طنز و مزاحمضامین

نفسیات گدھے کی!

ابو متین

کہا جاتا ہے کہ حضرت انسان جو اس وقت بڑی آن بان اور شان رکھتے ہیں اور اکڑ دکھاتے اینٹھتے پھرتے ہیں، اپنے ابتدائی زمانے میں چرند اور پرند سے بھی گئے گزرے تھے۔ کئی ایک موقعوں پر ان چرنے ‘ چگنے والوں کی رہنمائی میں گزر بسر کرنا پڑا تھا۔ اپنے مُردوں کو ٹھکانے لگانے کی سیکھ ایک کوّے سے ہی ملی۔ اس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے۔ زمین کھودکر دفن کرنے کی تدفین بتا کر وہ پھُر سے اُڑ گیا۔ اس کمزروی کو چھپانے کوّے کے سیانہ پن کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور خوب کہانیاں گھڑی گئیں۔ البتہ کوّے کی یہ ہوشیاری اب تک بھی انسان کے کان کاٹنے والی سمجھی جاتی ہے۔ کوّا اپنے انڈے کوئل کے گھونسلے میں چھوڑکر اُسے کام پر لگا دیتا ہے اور خود چھیل چھبیلا بن کر لنڈورا بنا پھرتا رہتا ہے۔ لیکن خدانے کوّے کی کائیں کائیں سمع خراشی کرنے والی اور کوئل کی آواز کو کانوں میں رس گھولنے والی رکھ کر بدلا چکا دیا ہے۔ دوسری طرف کوّے اور کوئل کے سیاہ فام ہونے کی مشابہت میں بھی ایک درس عبرت ہے۔ کوئل میں جو کشش اور حُسن رکھا ہے وہ سفید بگلے کو بھی میسر نہیں۔ مشرقی لوگوں کے سانولے اور گیہوں رنگ میں جو جاذبیت اور دلکشی پائی جاتی ہے، مغرب کے بگلے جیسے گورے پن میں اس کا پاسنگ بھی میسر نہیں، البتہ بگلا بھگتی کا چَھل اور فریب گوروں کی گھُٹی میں پڑے ہوتے ہیں۔ اُتھلے پانی میں ایک ٹانگ اٹھائے آنکھ موند کر کھڑے ہونے کی بھکتی coloured لوگوں کا طریقہ نہیں وہ جو بھی کرتے ہیں ڈنکے کی چوٹ پر کرتے ہیں لیکن موجودہ دنیا میں بگلا بھگت گوروں کی طوطی اس زور و شور سے بج رہی ہے کہ نقار خانے کا گمان ہوتا ہے اور مشرقی لوگوں کی طوطی اس میں دب کر رہ گئی ہے۔ ہر طرف ان کی بے سمت اور بے ہنگم تہذیب کا چرچا ہورہا ہے۔ فحش اور عریانی اِن ہی بد قماش لوگوں کی خرابی ہے۔ جو چار درنگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے۔ عورت کو آزادی اور مساوات کا فریب دے کر اس کی یہ درگت بنادی گئی۔
بات چلی تھی کوّے کوئل اور بگلے کی،یہ پرندے ٹھہرے۔ چرند یعنی چرنے والوں کے لیے گدھے سے اچھی مثال ملنا ممکن نہیں ہے۔ گدھے کو ادیب اور قلمکار فلسفی گردانتے ہیں، کیوں کہ ہمہ وقت سوچوں کی دنیا میں غرق رہتا ہے۔ لگتا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو آفاق و النفس پر غور و فکر کرنے کی جو ہدایت دی ہے، اس پر عمل کرکے مثال پیش کرنے کی سعادت اِس کو نصیب ہوئی ہے۔ رہ جاتا ہے انسان تو اس کو ان گمبھیر مسائل پر سوچ بچار کرنے کی فرصت کہاں؟ وہ تو اپنی زندگی کے معاملات میں دو اور دو پانچ کس طرح ہوتے ہیں، کی فکر میں غلطاں اور پیچاں رہتا ہے اور لوگ سادگی اور قناعت کو چھونے کے روادار بھی نہیں ہوتے۔ زندگی کے روحانی اور مادی ہر مسئلے میں اپنے سماج کے شم و آبرو پر نظر رکھ کر جیتے اور مرتے ہیں۔ حق و انصاف کی بے لاگ سوچ بچار گدھے کے لیے چھوڑچکے ہیں۔ اپنے طور پر راست غور وفکر کرکے خدا کے راستے پر چلنا اب انسان کے بس میں نہیں رہا ہے۔ حالاںکہ ہر شخص جانتا ہے کہ مرکر اکیلا اکیلا ہی خدا کے حضور پیشی دینی ہوتی ہے۔ جواب دہی کرنی ہے۔ وہاں ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی پیروی کا سکہ نہیں چلتا۔ خالق و مالک کی مرضی تلاش کرکے زندگی بسر کرنا لازم ہے۔ بے چارہ گدھا اپنے مالک کی دی ہوئی فطرت کا پابند رہ کر گھر کا ہی رہتا ہے ۔ اس اطاعت شعار مخلوق کو لوگ بے وقوف خیال کرکے بدنام کرتے رہتے ہیں۔ جیسے گدھے کا کھایا پاپ میں نہ پُن میں۔ مقولہ بنالیا گیا ہے۔ ضرورت پر گدھے کو باپ بنانا پڑتا ہے۔ یہ بھی انسانی موقع پرستی کی مثال ہے، لیکن گدھے کو غلط استعمال کیا گیا ہے۔ گدھے کے سر سے سینگ غائب کی طرح گھر سے غائب ہوگیا ہے۔ سینگ خدا نے نہ دیا تو اس میں اُس کا کیاقصور؟ اُردو لغت کے بر خلاف انگریزی میں تھوڑی رعایت رکھی گئی ہے۔ ڈنکی ورک سے مُراد خشک سخت اور ڈنکی جاکٹ کے معنیٰ فیشن کی چھوٹی جاکٹ لیے جاتے ہیں۔ Ass کے گدھے کو وہی نسل پرستی کے زہر میں ملوث کرکے ایشیائی اور افریقہ کے دو علحدہ علحدہ گدھوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ حد یہ کہ کسی آدمی کو غبّی اور بے وقوف بتانا ہوتو گدھے کا استعمال کرکے بھڑاس نکال لی جاتی ہے، یہ بھی زیادتی ہے۔ ایک پروفیسر صاحب گدھے کے لفظ کو بحیثیت تکیہ کلام کہنے کے عادی تھے۔ ہر وہ شخص جو اُن کی ناراضگی کا سبب بنتا اُس کو نفرت سے ”گدھا“ کہہ کر رہ جاتے۔ لوگ خیال کرتے کہ پروفیسر اعلیٰ تعلیم یافتہ ٹھہرے، اس لیے ان کو ہر کسی کو گدھا کہنے کا حق حاصل ہے۔ایک روز ان کی کار کے سامنے گدھا آکر ٹھہرگیا۔ یہ اُس کو سامنے دیکھ کر سٹپٹا کر رہ گئے۔ گدھا تو کہہ نہیں سکتے تھے اُنھوں نے یوں کہا ”آپ کو کیا کہوں بس آپ تو آپ ہیں“ کوئی سنے یا نہ سنے لیکن وہ ضرور مسکرا کررہ گئے۔
”گدھا برسات میں بھوکا مرے“ یہ نظاہر سیدھا سادہ مقولہ معلوم ہوتا ہے، لیکن گدھے کی نفسیات دانی کا بین ثبوت ہے۔ برسات میں گُل گلزار اور ہرا بھرا موسم ہوتا ہے، لیکن وہ سر جھکا کر چرتے ہوئے دور نکل جاتا ہے اور جب وہ پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو ساری گھاس جوں کی توں نظر آتی ہے، وہ سوچتا ہے کہ اس نے کچھ بھی نہیں کھایا ہے، اس لیے وہ خوب کھا کہ بھی خیالی دنیا میں بھوکا ہی رہتا ہے۔ اس کی وجہ سے وہ برسات میں دبلا رہ جاتا ہے، لیکن سوکھے کے خزاں والے پت چھڑ میں خالی خالی گھانس کھاتے ہوئے پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ سارا میدان چرتے ہوئے صفاچٹ کرچکا ہے اور اس خیال کی وجہ سے خزاں میں موٹا تازہ اور فربہ ہوجاتا ہے۔ یعنی وہ عملی دنیا سے زیادہ خیالی دنیا میں رہتا ہے، اس لیے گدھا نہ صرف فلسفی بلکہ ماہر نفسیات بھی ہے۔
٭٭٭

a3w
a3w