مضامین

پانی پر محبت کا پُل

مفتی عبدالمنعم فاروقی قاسمی

رسول اکرم ؐ کا ارشاد گرامی ہے: خیر الناس من ینفع الناس (کنز العمال؛۴۴۱۵۴) ”لوگوں میں بہترین شخص وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچانے والا ہے“،انسانیت کی بنیاد پر خدمت کرنا، کس کے آڑے وقت میں کام آنا اور ضرورت پر اپنا دست تعاون دراز کرنا اعلیٰ اخلاق کی علامت بلکہ اسلامی تعلیمات کا حصہ اور نبی ئ رحمت ؐ کی سنتوں میں عظیم سنت ہے، نبی ئ رحمت ؐ کی تعلیم ہے کہ جب تم میں سے کسی کو کسی ضرورت مند کی مدد کا موقع ملے یا کسی پریشان حال کی پریشانی دور کرنے کی سعادت میسر ہو یاپھر بھوکے کا پیٹ بھر نے کا موقع ہاتھ لگ جائے اور پیاسے کا خشک گلا تر کر نے کی خدمت مل جائے تو اسے خدا کی خوشنودی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اور اپنے لیے سعادت تصور کرتے ہوئے بڑی خوشی کے ساتھ اسے انجام دینا چاہیے اور اس موقع پر یہ نہ دیکھو کہ وہ کس علاقہ کا باشندہ ہے،کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور کس مذہب سے وابستہ ہے بلکہ صرف اور صرف انسانی بنیادوں پر اس کی اعانت ومدد کرنی چاہیے،نبی ئ رحمت ؐ نے ایسے شخص کے لئے اپنی خوشی،خدا کی خوشنودی اور جنت کی بشارت سنائی ہے جو انسانیت کی خدمت خدا کی خوشنودی کے لئے کرتا ہے،ارشاد فرمایا”جو شخص میری امت کے کسی فرد کی ضرورت پوری کرنے اور اس کو سہولت پہنچانے کے لیے دوڑ دھوپ کرے اور اس کا مقصد صرف یہ ہو کہ اس بندہئ خدا کو خوش کردے تو گویا اس نے مجھ کو خوش کیا،اور جس نے مجھ کو خوش کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا،اور جس نے اللہ تعالیٰ کو خوش کیا تو وہ اس کو(اس خدمت اور مخلوق کے ساتھ ہمدردی وخیر خواہی کے صلہ میں) جنت میں داخل کردیں گے“(شعب الایمان للبیہقی:۴۲۴۷)،ایک موقع پر نبی ئ رحمت ؐ نے مخلوق کی خدمت اور ضرورت مندوں کی مدد کو صدقہ قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ”ہر مسلمان کو صدقہ کرنا چاہئے،صحابہؓ نے عرض کیا کہ اگر ہمارے پاس صدقہ کرنے کے لئے مال نہ ہو تو کیا کریں؟ تو فرمایا:اپنے ہاتھوں سے محنت ومزدوری کریں اور اس سے خود بھی نفع اُٹھائیں اور اللہ کی راہ میں صدقہ بھی کریں،پھر صحابہ ؓ نے عرض کیا،اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کیا کریں؟ تو ارشاد فرمایا:فریاد لے کر آنے والے حاجت مند کی مدد کرے (بخاری:۱۳۵۳) اس حدیث میں نبی ئ رحمتؐ نے قیامت تک کے لئے پوری امت کو نہایت اہم بات کی ترغیب دی کہ جب کسی کی حاجت و ضرورت کا علم ہوجائے یا کوئی تمہارے پاس اپنی ضرورت لے کر آئے تو اس موقع پر ایمان کا تقاضہ یہ ہے کہ حسب استطاعت اس کی مدد کرے،اگربالفرض اسے دینے کے لئے تمہارے پاس کچھ بھی نہ ہو تو کم ازکم دلجوئی کی خاطر اس سے ہمدردانہ گفتگو ہی کر لے،یاد رکھیں کہ مصیبت زدہ کو صبر کی تلقین کرنا،بیمار کی عیادت کرنا،پریشان حال کو تسلی دینا اور راہ گیر کی مدد کرنا بھی صدقہ میں شامل ہے۔
مخلوق ِخدا کی خدمت اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت کی حامل اور سعادت مندی کا درجہ رکھتی ہے کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے ان کی ضرورت وحاجت کو اپنی ضرورت وحاجت سے تعبیر کیا ہے، جو مخلوق کی حاجت پوری کرتا ہے در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی حاجت پوری کرتا ہے،چنانچہ ایک حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن صاحب حیثیت اور ضرورت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھنے والوں سے مخاطب ہوکر فرمائے گا:اے آدم کے بیٹے!میں بیمار تھا تونے میری عیادت نہیں کی،وہ(بڑے تعجب سے) کہے گا میں کیسے آپ کی عیادت کرتا آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں،اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نہیں جانتا کہ فلاں بندہ بیمار تھا،اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا،پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا:اے آدم کے بیٹے! میں نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا تو نے مجھے کھلایا نہیں،وہ (متعجب ہوکر) کہے گا،اے میرے رب!میں کیسے آپ کو کھلاتا،حا لا ں کہ آپ تو ساری کائنات کے پروردگار ہیں،اللہ تعالیٰ فرمائے گا،کیا تو نہیں جانتا تھا کہ میرے فلاں بندہ نے تجھ سے کھانا طلب کیا تھا لیکن تونے اس کو نہیں کھلایا،کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اس کھانے کو میرے یہاں پاتا،اے ابن آدم!میں تجھ سے پانی مانگا تھا مگر تونے مجھے پانی نہیں پلایا،وہ کہے گا:اے پروردگار! میں کیسے آپ کو پانی پلاتا،حالانکہ آپ تو ساری کائنات کے رب ہیں،اللہ تعالیٰ فرمائے گا:میرے فلاں بندہ نے تجھ سے پانی مانگا تھا،لیکن تو نے اسے پانی نہیں پلایا،اگر تو اس کو پانی پلاتا تو اس پلائے ہوئے پانی کو میرے پاس پاتا“(مسلم:۴۶۶۱)اس حدیث سے حاجت مندوں کی خد مت اور ان کی ضروریات کی تکمیل کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،دنیا میں مخلوق خدا کی ضروریات پوری کرنے والا آخرت کی لازوال نعمتوں کا حق دار اور خدا کی خوشنودی کا مستحق قرار پائے گا۔
حاجت مند کی مدد اور پریشان حال کی اعانت آدمی کے لئے مشکل اور ناموافق حالات میں سہار ے کا کام دیتی ہے اور قیامت کے دن کی تکلیف اور پریشانی سے چھٹکارا دلاتی ہے،یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ نیکی نیکی کو ساتھ لاتی ہے اور بُرائی،بُرائی کی طرف گھسیٹتی ہے،نیک کام کی برکت سے مصیبتیں ٹل جاتی ہیں اور بُرے کام کی نحوست آدمی کو لے ڈوبتی ہے، بہت سے نیکی کے کام ایسے ہیں جنہیں معمولی سمجھ کر چھوڑ دیا جاتا ہے حالانکہ چھوٹی سی چھوٹی نیکی بھی اپنے اندر غیر معمولی اثر وتاثیر رکھتی ہے، نبی ئ رحمتؐ نے جہاں مطلق انسانیت کی خدمت کی طرف توجہ دلائی ہے وہیں بعض مواقع پر بعض انتہائی مستحق افراد کی خدمت کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کیا ہے،جیسے یتیم،بیوہ،کثیر العیال تنگ دست وغیرہ وغیرہ،ان کے علاوہ بعض لوگ وہ بھی ہیں جو مدد ونصرت کا زیادہ حق رکھتے ہیں،مثلا رشتے دار،عزیز واقارب وغیرہ،ایک موقع پرنبی ئ رحمت ؐ نے ارشاد فرمایا”بھوکوں کو کھانا کھلا ؤ،بیماروں کی عیادت کرو،اور قیدیوں کی رہائی دلانے کی کوشش کرو“( بخاری)،خود نبی ئ رحمت ؐ اعلان نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد دعوت وتبلیغ کی اہم ترین ذمہ داری ادا کرتے ہوئے بھی برابر انسانیت کی خدمت کا کام انجام دیا کرتے تھے،بھوکوں کو کھلانا،پیاسوں کو پلانا،مہمانوں کی میزبانی کرنا اور ضرورت مندوں کی مدد کرنا آپ ؐ کا محبوب ترین مشغلہ تھا،بلکہ آپ ؐ کی تربیت پانے والے حضر ات صحابہ ؓ بھی اس طرح انسانیت کی خدمت کرتے تھے اور خدمت خلق ان کی پہچان بن گئی تھی،ہم مسلمان اس نبی ؐ کی امت ہیں جس کی زندگی بندگان خدا کو خدا سے جوڑ نے اور مخلوق خدا کی خدمت میں صرف ہوئی اور ہم ان اصحاب رسول ؐ کے نام لیوا ہیں جنہوں نے ایثار،قربانی،ہمدردی اور خدمت کر کے مخدوم ملت کہلائے اور ہم ان بزرگوں کی طرف نسبت کو اپنے لئے سعادت سمجھتے ہیں جنہوں نے انسانیت کی خدمت کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کے دل جیتے اور اس کے ذریعہ لوگوں کے دلوں کو اسلام کی طرف مائل کیا، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانیت کی خدمت کر یں بلکہ روزانہ کچھ وقت نکال کر انسانیت کی خدمت میں صرف کریں اور اس عظیم سنت کو عمل میں لائیں،یقینا اس سنت کی برکت سے دل سے دل ملیں گے، اجنبیت کے فاصلے کم ہوں گے، نفرتیں دور ہوں گی، عداوتوں کی دیواریں منہدم ہوں گی اور آپسی محبت وپیار بڑھے گا،مسلمانوں کے متعلق غیروں میں اچھا تأثر قائم ہوگا، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق بد گمانیوں کا خاتمہ ہوگا۔
اس وقت ہمارے ملک کے مختلف حصوں میں اور بالخصوص تلنگانہ میں ماہ جون نصف گزرجانے کے باوجود موسم گرما عروج پر ہے، محکمہ موسمیات کی اطلاع کے مطابق ابھی چند روز تک شدید گرمی کے برقرار رہنے کا امکان ہے، سورج کے طلوع ہونے کے کچھ دیر بعد ہی سے گرمی کی شدت غیر معمولی بڑھتی جارہی ہے،جس کی وجہ سے ہر شخص بلکہ بے زبان جاندار تک پریشان اور گرمی سے نڈھال ہیں، بچے اور بڑے ہر ایک بلاضرورت باہر نکلنے سے گریز کر رہے ہیں،چلچلاتی دھوپ کو دیکھ کر ہی سر چکرانے لگ رہا ہے،لوگ دھوپ کی سختی سے بچنے کے لئے احتیاطی تدبیریں اختیار کرنے پر مجبور ہیں اور اسی میں اپنی عافیت محسوس کر رہے ہیں،گھر سے باہر نکلتے ہی گلا خشک ہوتا جارہا ہے، مارے پیاس کے لوگوں کا بُرا حال ہورہا ہے، لوگ ٹھنڈے مشروبات کی دکانوں کی طرف رخ کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے ٹھنڈے مشروبات کا کاروبار عروج پر ہے، ہر شخص کھانے سے زیادہ ٹھنڈے پانی پر توجہ دے رہا ہے، اگر چہ ٹھنڈا پانی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ایک ہے مگر اس وقت اس نعمت کا کچھ زیادہ ہی احساس ہونے لگا ہے، گرمی کی شدت سے سب سے زیادہ،بیمار،عمر رسیدہ، مسافر اور راہ گیر پریشان ہیں،بے ساختہ ان کی زبان پانی پانی کہہ رہی ہے،ایسے میں اگر کہیں ٹھنڈے پانی کے مشکیزے نظر آتے ہیں اور دور سے فری کول واٹر کیمپ کا بورڈ دکھائی دیتا ہے تو بے ساختہ ان کے قدم اس طرف دوڑ نے لگتے ہیں اور بے ساختہ ان کے ہاتھ گلاس کی طرف بڑھتے ہیں اور جیسے ٹھنڈا پانی ان کے حلق میں پہنچتا ہے اور رگیں تر ہوتی ہیں تو ان کی رگیں پلانے والے کا شکریہ ادا کرتی ہیں، خاص کر غریب،مفلس اور مزدور پیشہ لوگ جو ٹھنڈا پانی خرید کر پینے سے قاصر ہیں ان کے لئے تو یہ فری کول واٹر کیمپ بہت بڑی نعمت ہے،سخت دھوپ میں مزدوری کرتے ہوئے جب جسم پسینے میں شرابور ہوجاتا ہے، آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور حلق سوکھ جاتا ہے،ایسے میں کوئی ٹھنڈے پانی سے ان کی خدمت کرتا ہے تو اس موقع پر ان کی دلی خوشی مسرت اور اندرونی جذبات واحساسات کا اندازہ لگانا مشکل ہے،جو دعائیں ان کے دل سے نکلتی ہوں گی یقینا ٹھنڈا پانی پلانے والے کے لئے یہ بہت بڑا قیمتی سرمایہ ہے، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو انسانیت کی خدمت کا جذبہ رکھتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق لوگوں کی خدمت کرتے ہیں خاص کر موسم گرما میں ٹھنڈا پانی پلانے کی خدمت انجام دے کر لوگوں کی دعائیں حاصل کرتے ہیں اور اپنی نیکیوں کو بڑھاتے ہیں، یہ پانی پلاکر در حقیقت اپنے لئے سرمایہ آخرت تیار کر رہے ہیں۔

شہر ودیہات اور گاؤں وقصبات میں چوراہوں، بڑی سڑکوں، گلی کوچوں اورانسانی گزرگاہوں پر ہی نہیں بلکہ جانوروں کے گزرنے کے مقامات پر جب پانی پلانے کے انتظامات پر نظر پڑھتی ہے تو دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور بے ساختہ ان کے لئے دل سے دعائیں نکلتی ہیں،اس طرح کی خدمات انسانی بنیادوں پر ہر ایک کو کرنے کی ضرورت ہے مگر خصوصیت کے ساتھ اسلام کے ماننے والوں اس سلسلہ میں زیادہ آگے آنے کی ضرورت ہے کیونکہ اسلام ہی دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جس نے انسانی بنیادوں پر انسانوں کی خدمت کی طرف اپنے ماننے والوں کو توجہ دلائی ہے، جسے نبی ئ رحمت ؐ نے اپنے ماننے والوں کو نہ صرف یہ کہ اس کی تعلیم فرمائی ہے بلکہ خود پوری زندگی اس پر عمل کرتے رہے ہیں،بلاشبہ سیرت رسول اکرم ؐ کا ہر صفحہ اس بات کا گواہ ہے کہ آپ ؐ نبوت سے قبل اور نبوت کے بعد پوری زندگی انسانوں کی خدمت فرماتے رہے ہیں اور موقع بموقع اپنے صحابہ ؓ کو اس عمل پر اُبھارتے بھی رہے جس کا اثر یہ تھا کہ حضرات صحابہ ؓ بھی انسانوں کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے،ہر وقت اس بات کی کوشش کرتے تھے کہ ان کے ذریعہ کسی نہ کسی انسان کو نفع ہی پہنچیں، لیکن افسوس اور دکھ کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ بعض علاقوں میں اور بہت سے صاحب ثروت مسلمان بھی اس عظیم سنت اور پیاری خدمت سے غافل نظر آرہے ہیں، یہ لوگ فضولیات اور بے موقع مال ودولت تو پانی کی طرح بہانے کے لئے تیار ہیں لیکن جس جگہ خرچ کر نا چاہیے اور جہاں خرچ نے سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے اور اس کے بدلے میں انہیں سکون وچین کی دولت حاصل ہوتی ہے وہاں خرچ کرنے سے گریز کر تے ہیں بلکہ انہیں دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود اول درجہ کے مستحق ہیں، مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنائیں،ہر مسلم محلے اور بستی میں فلاحی ادارہ قائم کریں اور اس کے ذریعہ بلا لحاظ مذہب و ملت اورمسلک ومشرب صرف انسانی بنیادوں پر ضرورت مندوں کی خدمت انجام دیتے رہیں اور خاص کر موسم سرما ہو یا موسم بارش یا پھر موسم گرما ان کا لحاظ رکھتے ہوئے اس عظیم خدمت کو انجام دیتے رہیں،یہ مواقع نیکیوں کے حصول کا زرین موقع ہے اسے ہر گز ہاتھ سے جانے نہ دیں،اپنے اخراجات میں کچھ تخفیف کرتے ہوئے روپیہ بچاکر اس کام میں لگائیں،یا کم از کم جو فلاحی ادارہ اس کام کو انجام دے رہے ہیں، ان کا تعاون کریں، اس طرح کی خدمات جہاں ایک طرف اجر وثواب کا بہترین ذریعہ ہے وہیں اسلامی تعلیمات،اچھے اخلاق اور محبت و بھائی چارگی اور انسانیت کو پھیلانے کا نہایت خوبصورت انداز ہے،ہوسکتا ہے بلکہ قوی امید ہے کہ اس عمل کے ذریعہ آپسی دوریاں کم ہوں گی اور پیار ومحبت کے فاصلے قریب ہوں گے،نفرتوں کا تلسمی ٹوٹے گا اور محبتوں کے پل تعمیر ہوں گے اور خدا کی رحمتوں کا نزول ہوگا اور قیامت میں معافی نامہ ہمارے ہاتھ میں ہوگا،ان شاء اللہ۔