مذہب

احرام کے آداب اور کچھ قیود و احکام

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو، تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے، سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیںگے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

مولانامحمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارو آزاد صحافی۔ Cell:9849099228

متعلقہ خبریں
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر
ماہِ رمضان کا تحفہ تقویٰ
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
بچوں پر آئی پیڈ کے اثرات

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ أَوْفُواْ بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَکُم بَہِیْمَۃُ الأَنْعَامِ إِلاَّ مَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّیْ الصَّیْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللّہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ (سورہ المائدہ، آیت۔۱)

’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو، تمہارے لئے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے، سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیںگے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العالمین جو ساری کائنات کے تنہا خالق و مالک ہے چار باتیں بیان فرماتا ہے۔

یعنی اہل ایمان ہونے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے، حلال جانوروں کی نشاندہی، احرام کی حالت میںکچھ پابندیاں، منع و عطا کا اختیار صرف اللہ ہی کو ہے۔(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو منع و عطا فرماتے ہیں یہ اللہ ہی کی طرف سے فرماتے ہیں)

اہل ایمان ہونے کے تقاضوں کو پورا کیا جائے

جب کوئی شخص دین رحمت، دین فطرت کو پسند و قبول کرتا ہے تو اس طرح یہ شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتا ہے جسے عرف عام میں مسلم یا مسلمان کہا جاتاہے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے مسلم بندوں کو صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اپنے کلام مجید کے ذریعہ ان کا ارتقاء چاہتے ہیں تا کہ اس کے یہ مسلم بندے اپنے اندر مومنانہ صفات پیدا کرسکیں۔ الغرض آیت مبارکہ کا آغازانتہائی بلیغ اندازمیں ہورہا ہے یعنی ابتدائی طور پر ایک ایسی بنیادی بات کہی گئی ہے جو کہ اہل ایمان کی پوری زندگی کا احاطہ کررہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرام کردہ چیزوں کو حرام جانو اور اس کی حلال کردہ اشیاء کو حلال جانو۔ مطلب یہ کہ اللہ کے احکام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے عین مطابق زندگی کے شب و روز گزاردو۔

حلال جانور کی نشاندہی

اس طرح آگے یہ ارشاد ہورہا ہے کہ مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کئے گئے یعنی گائے، اونٹ، بھیڑ،بکری اور جو ان کے مشابہ ہوں مثلاً ہرن، نیل گائے وغیرہ۔ پھر فرمایا گیا کہ سوائے ان کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیںگے اس طرح آگے کی آیات میں حرام کردہ جانور اور اس سے متعلق دیگر باتیں بیان ہوئی ہیں۔

احرام کی حالت میں کچھ پابندیاں

جس طرح رمضان المبارک میں ایک وقت متعین سے دوسرے وقت مقررتک کیلئے کھانا پینا یہاں تک کہ جائز خواہشات کی تکمیل کو تک منع کردیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح حالت احرام میں بھی حجاج کرام کیلئے کچھ پابندیاں عائد کی جارہی ہیں یعنی فرمایا جارہا ہے کہ حالت احرام میں شکار کو اپنے لئے حلال نہ کرلو لیکن اسی سورہ کی آیت 96میں سمندر کا شکار اور اس کا کھانا حلال قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہورہا ہے۔ ترجمہ : ’’تمہارے لئے (احرام کی حالت میں) سمندر کا شکار اور اس کاکھانا حلال کردیا گیا ہے جہاںتم ٹھہر و وہاں بھی اسے کھاسکتے ہو اور اس کا زاد راہ بھی لے سکتے ہو‘‘۔علاوہ ازیں احرام کی حالت میں کئی اور پابندیاں ہیں۔

سورہ البقرہ کی آیات 197 میں ارشاد ہورہا ہے۔

(ترجمہ): ’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہئے کہ حج کے دوران میں اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو اور جو نیک کام تم کروگے وہ اللہ کے علم میںہوگا۔ سفر حج کیلئے زاد راہ ساتھ لے جائو اور سب سے بہتر زاد راہ پر ہیزگاری ہے۔ پس ائے ہوش مندو! میری نافرمانی سے پرہیز کرو۔ آیت مذکورہ میں تین اہم باتیں بیان ہوئی ہیں۔

پہلا یہ کہ احرام کی حالت میں میاں بیوی کے شہوانی تعلق کو ممنوع قرار دیا گیا، یہاں تک کہ یہ آپس میں ایسی باتوں سے بھی اجتناب کریں جو شہوانی جذبات کو ابھارنے کا باعث بنتے ہوں۔ دوسری چیز یہ بیان ہوئی ہے کہ احرام کی حالت میںکسی بھی قسم کا کوئی برا فعل کوئی بد عملی ہونے نہ پائے۔ ویسے تو عام دنوں میں بھی اہل ایمان کو یہ حکم ہے کہ ہر قسم کے گناہ کے کاموں سے پر ہیز کیا جائے لیکن جب بندہ اللہ کے گھر (مکہ) پہنچتا ہے تو اسے چاہئے کہ اس عظیم الشان مقام کا پورا ادب و احترام کرے، یعنی وہاں پر اپنی زبان سے کوئی لغو بات نہ نکالے، کسی کے ساتھ بد کلامی سے پیش نہ آئے اور نہ ہی وہاں پر کسی کی غیبت کرے اور نہ ہی کسی آدمی میں عیب نکالے اور مناسک حج کی ادائیگی کے دوران کسی کو اذیت بھی نہ پہنچائیں بلکہ ہمدردانہ رویہ اپنائے رکھے۔ مختصر یہ کہ ہر ایسے اعمال سے پر ہیز کریں جو اللہ کوناراض کرتے ہوں اور ان تمام اعمال سے بھی اجتناب کریں جس سے خلق خدا کو کوفت ہوتی ہو اور لڑائی جھگڑے کی بات قطعی طور پر ہونے نہ پائے۔

’’زادِ راہ کی اہمیت‘‘

تیسری اور آخری اور بہت ہی بنیادی بات یہ بیان ہوئی ہے کہ سفر حج کیلئے زاد راہ ساتھ لے جائو اور سب سے بہتر زاد راہ پر ہیز گاری ہے۔ اس فقرے میں عازمین حج کیلئے دو اہم باتیں بیان ہوئی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ سفر حج کیلئے توشہ ساتھ رکھو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم بغیر توشے کے نکل پڑو اور بھوک پیاس کے موقع پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرو، کیونکہ یہ بات ایک بندے مومن کیلئے اللہ پسند نہیں فرماتے۔

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس سلسلہ میں یوں تحریر فرمایا ہے کہ۔ ’’جاہلیت کے زمانے میں حج کیلئے زاد راہ ساتھ لے کر نکلنے کو ایک دنیادارانہ فعل سمجھا جاتا تھا اور ایک مذہبی آدمی سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ خدا کے گھر کی طرف دنیا کا سامان لئے بغیر جائے گا۔ اس آیت میں ان کے اس غلط خیال کی تردید کی گئی ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ زاد راہ نہ لینا کوئی خوبی نہیں ہے۔

اصل خوبی خدا کا خوف اور اس کے احکام کی خلاف ورزی سے اجتناب اور زندگی کا پاکیزہ ہونا ہے۔ جو مسافر اپنے اخلاق درست نہیں رکھتا اور خدا سے بے خوف ہوکر برے اعمال کرتا، وہ اگر زاد راہ ساتھ نہ لے کر محض ظاہر میں فقیری کی نمائش کرتا ہے، تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ ذلیل ہوگا اور اپنے اس مذہبی کام کی بھی توہین کرے گا، جس کیلئے وہ سفر کررہا ہے لیکن اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہو اور اس کے اخلاق درست ہوں تو خدا کے ہاں بھی اس کی عزت ہوگی اور خلق بھی اس کا احترام کرے گی، چاہے اس کا توشہ دان کھانے سے بھرا ہوا ہو۔(حوالہ تفہیم القرآن، جلد اول، صفحہ 155تا156،حاشیہ217)

منع و عطا کا کل اختیار صرف اللہ ہی کو ہے

مضمون کے آغازمیں جو آیت مبارکہ پیش کی گئی ہے اس آیت مبارکہ کے ختم پر اللہ تعالیٰ یوں ارشاد فرمایا۔ ترجمانی۔ ’’بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے’’حلال جانوروں کا تذکرہ اور احرام کے متعلق احکام بیان کرنے کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حاکم اعلیٰ ہونے کا عظیم الشان اظہار فرما رہے ہیں۔ یعنی اللہ سارے جہاں کا مالک ہے اور اس کے بندے صرف اور صرف اسی کی ملکیت ہیں اور اللہ رب العالمین اپنے بندوں کو راہ راست پر لانے کیلئے جس طرح سے چاہے قوانین نازل کرتے ہیں اور یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی تمام نفسیات سے پوری طرح باخبر ہیں۔ اسی لئے اپنے بندوں کیلئے جو بھی قوانین نازل کرتے ہیں وہ انتہائی حکیمانا ہوتے ہیں جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب اطہر پر نازل ہوتے رہے تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اس پر عمل کرتے ہوئے فلاح آخرت کو پہنچ سکے۔

حاصل کلام

حج ایک ایسا بنیادی فریضہ ہے جس کے ادا کرنے سے بندے کے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتے ہیں یعنی وہ ایسا ہوجاتا ہے جیسے کہ اپنی ماں کے پیٹ سے ابھی پیدا ہوا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جبکہ آدمی پوری بندشوں کا لحاظ رکھتے ہوئے فریضہ حج کی ادائیگی کرے۔ یعنی اللہ نے حج سے متعلق جو جو احکام نازل فرمائے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ بتایا ہے اس کے عین مطابق عمل کیا جائے۔ اس میں نہ تو افراط ہو اور نہ ہی تفریط کی کیفیت پائی جائے۔
٭٭٭