محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ یقینی طور پر گورنمنٹ آرڈر84 کالعدم قراردیاجائے گا۔
٭ درخواستیں پیش کرنے کے سلسلہ کو روک دینا چاہیے۔
٭ حکومت کا مقصد مفاداتِ حاصلہ کو فائدہ پہنچاناتھا۔
٭ ہزاروں کروڑ روپیہ کی ریاستی آمدنی نہیں ہوگی۔
٭ نوٹری جائیدادوں سے قابضین کو بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔
قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ گورنمنٹ آرڈر84 کی خامیوں کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی تھی اور ساتھ ہی یہ رائے بھی دی گئی تھی کہ قابضینِ نوٹری جائیداد‘ قبضہ کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں پیش نہ کریں۔ ہمارا قیاس صد فیصد درست ثابت ہوا ‘ جب اس گورنمنٹ آرڈر کو ہائیکورٹ میں چیالنج کیا گیا اور ہائیکورٹ نے اس آرڈر پر سخت اعتراضات کئے اور اپنی برہمی کا اظہار کیا اور گورنمنٹ سے اس کی جواب طلبی کی۔ اب حکومت اندرونِ مدت ایک ماہ اپنا جوابی حلف نامہ داخل کرنے کی پابند ہے۔ ہائیکورٹ کے مطابق اس گورنمنٹ آرڈر کی کوئی قانونی اساس نہیں ہے اور یہ رجسٹریشن ایکٹ کی صریح خلاف ورزی میں جاری کیا گیاہے۔
گورنمنٹ آرڈر کے مطابق 125 مربع گز کی حد تک مفت باقاعدگی کی جاسکتی تھی بشرطیکہ رہائشی ثبوت‘ آدھار کارڈ ‘ الکٹرک اور پانی کا بل اور ٹیکس ادائیگی کے دستاویزی ثبوت موجود ہوں۔ لیکن 125 مربع گز سے زیادہ اور3000 مربع گز سے کم رقبہ کی نوٹری جائیدادوں کی رجسٹری حکومت کی جانب سے رجسٹریشن کی غرض سے مقرر کی گئی قیمت کی وصولی کے بعد کی جانے والی تھی۔ درخواست پیش کرنے کی فیس ایک ہزار پچاس روپے مقرر تھی اور شائد ہزاروں افراد نے ایسی درخواستیں آن لائن پیش بھی کردی ہیں۔ یہ تمام معاملات کو ختم سمجھا جائے۔
یہ قیاس غالب ہے کہ یہ پالیسی بڑے بڑے لینڈ گرابرس کو فائدہ پہنچانے کے لئے بنائی گئی جو کسی نہ کسی طرح سے مرکزی مقامات یا شہر کے اطراف اراضیات پر کئی نوٹری دستاویز کی اساس پر قابض تھے۔ ان قیمتی اراضیات پر ان کے قبضہ کو باقاعدہ بناکر انہیں ناجائز اور غیر قانونی طریقہ سے مزید دولت مند بنانا تھا۔ ہزاروں مربع گز اراضیات اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل شدہ اراضیات ‘ گورنمنٹ اراضیات اور لاونی پٹہ اراضیات پر قابضین سے ساز باز کے بعد یہ گورنمنٹ آرڈر جاری ہوا ہوگا۔ ریوینیو عہدیدار جو رشوت خوری اور بد عنوانیوں میں اپنی مثال آپ ہیں‘ اس گورنمنٹ آرڈر سے بہت فائدہ اٹھانے والے تھے۔ خیر جو بھی ہوا‘ اچھا ہی ہوا۔
گورنمنٹ کی ایسی کئی پالیسیاں ناکام ہوچکی ہیں وہ چاہے مقبوضہ اراضیات کو باقاعدہ بنانے کے لئے ہوں یا غیر مجاز تعمیرات کو باقاعدہ بنانے کے لئے ہوں‘ سب کی سب ناکام ہوچکی ہیں اور کسی کو بھی فائدہ نہیں ہوا۔ غیر مجاز تعمیرات کو باقاعدہ بنانے کی درخواستیں معرض التواء میں پڑی ہوئی ہیں کیوں کہ ان میں بھی ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ نے مداخلت کی ہے۔
لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہ لینا چاہیے کہ نوٹری اساس پر خریدی ہوئی جائیدادوں اور ان پر قبضہ جات کو کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق ہے۔ بشرطیکہ ایسی اراضیات گورنمنٹ اراضیات کا حصہ نہ ہوں۔ اگر اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضیات پر قبضہ کی نوٹری دستاویز کی اساس پر ہو اور ان پر قبضہ2008ء سے قبل کسی تاریخ کا ہو تو بھی کسی فکر و تردد کی ضرورت نہیں کیوں کہ متذکرہ قانون ختم ہوچکا ہے اور جو بھی قابض ہے وہی مالک تصور کیا جائے گا اور اس کا حقِ مالکانہ مسلمہ ہوگا۔
حکومت نوٹری دستاویزات کی اساس پر خریدی ہوئی جائیدادوں کے مالکین اور قابضین کو کسی بھی طرح سے ہراساں نہیں کرسکتی اور نہ ہی بے دخلی کی نوٹس جاری کرسکتی۔ اگر رجسٹر شدہ دستاویزات نہ بھی ہوں تو کوئی حرج نہیں کیوں کہ دفعہ53-A ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کی روشنی میں اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص سے کسی جائیداد کی فروخت کا معاہدہ کیا اور پھر ساری رقم ادا کردی اور قبضہ بھی دے دیا تو کوئی بھی شخص بشمول حکومت قابض کو بے دخل نہیں کرسکتا۔ لبِ لباب یہ کہ قیمت ادا کرکے خریدی ہوئی غیر منقولہ جائیداد اور حصولِ قبضہ کے بعد قبضہ قانونی ہوگا اور کسی کو بھی اختیار حاصل نہیں ہوگا کہ وہ قابض کو بے دخل کرے۔
اس قسم کی جائیدادوں کی اساس کو مزید تقویت دینے کیلئے یہ بات ضروری ہے کہ اس دستاویز کو ایک قانونی شکل دی جائے اور یہ بات اسی وقت ممکن ہے کہ ایسی جائیداد کو بذریعہ ہبہ دستاویز اپنے ورثاء میں تقسیم کردیا جائے ‘ لہٰذا ایک مزید دستاویز ایسی جائیدادوں کی ملکیت کو مزید تقویت بخشے گی۔
قبل ازیں ایسا معلوم ہوتا تھا کہ نوٹری جائیدادوں کو رجسٹری کے رنگ میں لانے کے لئے کسی عزیز کے حق میں گفٹ رجسٹری کی جاتی تھی اور بعد میں رجسٹری کے ذریعہ ایسی جائیداد کی فروخت ہوتی تھی۔ لیکن حالیہ دنوں میں حکومت نے ایسی جائیدادوں کو ممنوعہ لسٹ میں لالیا ہے اور رجسٹری پر پابندی لاگو کردی گئی ہے اسے حرفِ عام میں(Prohibited Property) کہتے ہیں۔ اب تو حال یہ ہے کہ غیر مجاز تعمیرات یا منظورہ پلان کی خلاف ورزی میں تعمیر اپارٹمنٹس یا جائیدادوں کی بھی رجسٹری نہیں ہورہی ہے۔
زرعی سیلنگ میں فاضل اراضی کی خرید سے گریز کی رائے۔ رجسٹری ممنوع ہوگئی ہے
حکومت کی جانب سے زرعی سیلنگ قانون میں فاضل قرارشدہ اراضیات کی فروخت پر بھی پابندی لگادی گئی ہے ۔ آج کل زرعی اراضیات خریدنے ‘ ایسی اراضیات کی فارم ہاؤز میں تبدیلی زور پر ہے۔ اس قانونی حقیقت سے غیر واقف حضرات صرف سابقہ ریوینیو ریکارڈ ۔ پٹہ پاس بک اور دھرنی پورٹل کی بنیاد پر بھاری قیمت ادا کرکے اراضیات خریدتے ہیں اور قبضہ بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایسی فاضل اراضیات کو بھی ممنوعہ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے اور تحصیلدار اور رجسٹرار کے دفتر میں ایسی اراضی کی رجسٹری نہیں ہوسکتی۔ ایک ایسی بھی مثال سامنے آئی کہ ایک صاحب نے پٹہ پاس بک اور دھرنی پورٹل میں نام اور قبضہ کی اساس پر بھاری رقم (کروڑوںمیں) کے عوض معاہدہ کیا۔ جب رجسٹری کے لئے گئے تو حقیقت سامنے آئی کہ یہ اراضی فاضل اراضی کے زمرے میں تھی اوررجسٹرار نے رجسٹری سے انکار کردیا۔ حالت یہ ہے کہ دھرنی پورٹل میں اندراج کے بعد اب یہ بات ناممکن ہوگئی ہے کہ رجسٹری ہو۔
سادہ بیعنامہ کی اساس پر وسیع اراضیات کو
دھرنی پورٹل میں شامل کیا گیا
یاد ہوگا کہ ایک دو سال قبل حکومت نے اعلان کیا تھا کہ سادہ بیع نامہ کی اساس پر دھرنی پورٹل میں اراضی کو داخل کرکے پٹہ سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔ اس پالیسی نے حقیقی پٹہ داروں کی ہزاروں ایکر اراضی کو محض سادہ بیع نامہ کی اساس پر پٹہ کی تبدیلی کردی اور حقیقی پٹہ دار کو اس بات کا علم تک نہ ہوسکا ۔ وہ بے چارہ اس غلط فہمی میں رہا کہ میں ہی پٹہ دار ہوں۔
سادہ بیع نامہ جات بے حد پرانے کاغذات پر پٹہ دار کی جعلی دستخط کرکے تیار کئے گئے اور پرانے سادہ کاغذات کا حصول کوئی بڑی بات نہیں۔ پرانے سادہ کاغذات پرانی فائل سے بہ آسانی نکال لئے جاسکتے ہیں اور ان پر اردو زبان میں بیع نامہ لکھ دینا کوئی مشکل کام نہیں۔ سادہ بیع نامہ کی اساس پر پٹہ جاری کرنے سے پہلے پٹہ دار کو نوٹس ضروری ہوتی ہے اور یہ کارروائی بھی چوری چھپہ کردی جاتی ہے۔ سادہ بیع نامہ دراصل ایک دھوکہ ہے جس کی سرپرستی حکومت نے کی ہے۔ سادہ بیع نامہ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ جائیداد کی منتقلی صرف رجسٹر شدہ بیع نامہ کی ہی اساس پر ہوتی ہے۔ ہمیں افسوس ہے کہ سادہ بیع نامہ کے ’’ فلسفہ‘‘ کو کسی نے بھی ہائیکورٹ میں چیالنج نہیں کیا۔
اگر آج بھی ایسے پٹہ دار موجود ہیں جن کی اراضیات سادہ بیع نامہ پر اور ان کے علم و اطلاع کے بغیر کسی غیر شخص کے نام ریوینیو ریکارڈ میں تبدیلی کی گئی ہے ‘ تو وہ قانونی کارروائی کرکے پٹہ دار پاس بک اور دھرنی پورٹل وک منسوخ کرواسکتے ہیں
ریوینیو عدالتیں یا دھاندلیوں کا بازار؟
ریاستِ تلنگانہ کی ریوینیو عدالتوں(ریوینیو ڈیویژنل آفیسر اور جوائنٹ کلکٹر) کے دفاتر یا عدالتوں میں دھاندلیوں کا بازار لگا ہوا ہے۔ اراضیات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور ان میں دولت کی بہتات نے عہدیداروں کو کروڑ پتی یا ارب پتی بنادیا ہے اور وہ دھاندلیوں میں کسی ایک فریق کے حصہ دار بن گئے ہیں ۔ ایک فریق کی جانب سے تحریر شدہ فیصلہ پر دستخط اور مہر کی کئی مثالیں سامنے آئیں۔ عدالت کی کارروائی کچھ ہوتی ہے اور فیصلہ کچھ اور صادر ہوتا ہے اور بجلی کی سرعت کے ساتھ پٹہ پاس بک جاری کردی جاتی ہے۔ دھاندلیاں۔ ناانصافیاں روز کا معمول ہیں۔ ایسی دھاندلیوں میں ملوث ایک لیڈی تحصیل دار کا قتل ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا۔ ایسی بات نہیں ہے کہ حکومت ان بدعنوانیوں سے واقف نہیں ہے۔ حالت تو یہاں تک آپہنچی ہے کہ شہر کے اطراف کے ریوینیو ڈیویژن اور تحصیلوں پر تبادلوں کی قیمت کروڑوں روپیہ ہے۔ صرف تبادلوں پر صرف کی گئی کروڑ روپیوں کی رقم کا حصول کچھ مشکل نہیں۔ کسی ایک فریق کی مرضی کے مطابق صادر کردہ ایک فیصلہ اور پٹہ دار پاس بک اور دھرنی پاس بک کی اجرائی اس بھاری رقم کی وصولی کے لئے کافی ہوگی۔ ایسے بدعنوان عہدیداروں کی حکومت کی جانب سے سرپرستی ہوتی ہے یہاں تک کہ اس کے خلاف اینٹی کرپشن کارروائی ہوتی ہے‘ اس کی گرفتاری ہوتی ہے ‘ اسے جیل بھیجا جاتا ہے اور پھر ضمانت پر رہائی کے بعد اس کو اسی مقام پر مامور کیا جاتا ہے جہاں اسے گرفتار کیا گیاتھا۔ اس کے خلاف تادیبی کارروائی تک نہیں ہوتی حالانکہ ضابطہ ملازمت کے مطابق اگر کوئی ملازم سرکار ایک دن کے لئے بھی کسی جرم میں ملوث ہوکر جیل جائے تو اسے ملازمت سے معطل کردیاجاتا ہے لیکن معطل کرنا تو درکنار اس بدعنوان عہدیدار کو اسی تحصیل یعنی شیخ پیٹ منڈل پر ہی رہنے دیا جاتا ہے کیوں کہ اس کے ذریعہ سیاست دانوں اور اعلیٰ عہدیداروں کو فائدہ تو پہنچتا ہے۔ اس بدعنوان عہدیدار کے خلاف کوئی کارروائی اب تک نہ ہوسکی اور آج بھی ہو عیش کررہا ہے۔
اوپر بیان کی گی حقیقت کا اندازہ آپ اس جرح سے کرسکتے ہیں جو کہ راقم الحروف نے لینڈ گریب ٹریبونل میں تحصیلدار شیخ پیٹ پر کی تھی جو لینڈ گریب کیس میں بحیثیت ایک گواہ پیش ہوا تھا۔
جـــرح
سوال:- مسٹر شرما! آپ ایک نہایت ایماندار عہدیدار ہیں اور آپ آج کل شیخ پیٹ تحصیل میں بحیثیت تحصیلدار اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
جواب:- جی ہاں ۔ یہ بات درست ہے۔
سوال:- آپ اپنا فرض قانون اور ضابطہ کے مطابق سرانجام دیتے ہیں۔
جواب:- جی ہاں! یہ بات سچ ہے ۔ میں اپنا فرض دیانت داری کے ساتھ ادا کرتا ہوں۔
سوال:- آپ ہر روز صبح کلکٹر حیدرآباد کے گھر جاتے ہیں۔
جواب:- یہ بات درست نہیں۔
سوال:- آپ کلکٹر صاحب۔ ریوینیو سکریٹری کے بے حد چہیتے عہدیدار ہیں اور آپ پر ان کی مکمل مہربانی اور سرپرستی رہتی ہے۔
جواب:- یہ بات درست نہیں۔
سوال:- آپ کو بہت جلد آر۔ڈی۔او کے عہدہ پر ترقی دی جائے گی۔ کیا یہ بات درست ہے۔
جواب:- مجھے اس بات کا علم نہیں۔
سوال:- آپ کے خلاف اینٹی کرپشن کارروائی ہوئی۔ آپ کے گھر سے لاکھوں روپیہ اور جائیدادوں کے دستاویز ضبط ہوئے اور آپ کو ایک ہفتہ کے لئے ریمانڈ کیا گیا۔ یعنی آپ جیل بھی بحیثیت ملزم جاچکے ہیں؟
جواب:- یہ بات درست ہے۔
سوال:- جیل جانے کے بعد بھی آپ کو معطل نہیں کیا گیا؟
سوال:- یہ بات درست ہے۔
سوال:- آپ آج کل شیخ پیٹ منڈل کے تحصیلدار کی حیثیت سے خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
جواب:- یہ بات بالکل درست ہے۔
تینوں جج صاحبان مسکراتے ہوئے: – اب جانے بھی دیجئے۔ بے چارے بے گناہ کو کب تک پریشان کریں گے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰