھلا کیا فرق رہ جائے گا؟ اس طرح کی مجلس کا اہتمام آپ کو خود کرنا ہوگا ۔ یہ عمل گھر والوں تک ہی محدود ہونا چاہئے یا پھر اس مجلس میں آپ اپنے قریبی رشتہ داروں اور رفیقوں کو شامل کرسکتے ہیں۔ کسی بھی عقیدت مند پر بیجا تنقید کرتے وقت ہر صاحب ضمیر کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ لیکن یہ بات بڑے افسوس کے ساتھ لکھنی پڑ رہی ہے کہ کچھ مفادات حاصلہ کئی جگہوں پر غوث پاک کا چھلہ یا خواجہ کا چھلہ تعمیر کررہے ہیں۔ ہم اس تفصیل میں نہیں پڑیں گے کہ کہاں کہاں کن کن جگہوں پر ایسی تعمیرات ہوئی ہیں اور کیوں ہوئی ہیں؟ مادہ پرستی کا یہ عالم ہے کہ ہم ذاتی فائدے کی خاطر مذہبی علامات کا بھی غلط استعمال کررہے ہیں۔ کئی مساجد کی کمیٹیوں پر یہ الزام ہے کہ وہ اپنے فنڈس کا ناجائز تصرف کررہے ہیں۔ ہمارے آئمہ اور موذنوں کو وہ مشاہرہ نہیں مل پارہا ہے جس کی ان کو ضرورت ہے اور جس کے وہ مستحق ہیں۔ مسجد کی کمیٹیوں کے کچھ صدور تو امام صاحب اور موذن صاحب کو اپنے گھر کا منشی سمجھتے ہیں۔ جس قوم میں اماموں کی عزت نہ ہو وہ قوم اللہ کے عتاب سے کیسے بچ پائے گی؟ ہر ہفتہ یا دوسرے ہفتہ میں ایک خبر ہندوستان کے ہر اردو اخبار کی زینت بنتی ہے کہ ’’اگر اوقافی جائیدادوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو مسلمانوں کو کسی پر بھی تکیہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی‘‘ تو پھر اس سمت میں کیا پیشرفت ہورہی ہے؟ کاغذ پر تو بڑے بڑے ریکارڈس موجود ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اراضیات پر ناجائز قابضین کا راج ہے۔ شہر میں اوقافی زمین پر تعمیر کی گئی ملگیات منشائے وقف کے خلاف غیرمسلموں کو الاٹ کردی گئیں ہیں۔ منشائے وقف کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ایک جائیداد کو کسی خاص مقصد کے لئے وقف کردیا جاتا ہے تو واقف بھی اس میں ترمیم نہیں کرسکتا تو پھر کن بنیادوں پر اس طرح کا قدم اٹھایا گیا ہے؟ وہ کون ہیں؟ جنہوں نے ایسا کیا ہے؟ کتنے ظالم ہیں یہ لوگ کہ انہیں نہ تو زمین کے قانون کا ڈر ہے اور نہ ہی قہر الٰہی کا خوف۔ اس دوران تلنگانہ وقف بورڈ کے صدرنشین کی حیثیت سے ایک نوجوان حرکیاتی قائد سید عظمت اللہ حسینی کا انتخاب انتہائی خوش آئند امر ہے۔ عملی زندگی میں عظمت اللہ کا یہ پہلا قدم ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے معاملے میں انتہائی ثابت قدم رہیں گے اور ان کی قیادت میں اوقافی جائیدادوں کو ایک نئی طاقت ملے گی اور منشائے وقف کا تحفظ بھی ہوگا۔ ملت کو یقین کرنا چاہئے کہ اس نوجوان کی خدمت رنگ لائے گی کیونکہ وہ اس نظریہ پر عمل کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے کہ
میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لوں گا
مجھے مقام نہ دو میں مقام لے لوں گا