حیدرآباد

پاسپورٹ آفس اسٹاف پردانستہ طورپرغلط اندراج کا الزام

شہرکے پاسپورٹ سیواکیندرم اور علاقائی دفتر کے اسٹاف کی مبینہ غلطیوں ولاپرواہی سے عوام کو سخت پریشانی کاسامنا ہے اور بتایا جاتاہے کہ اسٹاف درخواست گزاروں کو ہراساں بھی کررہا ہے۔

حیدرآباد: شہرکے پاسپورٹ سیواکیندرم اور علاقائی دفتر کے اسٹاف کی مبینہ غلطیوں ولاپرواہی سے عوام کو سخت پریشانی کاسامنا ہے اور بتایا جاتاہے کہ اسٹاف درخواست گزاروں کو ہراساں بھی کررہا ہے۔

ذرائع کے بموجب پاسپورٹ سیواکیندرم ٹولی چوکی اور بیگم پیٹ میں علاقائی پاسپورٹ آفس سکندرآباد میں واقع ہے۔ان تینوں مقامات پریہی صورتحال ہے۔ ہردفتر میں درخواستیں دینے کیلئے 6کاونٹرس ہیں مگر ان کاونٹرس پرصرف 3ہی ملازمین تعینات رہتے ہیں۔

اس کے بعد ایک اور سیکشن ہے جہاں این اوراے کیساتھ نمبرات ہوتے ہیں اور پھر سی اوربی کاونٹر سے ہوتے ہیں۔ پہلے کاونٹر پر درخواست گزارسے آدھار کارڈ کی زیراکس کاپی پوچھی جاتی تھی۔اب آدھار کارڈ کے پیچھے کے حصہ کابھی زیراکس پوچھا جارہا ہے۔اس کے علاوہ اصلی آدھار کارڈ بھی ہونا ضروری ہے۔

پہلے زیراکس کاپی سے کام چلایا جاتاہے۔ماں باپ کا آدھارکارڈ اور پاسپورٹ کاپی ہونا ہے اور پھر اصلی پاسپورٹس بھی پیش کرنا ضروری ہے۔ ایک بھی کاپی کم ہوگی توآپ کی درخواست قبول نہیں ہوگی۔ درخواست گزار کو ایک سے دوسرے کاونٹرتک گھمایا جاتاہے اورہر سرٹیفکیٹ کازیراکس منگوایا جاتا ہے۔

زیراکس کی دکان پاسپورٹ آفس کے احاطہ میں ہی ہے۔جہاں عام دکانوں سے زائد پیسہ لیاجاتا ہے۔ بتایا جاتاہے کہ پاسپورٹ آفس کا اسٹاف خود ناموں اورپتہ کے اندراج میں غلطی کرتاہے جس کی وجہ سے اور درخواست گزار کوان غلطیوں کی اصلاح کیلئے پاسپورٹ آفس کے چکر لگانا پڑتا ہے۔

پاسپورٹ آفس اسٹاف‘پاسپورٹ آفیسر پر الزام ہے کہ ان کا عوام سے رویہ ٹھیک نہیں رہتا۔ استفسار پر اسٹاف یہ کہتا ہے کہ بیٹھوا نام پکاریں گے۔گھنٹوں انتظار کروایا جاتاہے۔ یوں سمجھو کہ صبح پاسپورٹ آفس میں داخل ہونے کے بعد درخواست داخل کرنے تک شام ہوجاتی ہے۔

درخواست گزار اگرایک بھی پیپر لانے میں تاخیر کریں توپھر اس کو 2ماہ کے بعد کی نئی تاریخ دیتے ہوئے اس کو سزا دی جاتی ہے۔مرکزی حکومت کوچاہئے کہ آفس اسٹاف کورویہ میں تبدیلی لانے کی ہدایات جاری کرے۔بیگم پیٹ پاسپورٹ آفس کے اے پی اوکوتبدیل کرنابھی ضروری ہے۔

پاسپورٹ آفس میں اکثریتی طبقہ کااسٹاف ہی تعینات ہے۔ اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو نمائندگی بہت ضروری ہے اور تینوں آفس میں انقلابی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔