ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد
ایک ایسے وقت جب کہ ملک اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے، مرکز میں بر سرِ اقتدار بی جے پی حکومت نے ایک ملک ۔ ایک الیکشن کا شوشہ چھوڑ دیا ہے۔ یہ موضوع پہلی مرتبہ زیر ِ بحث نہیں لایا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی مودی حکومت نے اپنا عندیہ ظاہر کیا تھا کہ ملک اور قوم کے مفاد میں یہ بہتر ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت منعقد کئے جائیں۔2018اور 2019میں لا کمیشن سے بھی اس مسئلہ کو رجوع کیا گیا۔ اب جب کہ لوک سبھا الیکشن عنقریب منعقد ہونے والے ہیں اور 2023کے ختم ہونے سے پہلے پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات کا مرحلہ بھی طے کرنا ہے۔ ایسے وقت حکومت کی جانب سے ایک ملک۔ ایک الیکشن کا نعرہ دینااس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حکومت سلگتے ہوئے سنگین مسائل سے عوام کی توجہ کو ہٹانے کے لیے اس عنوان کو چھیڑی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بی جے پی گز شتہ نو سال سے ملک پر حکومت کر رہی ہے۔ 2014کے الیکشن میں کامیابی کے بعد اس کے ہاتھوں میں اقتدار آیا ہے۔ دوسری مرتبہ 2019کے الیکشن میں بھی رائے دہندوں نے بی جے پی کو اکثریت سے ہمکنار کر تے ہوئے بر سرِ اقتدار لایا۔ اتنا طویل عرصہ حکومت کرتے ہوئے بھی بی جے پی نے کیوں اس موضوع کو منظر عام پر نہیں لایا۔ ایک ملک۔ ایک الیکشن واقعی ملک کی ترقی کے لیے ناگزیر ہے توپھر وقت ضائع کئے بغیر بی جے پی کو اس ضمن میں رائے عامہ کو ہموار کرنا چاہیے تھا۔ یہ سارے کام کیے بغیر اب اچانک ایک ملک۔ ایک الیکشن کی پالیسی کے نفاذ کے لئے حکومت کی جانب سے سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کی صدارت میں کمیٹی کی تشکیل اور 18 تا 22 ستمبر پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کی طلبی ان خدشات کو تقویت بخشتی ہے کہ حکومت نے اس معاملے میں ساری تیاری کرلی ہے۔ پارلیمنٹ میں اکثریت کی بنیاد بھی وہ اپنے مقصد میں کا میاب بھی ہوجائے گی۔ بی جے پی قائدین کی جانب سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ایک ملک ۔ ایک الیکشن سے جمہوریت مضبوط ہو گی اور ملک کو بیجا اخراجات سے بچایا جا سکتا ہے۔ یہ دلیل دی جا رہی ہے کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات الگ الگ ہونے کے نتیجہ میں الیکشن کمیشن پر کافی بار پڑ رہا ہے۔ وقفے وقفے سے کسی نہ کسی ریاست میں اسمبلی الیکشن کرانے ہوتے ہیں۔ اس لیے بیک وقت لوک سبھا اور ملک کی 29ریاستوں میں الیکشن ہوں تو الیکشن کمیشن کو اپنے فرائض کے ادا کرنے میں سہولت ہو گی۔ بیک وقت انتخابات کے انعقاد کے حامیوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس سے ملک بھر کے انتظامی امور میں سدھار آئے گا۔ انتخابی ضابطہ اخلاق کو نافذ کرنے کرنے کی بار بار نوبت نہیں آئے گی۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پالیسیوں میں یکسانیت لائی جا سکتی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ادعا کیا کہ ایک ملک ایک الیکشن سے ملک کے وسائل کی بچت ہو گی اور الیکشن پر خرچ کیا جانے والا پیسہ عوامی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔ ایک ملک۔ ایک الیکشن کی تائید کرنے والوں کے ان دلائل پر اگر غور کیا جائے تو بعض امور سے اتفاق کرنے کی گنجائش ہے۔ خاص طور پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے بیک وقت انتخابات سے وسائل کی بچت ہو سکتی ہے۔ لیکن ملک کے وفاقی ڈھانچے کو جو نا قابل تلا فی نقصان پہنچے گااس سے ملک کا جمہوری نظام تہس نہس ہو جائے گا اور اس کے نتیجہ میں جمہوریت کے خوبصورت نام پر دبے پاو¿ں آمریت کو ملک میں اپنے پنجے گاڑ نے کا موقع ملے گا۔
ایک ملک ۔ ایک ا لیکشن کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لیے متعدد آئینی ترامیم کرنی ہوگی۔ اس کے لیے ریاستوں کی رضامندی بھی ضروری ہے۔ دستوری پیچیدگیوں کی وجہ سے ہی ایک ملک ایک الیکشن پر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ ویسے یہ بحث کافی پرانی ہے۔ 1990 میں لا کمیشن نے ایک ملک ایک الیکشن کو قابل عمل قرار دیا تھا لیکن اس کی سفارشات پر کسی نے توجہ نہیں دی۔ ملک کی آزادی کے بعد مسلسل چار مرتبہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن بیک وقت ہوئے۔ ان میں 1952, 1956, 1962 اور 1967کے الیکشن شامل ہیں ۔ جب 1968-69میں کچھ ریاستی اسمبلیوں کو تحلیل کر دیا گیاتو صرف لوک سبھا کے الیکشن 1971 میں کرائے گئے۔ اس کے بعد سے لوک سبھا اور ریاستوں کی اسمبلیوں کے الیکشن الگ الگ ہونے لگے اور وہی سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ جب ریاستی اسمبلی کی میعاد پوری ہوجاتی ہے تو لوک سبھا کے الیکشن کا انتظار کئے بغیر وہاں انتخابات منعقد کرائے جا تے ہیں۔ اب تو صورت حال یہ ہے کہ ہردو، چار ماہ میں کسی نہ کسی ریاستی اسمبلی کے الیکشن ہوتے ہیں۔ ابھی کرناٹک میں ریاستی اسمبلی کا الیکشن ہوا۔ کچھ مہینوں بعد تلنگانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور میزروم میں الیکشن کا مر حلہ آئے گا۔ پھر کچھ مہینے بعد مہاراشٹرا ،آندھرا پردیش اور دوسری ریاستوں میں رائے دہی ہو گی۔ اس طرح یہ سلسلہ سال بھر چلتا رہتا ہے۔ بی جے پی حکومت حالات کے اس تناظر میں لوک سبھا اور ملک کی ساری ریاستی اسمبلیوں کے الیکشن کس طرح کرانے میں کا میاب ہو سکتی ہے۔ حکومت کی ون نیشن۔ ون الیکشن کی تجویز کے نفاذ کی صورت میں ان ریاستوں کی اسمبلیوں کو کیا تحلیل کر دیا جائے گا جہاں دو، ایک سال پہلے الیکشن ہوا ہے۔ رائے دہندوں نے اپنے نمائندوں کو پانچ سال کے لئے منتخب کیا ہے۔ ایک سال یا دو سال کی میعاد پر کیا انہیں اسمبلی کی رکنیت سے برخاست کرنا اتنا آسان ہے کہ اس پر کوئی ہنگامہ نہیں ہوگا۔ جب اسمبلیوں کی میعاد پانچ سال مقرر ہے تو کیا انہیں ایک ملک ۔ ایک الیکشن کے نام پر وقت سے پہلے تحلیل کر دیا جا ئے گا؟ قومی پارٹیاں کیا بی جے پی حکومت کے اس نظریہ کو قبول کرلیں گی۔ علاقائی پارٹیاں اس پر بات پر رضا مند ہوجائیں گی کہ لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوں۔ وہ کسی صورت میں اس بات کے لیے تیار نہیں ہوں گی۔ ون نیشن۔ ون الیکشن کے نتیجہ میں الیکشن کے موقع پر قومی مسائل ہی ابھر کر آئیں گے اور مقامی مسائل نظرانداز کردیے جائیں گے۔ ملک میں بیک وقت انتخابات سے علاقائی پارٹیوں کا نقصان ہوگا۔ قومی پارٹیاں ، قومی ایجنڈے کو لے کر رائے دہندوں کو اپنی طرف راغب کرلیں گی۔ جب کبھی لوک سبھا اور اسمبلیوں کے انتخابات بیک وقت ہوئے، قومی پارٹی کو اس کا فائدہ ہوا۔ 1967تک کے الیکشن میں کانگریس کو جو کامیابی ملی، اس کی اصل وجہ بیک وقت الیکشن تھے۔ کانگریس، مرکز اور ریاستوں میں اپنی حکومت بنانے میں کا میاب ہو تی رہی۔ 1971کے لوک سبھا الیکشن کے بعد ملک کی سیاست میں ایک نئی تبدیلی آئی۔ ریاستوں میں علاقائی پارٹیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا اور آج صورت حال یہ ہے کہ ملک میں قومی پارٹیوں سے زیادہ اثر علاقائی پارٹیوں کا ہے۔ بی جے پی ، علاقائی پارٹیوں کے اس اثر و نفوذ دیکھتے ہوئے ایک ملک۔ ایک الیکشن کا راگ الاپ رہی ہے۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ اگر ریاستی اسمبلیوں میں علاقائی پارٹیاں حکومت بنانے میں کامیاب ہو تی رہیں تو ایک دن مرکز میں بھی ان کا اقتدار قائم ہو جائے گا۔ علاقائی پارٹیوں کے زور کو ختم کرنے کے لیے ہی بی جے پی نے ایک ملک۔ ایک الیکشن کے نظریہ کو آگے بڑھایا ہے۔ اس بات کے پورے امکانات ہیں کہ بی جے پی حکومت اپنے مقصد کے حصول کے لیے ہر حربہ اختیار کرے گی۔
ون نیشن۔ ون الیکشن کی تجویز بظاہر بڑی خوشنما ہے۔ لیکن اس کے پس پردہ بی جے پی حکومت کے جو عزائم ہیں وہ بڑے خطرناک ہیں۔ یہ نظریہ دراصل ملک کے پارلیمانی نظام کی دھجیاں اُڑا دے گااور اس کے وفاقی نظام کو منہدم کردے گا۔ مرکز کو غیر محدود طاقت حاصل ہوجائے گی اور ریاستی حکومتوں کو اس قدر غیر مستحکم کر دیا جائے گا کہ کوئی ریاست مرکز کے رحم و کرم کے بغیر نہیں چل سکے گی۔ مختلف اوقات میں ہونے والے اسمبلی الیکشن سے راجیہ سبھا میں سیاسی جماعتوں کی پوزیشن مضبوط ہوتی ہے۔ بیک وقت الیکشن ہونے کی صورت میں راجیہ سبھا کی اہمیت ختم ہوجائے۔ اس بات کے خدشات بھی ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ ریاستوں میں صدر راج نافذ کرنے کاچلن بڑھ جائے گا۔ الیکشن کے انتظار میں مرکز یہ اقدام کر سکتا ہے۔ ایک قوم ۔ایک الیکشن کے پیچھے یہ سازش بھی کام کر رہی کہ کسی طرح ملک کی دیگر پارٹیوں کو اقتدار سے دور رکھ کر خود بی جے پی اقتدار پر قابض رہے۔ ایک ایسے وقت جب کہ اپوزیشن پارٹیوں کا ایک مضبوط اتحاد قائم ہوا ہے ، ایک ملک ، ایک الیکشن کی بحث چھیڑنا بی جے پی کی بوکھلاہٹ کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ملک کی 28 اپوزیشن پارٹیوں کے انڈیا الائنس نے ہی مودی حکومت کو مجبور کر دیا کہ وہ آنے والے دنوں میں ان سے مقابلے کے لیے کوئی ایسا راستہ اختیار کرے جس سے ان کا سیاسی فائدہ ہوسکے۔ کرناٹک میں کراری شکست کے بعد ہی بی جے پی نے ایک ملک ، ایک الیکشن کا شوشہ چھوڑا ہے اور پھر اپوزیشن پارٹیوں کے گٹھ بندھن سے یہ حقیقت عیاں ہو گئی کہ اب بی جے پی کے خلاف زبردست محاذ آرائی ہو سکتی ہے۔ اس لیے ایک نئی چال چلتے ہوئے ملک کے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ سنگین مسائل سے صرفِ نظر کر تے ہوئے ایک ایسے موضوع کو عوام کے درمیان میں لایا گیا جس کی نہ ملک کو ضرورت ہے اور نہ عوام نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں اس انتخابی نظام کو رائج کیا جائے۔اس وقت ملک جن سنگین چیلنجوں سے نبردآزما ہے، اس پر حکومت کوئی ٹھوس اقدامات کر تی ہوئی نظر نہیں آ رہی ہے۔ منی پور میں اب بھی حالات انتہائی دھماکو ہیں۔ چار مہینے گزرجانے کے باوجود وہاں قتل و غارت گری کا سلسلہ جا ری ہے۔ چین نے ہندوستان کی ریاست اروناچل پر دیش کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔ اس نے ہندوستان کے علاقہ کو اپنے نقشے میں بھی شامل کر لیا ہے۔ ملک کے عوام مہنگائی سے پریشان ہیں۔ نوجوان روزگار کے حصول کے لیے دربدر ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔فرقہ پر ست عناصر ملک کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو متاثر کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑتے۔ خواتین کی عزت و عفت پر حملے ہو رہے ہیں۔ ان سارے مسائل کے بیچ ایک ملک ، ایک الیکشن کو موضوعِ بحث بنانا عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے دور کرنے کا ایک سیاسی حربہ ہے۔ اس کے ذریعہ بی جے پی وقتی فائدہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن ایسی بحثوں سے ملک کی ترقی ٹھپ پڑجائے گی۔ اپنی دو معیادوں کے دوران بی جے پی نے عوامی فلاح و بہبود کے لیے کوئی ترقیاتی منصوبہ نہیں بنایا اور نہ ہی کوئی ٹھوس اقدامات اس ضمن میں کئے گئے۔ اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بی جے پی ہمیشہ متنازعہ موضوعات کو عوام کے سامنے لاتی ہے۔ ایک ملک ، ایک الیکشن کا مسئلہ بھی اسی نوعیت کا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس پر بی جے پی حکومت کیسے اتفاق رائے پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بات طے ہے کہ حکومت پہلے سے ہی یہ ارادہ کرچکی ہے کہ ملک میں بیک وقت لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوں گے۔ اس کے لیے ساری تیاری کرلی گئی ہے۔ پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کی طلبی محض ایک ضابطہ کی کاروائی ہے۔ اب ملک کی سیکولرسیاسی پارٹیوں اور سول سوسائٹی کے ذ مہ داروں کا کام ہے کہ وہ پارلیمانی جمہوری نظام کو ختم کرنے والی طاقتوں کو ملک سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کمر بستہ ہوجائیں۔٭٭