مضامین

پارلیمنٹ کے اجلاس کیا محض ہنگامہ آرائی کے لیے رہ گئے!

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

پارلیمانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ کی بڑی اہمیت ہو تی ہے۔ یہ ایوان ملک کے عوام کی ترجمانی کرتا ہے۔ پارلیمنٹ عوام کی امیدوں اور ان کی تمناو¿ں کا مرکز اور محور ہو تی ہے۔ مقننہ ہی وہ ایوان ہے جہاں سے قوانین وضع کیے جا تے ہیں اور پھر ملک میں نافذ کیے جاتے ہیں۔ دستورسازوں نے ہندوستان میں دو ایوانی مقننہ کی تائید اسی لیے کی کہ کسی ایک ایوان میں کوئی قانون عوام کی آرزوو¿ں اور ان امنگوں کے خلاف منظور ہوجائے تو دوسرے ایوان میں اس پر مزید غور وخوص ہوسکے اور اس کی خامیوں کا ازالہ کرکے ایسا قانون ملک میں نافذکیا جاسکے جو عوام مخالف نہ ہو۔ پارلیمنٹ ، عوامی بحث و مبا حثہ کا وہ پلیٹ فارم ہے جہاں عوامی نمائندے ملک اور قوم کے مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے قانون سازی کر تے ہیں، لیکن ان دنوں پارلیمنٹ میں ہونے والے مباحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارلیمنٹ کے ارکان کو اب عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ اسی لیے پارلیمنٹ کے اجلاس کے ساتھ ہی ہنگامہ آرائی شروع ہو جاتی ہے۔ عوام کے حقیقی مسائل نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ ان دنوں پارلیمنٹ کابجٹ سیشن جاری ہے۔ لیکن ہر دن ارکان کے درمیان لفظی جنگ کے نتیجہ میں سیشن کو ملتوی کرنے کی نوبت آ رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس وقت ملک جن سنگین مسائل سے دوچار ہے، اس پر سنجیدہ مباحث ہو تے اور عوام کی پریشانیوں کو دور کرنے کی راہیں تلاش کی جا تیں، لیکن حکمران جماعت کے ارکان نے راہول گاندھی کے برطانیہ میں دیے ہوئے بیان کو بنیاد بناکر پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کو روز کا معمول بنا لیا۔ پارلیمنٹ کے بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے کا آ غاز 13 مارچ سے ہوا ہے۔ لیکن ہر دن بر سرِ اقتدار پارٹی کے ارکان کی جانب سے راہول گاندھی کو نشانہ بناتے ہوئے جس انداز میں احتجاج کیا جا رہا ہے ، اس سے ایوان کی کارروائی کو معطل کرنا پڑ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کیا محض اس لیے طلب کیے جاتے ہیں کہ وہاں صرف الزام تراشیوں کا بازار گرم ہو، اپوزیشن، حکمران پارٹی کو گھیرنے کی کوشش کرے اور حکمران پارٹی کے ارکان حزبِ مخالف کو تنگ کرنے کا کوئی موقع کھونا نہیں چاہتے۔ گزشتہ چند برسوں سے پارلیمنٹ کے وقار اور اس کے مرتبہ کو جس طریقہ سے حکمران جماعت پامال کر رہی ہے، اس کی نظیر اور مثال سابق میں بہت کم ملتی ہے۔ یہ دراصل عوامی مسائل سے فرار کی ایک سیاسی چال ہے۔ راہول گاندھی نے اگر برطانیہ میں اپنے ایک لکچر کے دوران اگر یہ کہا کہ ہندوستان میں جمہوریت کمزور پڑ رہی ہے، ملک کے دستوری اور قانونی اداروں کو آزادانہ طور پر کام کرنے نہیں دیا جا رہا ہے، اپوزیشن پارٹیوں اور جو حکومت سے سوال کر تا ہے اسے تفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ ہراساں اور پریشان کیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازٰیں اقلیتوں، دلتوں اور قبائلیوں کے ساتھ حکومت نے جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہے۔ یہ وہ سارے حقائق ہیں جس سے دنیا کا کوئی صاحبِ انصاف شخص انکار نہیں کر سکتا۔ راہول گاندھی نے اگر ہندوستان کی صحیح عکاسی کی ہے تو اس پر بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ اتنے چراخ پا کیوں ہیں کہ وہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو چلنے نہیں دے رہے ہیں۔ راہول گاندھی بھی اس ایوان کے رکن ہیں۔ ان سے وضاحت طلب کی جا سکتی ہے کہ انہوں نے کس تناظر میں یہ باتیں برطانیہ میں بیان کی ہیں۔ بجائے اس کے پارلیمنٹ کی کارروائی میں مسلسل دخل اندازی اور ہڑبونگ، بی جے پی قائدین کی بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتا ہے۔ راہول گاندھی نے صرف آئینہ دکھانے کا کام کیا ہے۔
راہول گاندھی نے اپنے کیمبرج یونیورسٹی کے مذکورہ لکچر میں یہ بھی کہا کہ اگر ہندوستان میں جمہوریت کمزور پڑجاتی ہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ دنیا کا توازن بھی بگڑجائے گا۔ ان کے اس بیان میں اپنے وطن کی توہین کا عنصر کہاں چھلک رہا ہے۔ بی جے پی لیڈروں کا ادعا ہے کہ راہول گاندھی نے بیرونی سرزمین استعمال کر تے ہوئے اپنے وطن کی توہین کی ہے، اس پر انہیں معافی مانگنی چاہیے۔ ملک کے وزیراعظم نریندرمودی کو بھی ان کا بیان پسند نہیں آیا اور بالواسطہ انہوں نے بھی اپنی تقریروں میں نہرو خاندان کو نشانہ بنایا۔ جہاں تک راہول گاندھی کا بیان ہے اس میں ان کے ملک کے تئیں فکر مندی کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور اگر یہاں جمہوریت کو خطرات لاحق ہو تے ہیں تو ساری دنیا پرا س کے اثرات پڑ سکتے ہیں اور اس سے دنیا کا توازن بگڑ سکتا ہے۔ تاریخ میں ایسی بیسیوں مثالیں موجود ہیں جب ایک ملک میں افراتفری پھیلتی تو پڑوسی ملکوں پر بھی اس کا اثر پڑ تا ہے۔ جب تک دنیا میں دو قطبی نظام رائج تھا، بڑی حد تک توازن قوت بگڑا نہیں تھا، لیکن جیسے ہی یوایس ایس آر کا شیرازہ بکھر گیا تو یو ایس اے ایک نا قابل تسخیر قوت بن گیا۔ اسی طرح دنیا میں تبدیلیاں رونماہو تی ہیں۔ اگر ہندوستان میں جمہوریت ہچکولے کھاتی ہے تو پھر ملک میں ڈکٹیٹر شپ کے لیے راہیں ہموار ہوں گی۔ اس وقت ملک میں جمہوریت کا صرف لبادہ رہ گیا ، اس کی روح ختم ہو گئی۔ حکومت کے کتنے ہی ادارے مفلوج کر دیے گئے۔ سی بی آئی، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کو اپنے کنٹرول میں لینے کے لیے موجودہ حکومت کیا کچھ نہیں کر رہی ہے۔ راہول گاندھی نے ملک کی جمہوریت پر سوال اٹھایا ہے تو یہ ان کی حب الوطنی ہے۔ لیکن حکمران جماعت ان کے اٹھائے ہوئے سوالات پر جواب دینے کے بجائے پارلیمنٹ میں ہنگامہ آرائی کرکے اپنے مقصد میں کا میاب ہونا چاہتی ہے تو پھر عوامی عدالت میں عوام یہ سوال اٹھائیں گے کہ کیا واقعی ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے۔ آیا حکمران طبقہ جمہوری اقدار کی پابندی کر رہا ہے۔ جس جذبہ اور شوق کے ساتھ ملک میں جمہوری نظام کو ملک کی آزادی کے بعد نافذ کیا گیا تھا آیا اب بھی اسی اسپرٹ کے ساتھ ہمارا ملک جمہوری سفر کو طے کر رہا ہے۔ ان سنجیدہ اور سلگتے ہوئے سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے بجائے مودی حکومت ان سوالات پر تلملارہی ہے اور جو کوئی محب وطن اپنی جرات مندی کا ثبوت دیتے ہوئے حکومت سے سوال کر رہا ہے، اسے پابندِ سلاسل کر دیا جا رہا ہے۔ صرف راہول گاندھی نے ہی ملک کی جمہوریت پر اپنی تشویش ظاہر نہیں کی ہے بلکہ ہر وہ شہری جوملک سے محبت رکھتا ہے وہ بھی اپنے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کو لے کر پریشان ہے۔ اسے بھی اپنے ملک کا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے۔ کوتاہ ذہن اور تنگ دل سیاستدانوں نے اس ملک کی شبیہ کو اس حد تک بگاڑ دیا کہ ا س کو صاف کرنے میں کئی سال نہیں بلکہ کئی دہے لگ سکتے ہیں۔ اپنے حقیر مفادات کے حصول کے لیے جس ملک میں معصوم انسانوں کی جانیں لی جاتی ہیں وہاں قانون کی حکمرانی کی باتیں محض ایک لفاظی معلوم ہوتی ہیں۔ ہر تھوڑے دن کے بعد جہاں ماب لینچنگ کے دلخراش واقعات ہو تے ہیں ، وہاں کیسے تصور کرلیا جائے کہ انسانی جان کے تحفظ کو حکومت اولین ترجیح دیتی ہے۔ راہول گاندھی نے یہی تو کہا کہ ہندوستان میں جمہوریت اور دیرینہ تکثیری روایات کو پامال کرنے کی منصوبہ بند کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں کہا کہ ملک میں ایسا ماحول بنا دیا گیا کہ عوام ارباب اقتدار کی باتوں کو سننے کے لیے مجبور ہیں، لیکن حکومت عوام کے مسائل کو سننا نہیں چاہتی۔ اگر وہ عوام کے مسائل سے ہی واقف ہونا نہیں چاہتی ہے تو پھر ان کے حل کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میںہونے والی ہنگامہ آرائی بھی یہ ثابت کرتی کہ مودی حکومت عوامی مسائل سے جی چرارہی ہے ۔
بی جے پی قائدین کو اس بات کا بھی غصہ ہے کہ راہول گاندھی نے دیش کی بات ودیش میں کہہ دی۔ انہوں نے اپنے ملک کی مریادا کا بھی پاس ولحاظ نہیں رکھا۔ طرفہ تماشا یہ کہ راہول گاندھی نے جہاں بھارت کی جمہوریت پر سوال اٹھایا وہیں چین کی تعریف کر دی۔ظاہر ہے کہ ان کی باتیں بی جے پی کو ہضم نہ ہوسکیں اور اب ان کے بیان کو لے کر پورے ملک میں ایک سیاسی بھونچال پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ابھی تو پارلیمنٹ میں ہنگامہ چل رہا ہے ۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد بی جے پی اس کو آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن کا موضوع بھی بنا سکتی ہے۔ انتخابی مہم کے دوران رائے دہندوں کو یہ باور کرایا جائے گا کہ کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی سچے محب وطن نہیں ہیں اور انہوں نے بیرون ملک اپنے وطن کے خلاف بیان دے کر ملک کی توہین کی ہے۔ راہول گاندھی کے ایک بیان پر اتنا پروپیگنڈا لیکن خود وزیر اعظم نے اپنے بیرونی ممالک کے دوروں کے دوران ان ممالک کے قصیدے پڑھے ہیں۔ وزیراعظم نے سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ ہندوستان کے موقع پر ان کا جو شاہانہ استقبال کیا تھا، اسی کے نتیجہ میں کہا جا رہا ہے ہمارے وطن عزیز میں کورونا کی وباءآئی تھی۔ ملک کے وزیر اعظم ، امریکہ کے صدر کے لیے اپنی آنکھیں نہ بچھاتے تو لاکھوں انسان کورونا کی لپیٹ میں آکر موت کا شکار نہ ہوتے۔ ان ساری باتوں کے قطع نظر پارلیمنٹ ، جوعوامی بحث کا ایک زبردست ذریعہ ہے ۔ اس کے اجلاسوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے چلنے دینا یہ ملک کے مفاد میں بہتر ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاسوں پر جو خرچ آتا ہے وہ کروڑوں روپیوں کا ہوتا ہے۔ ارکان پارلیمنٹ کی جو مراعات ہیں وہ غیر معمولی ہیں اور یہ سارا پیسہ عوام کا ہو تا ہے۔ عوام کی محنت کے پیسہ کو اگر سیاست دان لایعنی بحثوں اور ہنگاموں پر خرچ کر دیتے ہیں تو یہ بد دیانتی ہے۔ اس سے عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد متزلزل ہو جائے گا۔ پارلیمنٹ میں عوام کے مسائل پر بحث ہونی چاہیے۔ ان کے دیرینہ مطالبات پر غور کرنا اور انہیں روبہ عمل لانا عوامی نمائندوں کی ذ مہ داری ہے۔ عوامی نمائندے جنھیں عوام بڑی امیدوں کے ساتھ منتخب کرتے ہیں اگر یہ نمائندے پارلیمنٹ میں وقت گزاری کر تے ہیں تو یہ جمہوریت کامذاق ہو گا۔ اب جب کہ 6 اپریل تک پارلیمنٹ کا اجلاس ہونے والا ہے۔ بر سر اقتدار پارٹی اور اپوزیشن کو عوامی مسائل کو ایوان میں لانے کی کوشش کرنی ہوگی۔ اب تک ٹھوس مسئلوں پر کوئی گفتگو نہیں ہوسکی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی پارلیمنٹ کے اجلاس کے آغاز سے پہلے ایک اجلاس طلب کرتے ہوئے اپنی حکمت عملی ترتیب دی تھی۔ کانگریس کے قومی صدر میلکارجن کھر گے نے یہ اجلاس طلب کیا تھا۔ اس میں 16اپوزیشن پارٹیوں نے شرکت کی تھی۔ یہ طے کیا گیا تھا کہ پارلیمنٹ کے جاریہ اجلاس کے دوران مودی حکومت کو زبردست انداز میں حساّس موضوعات پر گھیرا جائے گا۔اڈانی گروپ کی معاشی دھاندلیوں کو بے نقاب کیا جا ئے گا۔ چین کے ساتھ جو تنازعہ چل رہا ہے، اس پر حکومت سے وضاحت طلب کی جائے گی۔ بے روزگاری اور مہنگائی کے لیے حکومت کو مورد الزام قرار دیا جائے گا، لیکن اپوزیشن اپنے منصوبہ میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اجلاس کے آغاز کے ساتھ ہی بی جے پی ارکان نے ایوان کو ایک لحاظ سے یرغمال کرلیا اور راہول گاندھی پر سیدھا نشانہ لگاتے ہوئے ان کی حب الوطنی پر ہی سوال کھڑا کر دیا۔ سیاسی مبصرین کا ماننا تھا کہ بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن کا پّلہ بھاری ہوگا۔ مودی حکومت نے مطلق العنانی کا جو روپ دھار لیا ہے، اس کو اپویشن پارٹیاں عوام کے سامنے لانے میں کا میاب ہو جائیں گی، لیکن بی جے پی نے اپوزیشن سے زیادہ تیاری کر کے پارلیمنٹ کو اپنے قابو میں کرلیا۔ یہ خود بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک میں جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے۔ ٭٭
٭٭٭

a3w
a3w