سیاستمضامین

پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات یا لوک سبھا چناؤ کا سیمی فائنل

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی(پی ایچ ڈی)

ایسا لگتا ہے کہ اگلے مہینے ہونے والے پانچ ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات دراصل 2024 کے لوک سبھا چناؤ کا سیمی فائنل ہے۔ الیکشن کمیشن نے جوں ہی چناؤ کی تاریخوں کا اعلان کیا تبھی سے ضابطہ اخلاق کا نفاذ عمل میں آچکا۔ جن پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخاب ہونے والے ہیں ان میں مدھیہ پردیش ‘ راجستھان‘ تلنگانہ‘ چھتیس گڑھ اور میزورم شامل ہیں۔ میزورم میں چناؤ 7 نومبر کوہوں گے جبکہ مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور تلنگانہ میں رائے دہی بالترتیب 17 ‘ 23اور 30 نومبر کو ہوگی۔ نکسلی سرگرمیوں سے متاثرہ ریاست چھتیس گڑھ میں چناؤ دو مرحلوں یعنی 7 اور 17نومبر کو منعقد ہوگا۔ جیسا کہ پہلے ہی خبر دی جاچکی ہے ووٹوں کی گنتی تین دسمبر کو ہوگی۔امید کی جانی چاہئے کہ رات تک مکمل نتائج سامنے آجائیں گے۔ کے سی آر کی ہیٹرک ہوگی یا نہیں اس کا بھی پتہ چل جائے گا۔
تلنگانہ کا چناؤ انتہائی دلچسپ رہے گا کیونکہ یہاں پر اصل مقابلہ برسر اقتدار بی آر ایس اور تیزی کے ساتھ عروج پر پہنچنے والی کانگریس کے درمیان ہوگا۔ دونوں ہی جماعتوں کے بیچ وعدوں کی جھڑی لگی ہوئی ہے جیسے چناؤ نہیں لڑا جارہا ہے بلکہ باون پتوں کی تاش کھیلی جارہی ہے۔ کانگریس نے کہا کہ وہ گیس سلنڈر پانچ سو میں مہیا کروائے گی تو بی آر ایس نے اپنے انتخابی منشور میں اعلان کیا کہ وہ اسی ایل پی جی کو 400 روپئے میں فراہم کروائے گی۔ دونوں ہی جماعتوں کے وعدوں میں غیر معمولی یکسانیت ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ نہ تو کانگریس نے اور نہ ہی بی آر ایس نے انتخابی منشور کی تیاری کے دوران کوئی ہوم ورک کیا ہے۔ جس کے جی میں جو آیا اعلان کرتا جارہا ہے۔ چناؤی مشنری اور پولیس کا محکمہ بے حد سرگرمی سے کام کررہا ہے روزانہ لاکھوں روپئے ضبط کئے جارہے ہیں تاکہ صاف ستھرے انتخاب کو یقینی بنایا جاسکے۔ راہول گاندھی ‘ پرینکا گاندھی اور چیف منسٹر کے سی آر کے جلسوں میں زبردست بھیڑ آرہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام تلنگانہ کے تیسرے عام چناؤ میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔ مختلف سروے رپورٹس یہ بتارہے ہیں کہ کانگریس کو قدرے بڑھت حاصل ہے۔ عام طورپر سروے غلط نہیں ہوتے لیکن بہرحال اسے صرف اندازہ ہی سمجھنا چاہئے۔ ایک مرحلے پر بھارتیہ جنتا پارٹی چناؤ کے میدان میں بہت مضبوط دکھائی دے رہی تھی لیکن اب وہ بات نہیں رہی۔ داخلی جھگڑے سب ہی پارٹیوں میں ہوتے ہیں لیکن ان سے بی جے پی بہت زیادہ متاثر دکھائی دے رہی ہے۔ بی آر ایس کے وعدوں پر عوام یقین اس لئے نہیں کررہے ہیں کہ پہلے اور دوسرے چناؤ میں کئے گئے کئی وعدے پایہ تکمیل کو نہیں پہنچے جبکہ کانگریس کے وعدوں پر عوام اس لئے یقین کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ کانگریس نے کرناٹک میں جو وعدے کئے تھے اس کو من و عن نبھا کر ثابت کردیا ہے کہ وہ ایک ایسی جماعت ہے جس کی کہنی اور کرنی میں فرق نہیں ہے۔ ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہیں کہ حیدرآباد پچھلے کئی برسوں سے امن کا گہوارہ بنا ہوا ہے۔ ورنہ یہ شہر اکثر و بیشتر کرفیو کی زد میں رہا ہے۔ اس صورتحال کا کریڈیٹ حکومت کو نہیں بلکہ دونوں شہروں کے عوام کو جاتا ہے جو فرقہ پرستی کی لعنت سے بیزار ہوگئے ہیں۔ شہر کے نوجوانوں کی اکثریت کوئی نہ کوئی معاشی سرگرمی سے وابستہ ہوچکی ہے اور وہ کسی بھی حالت میں ان بیکار جھگڑوں میں پڑنا نہیں چاہتی۔ امیدواروں کی فہرستوں کے اعلان کے بعد عام طورپر احتجاجی مظاہرے بڑے پیمانے پر دیکھنے کو ملتے تھے لیکن اس بار ایسا نہیں ہورہا ہے۔ گالی گلوج کی زبان بھی بہت کم سنائی دے رہی ہے جو ایک اچھی علامت ہے۔ قو می سطح پر ان پانچ اسمبلیوں سے متعلق جو اوپنین پولس سامنے آئے ہیں ان کے مطابق پانچوں ریاستوں میں کانگریس پارٹی کی جیت دکھائی گئی ہے۔ ایک آدھ سروے ہی میں راجستھان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح ذکر کیا گیا ہے۔ اگر سروے کانگریس کے حق میں دکھائی دیتے ہیں تو یہ ہندوستان کی کایا پلٹنے کے لئے ایک بہت بڑی جست کے طورپردیکھے جائیں گے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ اب کی بار بھارتیہ جنتا پارٹی کی ناکام سرکار سے لوگوں کو چھٹکارا ملے گا۔ ایسا ہونا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ملک کی جمہوریت کو مکمل طورپر بچایا جاسکے اور مسلسل ناکامیوں کا خاتمہ بھی ہوسکے۔

a3w
a3w