مضامین

پولیس ایکشن سے منی پور تک دراز ہوتا ہوا درندگی کا سلسلہ

محمد ضیاءالدین

بھارت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک اہنسا وادی دیش ہے یہاں کچھ مذاہب والے وہ بھی ہیں جو اپنے پیروں تلے کسی چیونٹی کا روندا جانا بھی پاپ سمجھتے ہیں۔ابھی ہمارے یہاں جی ۲۰ کانفرنس منعقد ہوئی، اس موقع پر دنیا کو یہ نوید سنائی گئی کہ بھارت وسودھیو کٹمب کو مانتا ہے یعنی کہ ساری دنیا ایک کنبہ ہے اور سب ہی افراد خاندان ہیں، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی ہیں جو گزشتہ پون صدی سے نظروں کے سامنے ہیں جو اوپر کی تمام باتوں کی نفی کرتے ہیں اور ان کی روشنی میں یہ ساری باتیں جھوٹ کے پلندے سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں کہ گزشتہ پچھتر برسوں کی تاریخ اس ملک کے فرقہ پرستوں کی جانب سے تشدد اور قتل و خون کے واقعات سے بھری ہوئی ہے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کہ منی پور کی دو خواتین کو ہجوم کی جانب سے برہنہ گھمائے جانے ان کی اجتماعی عصمت دری کیے جانے اور مدافعت کرنے والے ان کے گھر والوں کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کی خبریں ملک کی سرحدوں سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل کر ہمارے اہنساوادی ہونے کے دعوؤں کا منہ چڑارہی تھیں۔ آج کا دور میڈیا کا دور ہونے کے سبب یہ ظلم و زیادتی کے واقعات دنیا کے سامنے آرہے ہیں اور دنیا کمزوروں پر ہونے والے مظالم سے واقف ہورہی ہے جبکہ ماضی میں درندگی کے ایسے واقعات ہوئے جو دنیا کے سامنے نہ آسکے اورایسے ہی سانحات میں حیداباد دکن میں پولس ایکشن کے نام پر ہوے مظالم ہیں جس کے تین لاکھ سے زیادہ مظلوم شہیدوں کی بے بسی کی دنیا میں چرچا نہیں ہوئی اور آج جھوٹے پروپیگنڈے کے بل پر کشمیر فائلز، دی کیرلا اسٹوری جیسی بے بنیاد اور جھوٹ کا پلندہ فلمیں بنا کر جھوٹ کو پروسا جارہا ہے یہ اور بات ہے کہ دنیا نے ان کے اس جھوٹ کو ان کے منہ پر دے مارا ہے۔ 17ستمبر 1948کو ریاست حیدراباد کو اپنے قبضہ میں لینے کے لیے بھیجی گئی انڈین آرمی کے سائے میں فرقہ پرستوں نے جو خونی کھیل کھیلا ہے، اس کے خونچکا حقائق سے آج بھی دنیا ناواقف ہے۔ دنیا کا ایک ایسا بدترین سانحہ جس میں تین لاکھ سے زاید عام شہری فوج کی مدد سے بلالحاظ عمر و جنس نہایت بے دردی سے شہید کردیے گئے۔
درندگی کے وہ واقعات جس سے دنیا ناواقف رہی اس دور میں ملک کے وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے جب اس متاثرہ علاقے کا دورہ کیا تو اس خون ریزی کو دیکھ کر بے حد مغموم ہوئے اور ان کے استقبال کے لیے کانگریسیوں کے لاے گئے ہار پھول ان کے منہ پر پھینک مارے کہ اس ساری فتنہ گری میں یہی لوگ کارفرما تھے۔ اس سانحہ کی تحقیقات کے لیے پنڈت سندر لال کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی اور جب اس کمیٹی نے اپنی رپورٹ پیش کی تو سرکار اسے عام کرنے کی ہمت نہ کر سکی کیوں کہ یہ رپورٹ اتنی خوفناک تھی کہ اس کے منظر عام پر آنے پر حکومٹ کو ڈر تھا کہ بھارت دنیا کو منہ دکھانے کے لایق نہیں رہ جائے گا اور وہ سارے مظلوم اور ان کے لواحقین انصاف سے محروم ہی رہے۔ حقایق کو پیش کرنے کا دعویٰ کرنے والوں میں کیا اتنی ہمت ہے کہ وہ ان حقایق کو من وعن دنیا کے سامنے لائیں۔ کیا کوئی پولس ایکشن فائلز بنانے کی جرات کر سکتا ہے کہ جب سینکڑوں دیہاتوں میں قصبوں میں وہاں کے فرقہ پرستوں نے اطراف کے فرقہ پرست درندوں کو جمع کرکے ہجومی تشددکیا، وہ ماب لنچنگ جو آج کی ماب لنچنگ سے ہزار گنا زیادہ تھی وہ خونچکاں داستان جس نے ایک سماج کو عرش سے فرش پر لاکر پھینک دیا تھا۔ ایک ایسی تاریخ جس کا ہر ورق خون سے آلودہ ہے، وہ سینکڑوں خواتین جو اپنی ہی بستی والوں کی ہوس کا شکار ہوگئیں، وہ سینکڑوں جوان عورتیں جنھوں نے اپنی آبرو بچانے کے لیے کنوؤں میں کود کر جان دے دی، وہ سینکڑوں مرد جو جہاں فسادیوں کے ہتھے چڑھ گئے مار کر پھینک دیے گئے کہ ان کی لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہ رہا اور ان کی لاشیں جنگلوں کھیتوں میں لاوارث پڑی رہی پتہ نہیں اانھیں درندے کھا گئے یا ان کے ساتھ کیا ہوا صورت حال یہ تھی کہ
گھروں سے کھینچ کے کشتوں پہ کشتے ڈالے ہیں
گور ہے نہ کفن ہے نہ رونے والے ہیں
مراٹھواڑہ کے کئی بزرگوں نے بتایا ہے کہ ہر اس مقام پر جہاں مسلمانوں کی اچھی آبادی تھی، پوری بستی کے مسلمان مردوں کو ایک میدان میں جمع کیا جاتا تھا اور گھنٹوں ہاتھ اٹھاکر کھڑے رہنے پہ مجبور کیا جاتا، اس میں کسی بزرگ بیمار کی تخصیص نہ تھی جہاں کوئی کمزوری یا تھکاوٹ کے سبب گر جاتا ملٹری کے جواں رائفل کے کندوں سے مار کر کھڑا کرتے۔ کئی مقامات پر مسلم نوجوانوں کو قطار میں کھڑا کرکے گولی مار دی گئی۔ ایسا ہی ایک واقعہ پربھنی کے ایک مقام شیل گاؤں کے قاضی نوازالدین ریٹایرڈ ہیڈ ماسٹر (جو آ ج نوے سال کے ہیں) نے راقم کو بتایا تھا کہ پولیس ایکشن میں ان کی عمر دس بارہ سال تھی لیکن صحت مند ہونے کے سبب نوجوان نظر آتا تھا شیل گاوں میں ملٹری نے سارے گاوں کے جوان اور صحت مند لوگوں کو (مسلمانوں کو) ایک میدان میں جمع کیا چونکہ میں بھی بڑا نظرآتا تھا سو مجھے بھی دھر دبوچا اور اب فائرنگ شروع ہونے ہی والی تھی کہ گاوں کا ایک معزز برہمن دوڑتا ہوا آیا اور ملٹری آفسر کے سامنے کھڑا ہوکر بولا اگر گولی چلانی ہے تو پہلے مجھ پر چلاو اور یوں یہ معاملہ ٹل گیا۔
پولس ایکشن کی داستان کا ہر باب خونچکاں ہے جس کے ہر لفظ سے خون ٹپکتا ہے۔اس سانحہ کو آج پچھتر برس بیت گئے تاہم اس کی خونیں یادیں اور زہریلے اثرات آج بھی باقی ہیں۔ ایک بات تھی کہ مسلمان اس سانحہ کے بعد خوف و ہراس کے ماحول میں جی رہا تھا، معاشی بدحالی نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی، تاہم اس نے جو ہوا اس پر صبر کرلیا تھا اور اپنی پٹری سے اتری ہوئی گاڑی کو راستے پر لانے کی جدوجہد میں مصروف تھا، اس کے ایمان کی قوت اور استقلال نے اسے دوبارہ اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ عطا کیا تھا، لیکن ان کا یہ صبر و استقللال بھی یہاں کے برہمنوں اور منو وادیوں کو برداشت نہ ہو سکا، وہ ماحول کو کسی طور پرامن و پرسکون دیکھنا برداشت کرنے تیا ر نہیں تھے اور انھوں نے اس سانحہ کو جسے سبھی لوگ بھول گئے تھے دوبارہ زندہ کرنے اور مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے اسے مکتی سنگرام کا درجہ دلانے کے لیے واویلا شروع کردیا اور اس گڑے مردے کو اکھاڑنے میں لگ گئے۔ اس معاملے پر اورنگ آباد کے ایک ریٹائرڈ سپرنٹنڈنٹ انجینئر (مرحوم) ایم اے عزیز انجینئر نے اپنی کتاب پولیس ایکشن میں پیش کیا۔ مکتی سنگرام کی حقیقت کو انھوں اپنی کتاب کے باب؛ مکتی سنگرام ایک ڈھکوسلہ : میں وہ لکھتے ہیں کہ حیدرآباد میں مکتی سنگرام نام کی کوئی تحریک چلی ہی نہیں تھی۔ یہ کتاب 2006 میں لکھی گئی تب وہ لکھتے ہیں کہ آج سے چالیس سال قبل اگر کوئی آج کے مکتی سنگرام والوں جیسے دعوے کرتا تو لوگ اس پر ہنستے اور اسے شیخ چلی کے نام سے پکارتے لیکن چالیس سال بعد آنے والی ان کتابوں، مضامین اور تحریروں نے شیخ چلی کا ریکار توڑ دیا۔ وہ کہتے جیساکہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ ؛ لوگ اٹھو لاگ لے ران پیٹو لاگ لے: اس قسم کا جذبہ انقلاب تو ۱۹۱۷ کے انقلاب روس کے موقع پر بھی نہ تھا۔ ان کے مطابق اگر نظام اسٹیٹ کے ہندوؤں کا انقلاب بپا کر نا تھا تو اس کے لیے ان کا ریاست کی آبادی میں ۸۸ فی صد ہونا ہی کافی تھا۔ ان کو انڈین ملٹری یا باہر کے فرقہ پرست ہندووں کی مدد کی کوئی ضرورت نہ تھی وہ ملک کی آزادی کے تحریک چلانے والے کبھی بھی کسی سرٹیفکیٹ یا مراعات کے محتاج نہیں تھے یہ اور بات ہے کہ ان کو مراعات دینے کے لیے پارلیمنٹ میں قوانین بنے لیکن یہ مکتی سنگرام والے خود کو مجاہد آزادی کہلوانا چاہتے تھے اور اس کے لیے بار بار نمائندگیاں کر رہے تھے۔ ایم اے عزیز انجینئر لکھتے ہیں کہ اس مکتی سنگرام کو تحریک آزادی ماننے سے اس وقت کے مشہور لیڈر اور آزادی ہند کے لیے جیلوں میں اپنی زندگی گزارنے والے پنڈت جواہر لعل نہرو، سردار پٹیل، لال بہادر شاستری جیسے وزراے اعظم نے مکتی سنگرام کی دال آزادی کی ہنڈیا میں نہیں گلنے دی یہ کہہ کر بات کو ختم کردی کہ ریاست حیدرآباد کا معاملہ در اصل انڈین یونین میں شمولیت کا تھا۔ اسے تحریک آزادی نہیں کہا جا سکتا۔ سردار پٹیل جو اس وقت ملک کے ڈپٹی پرائم منسٹر اور وزیر داخلہ تھے، بقول نرہرکرندکر انھوں نے کہا کہ ہم نے مسلح آندولن کیسے کیا، اس کے بارے میں کانگریس کو کچھ نہیں کہنا چاہیے (یہی بات منی پور کے حالیہ واقعات پر بھی چسپاں کی جا سکتی ہے) ہم نے کیسے گولیاں چلائیں کیسے لوگوں کو نشانہ بنایا یہ باتیں اب بند ہونا چاہیے۔ اس طرح یہ مکتی سنگرام والے ان لیڈروں کی نظر میں مجاہد آزادی نہیں بلکہ مجرم تھے اور خود پر موجود الزامات کو کھل پر بیان کرنے سے قاصر اوران جرائم کے لیے پکڑے جانے سے خوف زدہ تھے۔ ۱۹۷۲ تک یہ مکتی سنگرام والے خوف زدہ تھے اور وہ آج کی طرح یہ کہنے کی پوزیشن میں نہ تھے کہ انھوں نے بم دھماکے کیے، پل اڑائے یا بینک کو لوٹا اور انھیں یہ خوف تھا کہ اپنے جرائم کے پھندے میں ان کی گردن کبھی بھی پھنس سکتی ہے اور وہ خود کو مجاہدین آزادی کہلواکر اس پھندے سے نکلنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اندرا گاندھی کو بھی منوانے کی کوشش کی لیکن اندرا گاندھی نے بھی اسے تحریک آزادی ماننے سے انکار کردیا تھا لیکن اس دور میں آندھرا کے وزیر اعلیٰ نرسمہا راؤ (جو خود بھی نام نہاد مکتی سنگرامی تھے) کے دور میں آندھرا کے کانگریسیوں نے اندرا گاندھی کو یہ کہہ کر بلیک میل کیا کہ اگر حیدرآباد تحریک کے سنگرامیوں کو مجاہد آزادی نہیں مانا گیا تو وہ آزادی کی سلور جوبلی تقریب کا بائیکاٹ کریں گے اور یوں وہ خود کے گلے میں مجاہد آزادی کا قلاوہ ڈالنے کے حقدار ہوگئے۔ اب یہ مجاہد آزادی کون اور کیسے تھے اور کیسے راتوں رات سینکڑوں مجاہدین آزادی پیدا ہوگئے یہ نہایت تفصیلی موضوع ہے اس پر پھر کبھی بات کریں گے۔
آج چونکہ فرقہ پرست قوتوں نے اقتدر حاصل کرلیا ہے اور وہ اختیار کی مالک ہیں وہ اپنے اختیار و اقتدار کا فائدہ اٹھا کر مکتی سنگرام کے موقع پر بے بنیاد کہانیاں سناکر مسلمانوں کی ہر طرح سے دل آزاری کرکے فضا ء میں زہر گھول رہے ہیں۔ اس پر کیا کہا جا سکتا ہے کہ یہ ان کا ایجنڈہ ہے، اس لیے ان کی ریشہ دوانیاں حیرت کی بات نہیں، لیکن سوال ہمارا اپنا ہے جو کچھ بھی ہو رہا ہے کیا اس کے لیے ہم ذمہ دار نہیں۔ کیوں ہماری قیادت نے پنڈت سندر لال کمیٹی کی رپورٹ کو عام کرنے کے لیے کوشش نہیں کی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا کو ان کے حقیقی چہرے بتاے جا سکتے تھے۔ اسی طرح جب مہاراشٹر میں مکتی سنگرام کا فتنہ شروع ہوا تھا تب مہاراشٹر کے مسلمانوں کی قیادت کے دعویدار مسلمانوں کے ایم ایل اے منہ میں مونگ ڈالے خاموش بیٹھے تھے۔ مسلمانوں کی ملی تنظیمیں مذہبی تنظیمیں سب ہی خاموش گویا کہ چپ شاہ کا روزہ رکھا ہو ان سب کا یہ حال تھا کہ
جب آیا وقت قیام ناداں سجدے میں گر گئے
ان کی اس غفلت بلکہ مجرمانہ غفلت کا شاخسانہ ہے جو آج ملت بھگت رہی ہے۔ آج پولیس ایکشن کے تذکرے کی ضرورت اس لیے ہے کہ یہ شاطر فرقہ پرست جو خود مجرم ہیں ہماری نئی نسل کو مجرموں کے کٹھرے میں کھڑا کرکے انھیں نفسیاتی طور پر سرنگوں کرنا چاہتی ہے۔ ایسے میں ہمارا فرض ہے کہ ہم حالات حاضرہ کا بغور جائزہ لیں اور کوئی لایحہ عمل مرتب کریں ۔
٭٭٭

a3w
a3w