"اظہار رائے کی آزادی کا مطلب دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں”: جسٹس راما سبرامنین
سیمنار میں جسٹس ڈاکٹر شمیم اختر (چیئرمین تلنگانہ انسانی حقوق کمیشن) نے کہا کہ عدلیہ انسانی حقوق کی محافظ ہے اور ججز دیانتداری اور غیر جانب داری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

حیدرآباد: چیئرمین قومی انسانی حقوق کمیشن و سابق جج سپریم کورٹ، جسٹس وی راما سبرامنین نے کہا کہ اظہارِ خیال کی آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کسی کے مذہبی یا شخصی جذبات کو ٹھیس پہنچائی جائے۔ وہ آج حیدرآباد کے میڈیا پلس آڈیٹوریم میں منعقدہ قومی سیمنار سے خطاب کر رہے تھے، جس کا موضوع تھا: "عدلیہ ہندوستان میں انسانی حقوق کی نگہبان – ایک جائزہ”۔ اس سیمنار کا اہتمام "جوڈیشیل کویسٹ میگزین” نے کیا۔
جسٹس راما سبرامنیان نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہندوستان ایک کثیر مذہبی، لسانی اور تہذیبی ملک ہے جہاں 140 کروڑ کی آبادی، 8 بڑے مذاہب، 22 سرکاری زبانیں، 4600 بولیاں اور 3600 ذاتیں اور طبقات موجود ہیں۔ ایسی تنوع سے بھرپور قوم میں ایک اصول ہر فرد کے لیے یکساں طور پر قابلِ قبول نہیں ہو سکتا، لیکن اس کے باوجود عدلیہ نے توازن برقرار رکھتے ہوئے انصاف کی فراہمی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہندوستانی قانون نہ صرف جینے کا بلکہ عزت و وقار کے ساتھ مرنے کا بھی حق دیتا ہے۔ عدالتیں نہ صرف انسانی حقوق کی محافظ ہیں بلکہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پولیس اور انتظامیہ کو ہدایت بھی دیتی ہیں۔
جسٹس راما سبرامنیان، جو متحدہ آندھرا پردیش کے بعد تلنگانہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں، نے کہا کہ اس سیمنار میں شرکت ان کے لیے گھر واپسی کے مترادف ہے۔ انہوں نے سیمنار کے کامیاب انعقاد پر جناب سید علی طاہر عابدی کو مبارکباد دی۔
سیمنار میں جسٹس ڈاکٹر شمیم اختر (چیئرمین تلنگانہ انسانی حقوق کمیشن) نے کہا کہ عدلیہ انسانی حقوق کی محافظ ہے اور ججز دیانتداری اور غیر جانب داری سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر ودیا دھر بھٹ، سابق رجسٹرار تلنگانہ ہائی کورٹ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی ایک قومی اثاثہ ہے۔ انہوں نے عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا تاکہ عام آدمی کو بروقت انصاف مل سکے۔
مسٹر آدیش اگروالا (صدر، بین الاقوامی عدالت انصاف) نے کہا کہ کورونا وبا کے دوران عدلیہ نے انصاف کے دروازے بند نہیں کیے، بلکہ مسلسل خدمات انجام دیتی رہی۔
جناب سید علی طاہر عابدی نے اپنے خیرمقدمی خطاب میں کہا کہ انسانی حقوق کی پامالی اور ان کے تحفظ سے متعلق سیمنار رہنمائی فراہم کرے گا۔ انہوں نے اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمودآباد کی اظہار خیال پر گرفتاری اور چیئرمین انسانی حقوق کمیشن کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہی واقعہ سیمنار کے انعقاد کا محرک بنا۔
آخر میں جوڈیشیل کویسٹ میگزین کی جانب سے مہمانوں کو مومنٹوز پیش کیے گئے۔ سیمنار کے انتظامات سید عظمت جعفری نے انجام دیے جبکہ شکریہ کی رسم سید خالد شہباز نے ادا کی۔