
محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد
٭ صرف نوٹری جائیدادوں کی رجسٹری سے ہزاروں کروڑ روپیہ وصول کئے جائیں گے۔
٭ کوکہ پیٹ اراضی کا ہراج۔ بہت جلد اراضی کی قیمتیں صد فیصد بڑھ جائیں گی۔
٭ حکومت اور رئیل اسٹیٹ لابی کی سازش ظاہر ہورہی ہے۔
٭ 150 مربع گز سے زیادہ حدِ اراضی کے رجسٹریشن سے گریز کی رائے۔
2005ء کی بات ہے ‘ اس وقت بنجارہ ہلز جیسے پاش علاقہ میں اچھی جگہ پر زمین کی بازاری قیمت 20 ہزار روپیہ فی مربع گز اور سرکار کی جانب سے مقرر کی ہوئی قیمت8ہزار روپیہ تھی۔ ابھی تلنگانہ ریاست کی تشکیل نہیں ہوئی تھی اور سارے شہر اور اضلاع میں آندھرا رئیل اسٹیٹ لابی کا راج تھا۔ رئیل اسٹیٹ تجارت کے رجحانات پیدا ہورہے تھے اور لوگوں میں اراضیات کو خرید کر کچھ عرصہ بعد فروخت کردینے کا اور اس تجارت کو اپنا پیشہ بنانے کی خواہش بیدار ہورہی تھی لیکن قیمت میں اس قدر اضافہ نہیں ہورہا تھا کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جاسکے۔ ایسے وقت میں آندھرا رئیل اسٹیٹ نے ایک چال چلی اور حکومت پر اثر انداز ہوکر بنجارہ ہلز علاقہ میں ایک سرکاری اراضی کے ہراج پر آمادہ کیا اور کچھ دنوں بعد تین ایکر اراضی کے ہراج کا اعلان ہوا۔ ایسے دنوں میں جب حکومت کی جانب سے مقرر کی گئی قیمت صرف آٹھ ہزارروپیہ تھی کہ اچانک ہراج کی بولی 42 ہزار روپیہ آئی ۔ شہرحیدرآباد میں حیرت کی لہر دوڑ گئی۔ اچانک دوسرے دن سے بنجارہ ہلز علاقہ میں قیمتیں بڑھنے لگیں اور جو زمین صرف بیس ہزار روپیہ فی گز مل رہی تھی اچانک اس کی قیمت دوگنی ہوگئی۔ دوسری طرف حکومت نے بھی سرکاری قیمتیں دوگنی کردیں اور مالکینِ اراضی راتوں رات دوگنی دولت سے مالا مال ہوگئے۔ اس تاریخ سے آج تک صرف اضافہ ہی ہورہا ہے اور اراضی کی مانگ میں کمی نہیں ہورہی ہے۔
جاری ہفتہ کے دوران کوکہ پیٹ علاقہ میں حکومت نے گورنمنٹ اراضی کے ہراج کا اعلان کیا۔ اچانک زائد از ایک سو کروڑ روپیہ فی ایکر قیمت کی بولی آئی۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق اس علاقہ میں اور اطراف کے علاقوں میں اراضیات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کی اطلاعات ہیں۔ یہاں بھی وہی حکمتِ عملی یا چالبازی سے کام لیا گیا جس کی2004ء میں شروعات ہوئی تھی۔ گویا اراضی اب مال تجارت بن گئی ہے اور ایک اندازہ کے مطابق دس میں سے چار پانچ افراد کا پیشہ رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن بن گیا ہے۔
حالیہ دنوں میں جاری کردہ گورنمنٹ آرڈر84 کے مطابق نوٹری دستاویزات کی حامل جائیدادوں کی رجسٹری کی اجازت دی گئی ہے کیوں کہ عوامی نمائندوں نے اس کی سفارش کی ہے۔ اس گورنمنٹ آرڈر کے مطابق150 مربع گز اراضی کی حد تک کوئی رجسٹریشن فیس حاصل نہیں کی جائے گی۔ یہ گورنمنٹ آرڈر ان لوگوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا جن کی حداراضی 150مربع گز سے کم ہے۔ لیکن اس حد سے زائد اراضی کے رجسٹریشن کی فیس وصول کی جائے گی جو سرکاری قیمت کے مطابق ہوگی۔ گویا آپ کے پاس اگر کوئی ایسی جائیداد ہو جو 200 مربع گز اراضی کی حد تک ہو اور بنجارہ ہلز میں واقع ہو تو آپ کو اس حدِ اراضی پر اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرنا پڑے گا ۔ اگر قیمت اراضی ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ ہو تو تقریباً 8 فیصد اسٹامپ ڈیوٹی ادا کرنا پڑے گا ۔ اب بتائیے کوئی دس بارہ لاکھ روپیوں کا انتظام کہاں سے کرسکے گا۔
ایک اندازے کے مطابق ساری ریاست سے ہزاروں کروڑ روپیہ رجسٹریشن فیس کی بابت وصول کئے جائیں گے اور نادان مالکینِ جائیداد بھاری رقومات ادا کریں گے۔
نوٹری جائیدادوں کا اگر رجسٹریشن نہیں کروایا گیا تو کیا ہوگا؟
دفعہ53-A ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ کے مطابق اگر کوئی شخص کسی سے اپنی غیر منقولہ جائیداد فروخت کرنے کا معاہدہ کرے اور جزوی یا تمام رقم وصول کرکے جائیداد کا قبضہ خریدار کو دیدے تو کوئی بھی شخص ‘ حکومت یا خود فروخت کنندہ خریدار یا قابض کو اس کی مقبوضہ اراضی سے بے دخل نہیں کرسکتا۔ ہر نوٹری دستاویز ایک معاہدۂ بیع کی شکل میں ہوتی ہے۔ رقم کی ادائیگی ہوتی ہے اور قبضہ دیدیا جاتا ہے۔ قبضہ کی اساس پر پراپرٹی ٹیکس لاگو کیا جاتا ہے‘ پانی اور برقی بھی سربراہ ہوتی ہے۔ ایسی اراضیات یا ان پر تعمیر مکانات پر حکومت کا کوئی بھی عمل دخل نہیں ہوسکتا بشرطیکہ ایسی اراضی گورنمنٹ اراضی کے زمرے میں ہو‘ اگر اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل اراضی ہو بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ قانون ختم ہوچکا ہے۔
وہ حضرات جو ایسے مکانات پر قابض ہوں جن کی اساس نوٹری دستاویز ہو اور اگر وہ اس جائیداد۔ مکان کو فروخت کرنا نہیں چاہتے تو ان کو کسی فکر ‘ خوف و تردد کی ضرورت نہیں۔ خوامخواہ پریشان نہ ہوں۔ رجسٹریشن کی فیس جو طلب کی جارہی ہے اس سے ایک لڑکی کی شادی اچھے پیمانے پر کی جاسکتی ہے یا لڑکے کو یوروپ یا امریکہ میں اعلیٰ تعلیم دلوائی جاسکتی ہے۔ اپنے دل سے ہر خوف کو باہر کردیں۔ اگر آپ نوٹری جائیداد کی رجسٹری نہیں کروائیں گے تو کوئی آفت نہیں آئے گی۔ جب حکومت آپ کی جائیداد کی رجسٹری چاہتی ہے اور لاکھوں روپیہ وصول کرنا چاہتی ہے تو آپ کا جواب صرف خاموشی ہونا چاہیے۔ آپ کو کسی سیاسی قائد سے صلاح و مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ قانونی موقف جو آپ کو اوپر سمجھایا گیا ہے وہ حتمی ہے جس میں آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
آپ کی نوٹری دستاویز جائیداد کی اگر آپ بذریعہ ہبہ اپنے بیٹوں کے نام منتقل کردیں اور آپ کے بیٹے اسے فروخت کرنا چاہیں تو رجسٹرار کو آپ کی جائیداد کی رجسٹری کرنی ہی پڑے گی کیوں کہ سپریم کورٹ نے صاف الفاظ میں کہا ہے کہ ہبہ دستاویز کی رجسٹری ضروری نہیں۔
لہٰذا نوٹری جائیدادوں کے مالکین اس جھمیلے میں نہ پڑیں اور اس پیسہ کو کسی اچھے کام میں صرف کریں۔
اگر کوئی گورنمنٹ افسر آپ کے پاس آئے اور رجسٹریشن پر اصرار کرے تو فوری ٹیلی فون پر ربط قائم کریں۔
اراضیات ۔ جائیداد کی خریدوفروخت سے قبل قانونی مشورہ ناگزیر ہوتا ہے۔بصورت دیگر بہت بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے گا
جائیداد کی خریدوفروخت میں سب سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ آپ صرف اور صرف اپنے ایڈوکیٹ کی رائے کے مطابق عمل کریں اور معاہدہ کرتے وقت اگر فریقِ مخالف کہے کہ آپ ہمارے ایڈوکیٹ کے پاس چلئے وہیں معاہدہ کریں گے تو اس قسم کے مطالبہ کو کبھی تسلیم نہ کریں۔ جائیداد کی خرید سے قبل زیرِ خرید جائیداد کی خامیوں کو صرف تجربہ کارقانون دان ہی جان سکتے ہیں اور آپ کو مناسب رائے دے سکتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اڈوانس رقم کم سے کم دی جائے اور معاہدہ میں وقت کا تعین ہو اور معاہدہ میں اس بات کی وضاحت ہونی چاہیے کہ اگر وقتِ مقررہ کے اندر مابقی رقم ادا نہ کی گئی تو معاہدہ منسوخ کردیا جائے گا اور اڈوانس میں لی ہوئی رقم واپس کردی جائے گی۔ اگر معاہدہ منسوخ کرنے کی نوبت آئے تو فریقِ مخالف کو قانونی نوٹس جاری کرنا ضروری ہے اور ساتھ ہی مقامی اخبارات میں تنسیخ معاہدۂ بیع کی اشاعت بھی ضروری ہے۔ دوسری جانب خریدار پر یہ بات لازم ہے کہ خرید کے بعداخبار/اخبارات میں معاہدۂ بیع کی اشاعت کروائیں ۔ عام خریدار یا فروخت کنندہ نہیں سمجھ سکتا کہ قانونی موقف کیا ہے۔ ایک ایسا واقعہ حالیہ دنوں میں پیش آیا کہ تقریباً دس بارہ سال قبل ایک صاحب نے پٹہ دار سے چھ ایکر قیمتی اراضی خریدی‘ اس کی رجسٹری کروادی اور پاس بک بھی حاصل کرلی۔ پھر بعد میں اچانک ایک (P.T) نمودار ہوا اور اس نے کہا کہ میں اس زمین کا مالک ہوں کیوں کہ میرے دادا اس زمین کے محفوظ قولدار تھے یعنی (Protected Tenant) تھے۔ خریدار پر بڑی مصیبت آن پڑی۔ آخرِ کار محفوظ قولدار کے پوتے سے معاہدہ کیا گیا اور ایک بھاری رقم ادا کرکے جان چھڑانی پڑی اور اس بات کا علم ہوا کہ خرید سے قبل قانونی رائے کا حصول ناگزیر تھا۔
زرعی اراضیات پر آج کل پلاٹنگ ہورہی ہے اور حیدرآباد کے خریدار شہر سے 70-80 کلو میٹر دور ویرانے میں پلاٹس خرید رہے ہیں جہاں شائد آئندہ دو سو سال میں بھی آبادی بس نہ سکے۔ لہٰذا زرعی اراضی یا اس پر بنے ہوئے پلاٹس خریدنے سے قبل متعلقہ تحصیل آفس میں(P.T. Register) ضرور دیکھیں۔ جس سے یہ بات ثابت ہوگی کہ اراضی کی نوعیت کیا ہے۔
دوسری اور سب سے اہم اور ضروری یہ بات ہے کہ معاہدۂ بیع کے وقت آپ جو رقم بطورِ اڈوانس وصول کریں اسے محفوظ رکھیں اور اس میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہ کریں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ اڈوانس میں لی ہوئی رقم کسی دوسری جائیداد کی خرید میں لگادیتے ہیں۔ ایسی صورت بہت نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔
کوئی بھی ایسی زمین خریدیں جو (Assigned Land) کا حصہ ہو۔ ایسی اراضی ناقابل فروخت ہوتی ہے۔ خریداروں سے زیادہ فروخت کنندہ کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ورنہ معاہدہ ہوجائے گا اور فریق مخالف کئی سال تک انتظار کروائے گا اور ایک چھوٹی سی رقم دے کر آپ کو جال میں پھانس لے گا۔ لہٰذا تمام رئیل اسٹیٹ معاملات میں قانونی مشورہ کا حصول لازمی ہے اور اس بات میں آپ کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
اسی طرح قیمتی جائیدادوں کو لیز پر دینے سے قبل بھی بہت احتیاط برتنی ہوگی۔ اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ لیز کی مدت زیادہ طویل نہ ہو اور اس کی رجسٹری لازم ہے۔ بغیر رجسٹریشن کے جائیدادیں لیز پر دینے میں بہت سے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
اگر آبائی جائیداد خرید رہے ہیں تو اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ معاہدہ تمام ورثاء سے کریں کیوں کہ اگر کوئی بھی وارث ایسا کھڑا ہو جس نے معاہدۂ بیع پر دستخط نہیں کئے تو بڑی پریشانی کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔
اگر فلیٹس خرید رہے ہیں تو صرف ان منزلوں تک ہی محدود رہیئے جن کی تعمیری منظوری ہو اوپری منزلوں کے فلیٹ خریدنے سے باز رہیں ۔ ہر جائیداد کی خرید سے قبل خریدی کا اعلان اخبارات میں شائع کروائیے۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰