پیار میں کوئی جہاد نہیں ہوتا: اسداویسی
اسدالدین اویسی نے سنسنی خیز شردھاوالکر قتل کیس کو مذہبی زاویہ دینے پر آج بی جے پی قائدین بشمول چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا سرما کو نشانہ تنقید بنایا اور کہا کہ یہ واقعہ لوجہاد سے تعلق نہیں رکھتا۔
نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسدالدین اویسی نے سنسنی خیز شردھاوالکر قتل کیس کو مذہبی زاویہ دینے پر آج بی جے پی قائدین بشمول چیف منسٹر آسام ہیمنت بسوا سرما کو نشانہ تنقید بنایا اور کہا کہ یہ واقعہ لوجہاد سے تعلق نہیں رکھتا۔
انہوں نے ’ایجنڈہ آج تک‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہیمنتا کو یہ بات سمجھنی چاہئے وہ ایک چیف منسٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیار، پیار ہوتا ہے اس میں کوئی جہاد نہیں ہوتا۔ لوجہاد کی اصطلاح انتہائی قابل نفرت اور قابل اعتراض ہے۔ وہ آسام میں نفرت پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
واضح رہے کہ سرما نے حال ہی میں دہلی کے بلدیاتی انتخابات کے دوران لوجہاد کے خلاف سخت قانون کا مطالبہ کیا تھا۔ انہوں نے مہرولی میں وحشیانہ قتل کا مسئلہ بھی اٹھایا تھا۔
واضح رہے کہ لوجہاد ایک ایسی اصطلاح ہے جو اکثر بی جے پی اور دائیں بازو کے ہندوقائدین کی جانب سے استعمال کی جاتی ہے تاکہ زبردستی یا دھوکہ سے غیرقانونی طور پر مذہبی تبدیلی کا حوالہ دیا جاسکے۔ اویسی نے’آج تک‘ کے پروگرام میں بتایا’میں نے بی جے پی لیڈروں سے کہا تھا کہ وہ لوجہاد کے بارے میں اعداد و شمار پیش کریں، لیکن انہوں نے پارلیمنٹ میں کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کئے‘۔
اویسی نے قبل ازیں کہا تھا کہ اس مسئلہ پر سیاست کرنا بالکل غلط ہے۔ یہ لوجہاد کا نہیں بلکہ ایک خاتون کے استحصال کا مسئلہ ہے۔ اسے اسی نظریہ سے دیکھا جانا چاہئے اور اس کی مذمت کی جانی چاہئے۔ اویسی نے گجرات اسمبلی انتخابات میں ووٹ کٹانے کے الزامات کی تردید کی اور کہا کہ بی جے پی کے جیتنے کی وجہ یہ ہے کہ اُسے زیادہ ہندو ووٹ مل رہے ہیں۔
اویسی نے کانگریس اور عام آدمی پارٹی کو نشانہ تنقید بنایا اور الزام عائد کیا کہ اب سیاسی لڑائی اس مسئلہ پر ہورہی ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی سے زیادہ بڑا ہندو کون ہے۔ اویسی نے کہا کہ بی جے پی اس لئے جیت رہی ہے کیونکہ اسے زیادہ ہندو ووٹ مل رہے ہیں۔
بی جے پی کبھی بھی تلنگانہ، حیدرآباد یا کیرالا جیسی ریاستوں میں نہیں آئے گی۔ بی جے پی کا واضح طور پر مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ عام آدمی پارٹی اور کانگریس بھی یہی کام کررہے ہیں۔ اویسی نے بلقیس بانو اور شاہ بانو کیس پر گورنر کیرالا عارف محمد خان کی خاموشی پر انہیں نشانہ تنقید بنایا۔ اویسی نے کہا کہ اگر گورنر خان میں ہمت ہے تو انہیں ذکیہ جعفری کے بارے میں بات کرنی چاہئے۔