حمید عادل
ہم خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے کہ پھول بانو نے ہمیں کچھ اس طرح جھنجھوڑا کہ ہم بدک کر اٹھ بیٹھے … ’’آپ یہاں گھوڑے بیچ کر سورہے ہیں اور گھر میں پیازکی ایک ڈلی نہیں ہے …‘‘ لہجے میں شدید برہمی تھی۔ہم من ہی من بڑبڑائے ’’معمولی پیاز کے لیے ہماری سونے جیسی نیندخراب کردی۔‘‘ ’’ کچھ کہا آپ نے ؟‘‘پھول بانو نے سوال داغا… ’’ کچھ سنا تم نے ؟‘‘ہم نے گھبرا کرسوال دے مارا ’’ نہیں! لیکن مجھے محسوس ہوا، جیسے آپ من ہی من کچھ بڑبڑارہے ہیں ۔‘‘ہماری سانسیں کچھ دیر کے لیے تھم سی گئیں یہ سوچ کر کہ کیا اب ہماری سوچ پر بھی پھول بانو کی حکمرانی ہوگئی ہے …ہم اسی سوچ میں غلطاں و پیچاں تھے کہ وہ چہک اٹھیں ’’ شکر مانیے کہ ہمارے ہاں سو روپئے میں چار پانچ کلو پیاز دستیاب ہے، پچھلے دنوں فلپائن میں تو پیاز خود کرنسی بن گئی …‘‘ حالت حاضرہ پرپھول بانو کی غیر معمولی نظر کو ہم نظر انداز نہ کرسکے …
دوستو!فلپائن ایک ایسا ملک بن چکا ہے، جہاں پیاز کی قیمت گوشت سے تقریبا تین گنا زیادہ ہے … جہاں ایک کلو پیاز کی قیمت جاریہ سال جنوری میں تقریباً 900روپئے تک پہنچ گئی تھی اوروہاں ہنوز پیاز کی مہنگائی برقرار ہے۔ان ہی حالات کے پیش نظرفروری کے اوائل میں فلپائن کے ریٹیل اسٹور نے اعلان کیا تھاکہ وہ ایک دن کے لیے پیاز کو بطور ’’کرنسی‘‘ استعمال کرے گا۔ اس طرح لوگوں نے بڑی تعداد میں شریک ہوکر ایک پیاز کے بدلے دی جانے والی اشیا خریدیں۔
فلپائن میں پیاز کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے باعث ایک جوڑے نے اپنی شادی کی تقریب میں گل دستہ کی بجائے ’’ پیاز دستہ‘‘ اٹھانے کا فیصلہ کرلیا۔ دلہن لیکا پوری نوبس نے کہا کہ شروع میں ہم پھول لے جانے کی مقامی روایت پر قائم تھے لیکن جب میں سوشل میڈیا پر سکرول کر رہی تھی تو میں نے پھولوں جیسا دکھائی دینے والے پیاز کا ایک دستہ دیکھا اور میں نے اپنے دولہے سے مشورہ کیا کہ کیا ہم پھول کے بجائے پیاز استعمال کر سکتے ہیں؟ کیوںکہ شادی کے بعد پھول مرجھا جاتے ہیں اور بہت جلد پھینک دیے جاتے ہیں۔جبکہ گل دستے کے بجائے پیاز دستے کا استعمال اتنا عملی ہے کہ اسے شادی کے بعد بھی استعمال کیا جا سکتا ہے..‘‘دلہن کی بات دلہے راجہ کو بہت پسند آئی اور ’’ پیاز دستہ‘‘ ،’’ گل دستے‘‘ کو مات دے گیا…
2013ء میں جب ہمارے ہاں پیاز کی قیمتیں آسمان کو چھورہی تھیں،تب مختلف لطیفوں کے ذریعے پیاز کی مہنگائی کو بھلانے کی کوشش کی گئی تھی … اس وقت کئی لطیفہ نما خبریں اور خبریں نما لطیفے وجودمیں آئے تھے، ایک سرخی کچھ یوں لگائی گئی تھی ’’ چوروں نے جنوبی شہر کے پوش علاقے کے ایک اپارٹمنٹ سے پانچ کلو پیاز چرالی! ‘‘… جنوبی کولکتہ کے امر ساڑی اسٹور نے دوہری خوشخبری سنائی تھی، اُن کی آفر تھی کہ آپ پانچ سو روپے سے زیادہ قیمت کی ساڑی خریدیں اور ساتھ ہی ایک کلو پیاز مفت لے جائیں۔ اسی طرح جمشید پور میں گاڑیوں کے ٹائرز فروخت کرنے والے نے بھی آفر دے ڈالی تھی کہ اُن سے ایک ٹرک کا ٹائر خریدیے اور پائیے پانچ کلو پیاز کا تحفہ بالکل مفت… جبکہ کار کے دو ریڈیل ٹائر کی خریداری پر ملے گی ایک کلو پیاز۔سلمان خان کی ’’ دبنگ‘‘ کی ایک پوسٹ پر تحریر تھا ’’تھپڑ سے ڈر نہیں لگتا صاحب، ’’پیاز‘‘ سے لگتا ہے۔‘‘ ایک اور پوسٹ جو انٹرنیٹ پر پھیلی تھی، وہ یہ تھی کہ ’’وہ بھی عجیب وقت ہوگا، جب اونین رِنگ، ڈائمنڈ رنگ سے قیمتی ہوجائے گی۔‘‘ایک کارٹون بھی بہت ہٹ ہوا تھا، جس میں دکھایا گیا ہے کہ دو درمیانی عمر کی خواتین اپنی بیٹیوں کے لیے مناسب لڑکا تلاش کررہی ہیں، اور آخر کار وہ اس کو اپنا داماد چن لیتی ہیں، جو ایک کلو پیاز خرید سکتا ہے۔فیس بک پریہ پوسٹ بھی بہت مشہور ہوئی تھی کہ: ’’صرف دو قسم کے ہندوستانی پائے جاتے ہیں، ایک وہ جو پیاز خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں، دوسرے وہ جو پیاز نہیں خرید سکتے۔‘‘فیس بک پر یہ لطیفہ بھی گردش کررہا تھا کہ ’’ہندوستان کے کرپٹ سیاستدان اب سوئس بنک اکاؤنٹس میں رقم کے بجائے پیاز کی بوریاں جمع کروارہے ہیں۔‘‘
2018ء میں جب ترکی میںپیاز کا بحران ہوا تو عوام کے ساتھ سیاست دانوں نے بھی سوشل میڈیا پر طنزیہ پوسٹ کرنا شروع کردیں…ترکی میں حزب مخالف جماعت رپبلکن جماعت کے رہنما کمال کلغولو نے از راہ مذاق کہا تھا ’’ پیاز کو رونے نہ دیں۔‘‘ جب کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے متنبہ کیا تھا کہ’’ دیگر سبزیوں کے علاوہ پیاز ذخیرہ کرنے والوں کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔‘‘اس پر گڈ پارٹی کی رہنما مرال آکسنر نے شگوفہ چھوڑا تھا ’’’اردوغان نے پیاز کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔‘‘
ہندوستان میں پیاز پرخوب سیاست ہوتی ہے، حتیٰ کہ حکومتیں گر جاتی ہیں…اگرپیاز کچن کے اندر آنسو بہانے پر مجبور کر تی ہے تو سیاست دانوں کے پسینے بھی چھڑا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔سنتے ہیں کہ ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کی حکومت پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو نہ پا سکی، جس کا اندرا گاندھی نے خوب فائدہ اٹھایا اور 1980 میں انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار دوبارہ حاصل کر لیا۔1977ء میں ایک بار اٹل بہاری واجپائی پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمت کے خلاف احتجاج میں اس کی مالا پہن کر پارلیمنٹ گئے تھے، اس کے بعد سے پیاز دو تین حکومتیں گرا چکی ہے…کہنے کا مطلب یہ کہ پیاز نے سیاست دانوں کو تک رونے پر مجبور کیا ہے…
ٹماٹر اور کھیرے کے بعد پیاز دنیا کی تیسری سب سے زیادہ کھائی جانے والی سبزی ہے … قدیم زمانے سے، پیاز کی دو سو سے زیادہ اقسام پورے یوریشیا میں اُگ رہی ہیں… پرانے لوگ بیماریوں اور تکالیف کے علاج کے لیے اپنے پاس دستیاب قدرتی مواد اور اشیاء پر انحصار کرتے تھے، یہ وہ دور تھا جب دوائیں ایجاد نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود وہ لوگ اچھی صحت اور بیماریوں سے لڑنے کے لیے بہترین قوت مدافعت کے حامل ہوا کرتے تھے۔آج کے جدید دور میں ہم کوئی بھی درد یا کسی بیماری کی علامت محسوس کرتے ہیں تو فورا ڈاکٹر کا رخ کرتے ہیں اور دوائیں کھانا شروع کر دیتے ہیں…ہم اس دور کو اور اس دور کے لوگوں کو فراموش کربیٹھے ہیں جوگھریلو ٹوٹکوں کے ذریعے اپنا علاج خود کرلیا کرتے تھے …آج بھی گھروں میں دستیاب پھل، سبزیاں، جڑی بوٹیاں اور مصالحہ جات بہت سی بیماریوں اور تکالیف کے لیے شفا کے خزانے کی حیثیت رکھتے ہیں، ان ہی میں ایک بے مثال خزانہ پیاز بھی ہے۔
’’سو پیاز اور سو جوتے‘‘معروف محاورہ ہے اور اس محاورے کے پیچھے ایک کہانی چھپی ہے …اور کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک بادشاہ اپنے ایک وزیر سے ناراض ہو گیا اور اسے سزا دینے پر تل گیا۔ کسی نے اس کی دیرینہ وفاداری یاد کراتے ہوئے معافی کی درخواست کی۔ بادشاہ نے کمال سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی وفاداری کے صلے میں اس کے سامنے دو چوائس رکھ دیں، جو چاہے خود انتخاب کر لے۔ یعنی یا تو سر عام سو جوتے کھائے یا پھر سو پیاز کھائے۔ سر عام جوتے کھانے میں وزیر صاحب کو سبکی محسوس ہوئی، فوری کہا میں سو پیاز کھانے کو تیار ہوں۔
چنانچہ وزیر کے آگے پیاز کا ٹوکرا رکھ دیا گیا۔ اب جناب نے پیاز کھانا شروع کر دی۔ ابھی چند ایک پیاز ہی کھائے ہوں گے۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے بلکہ دم گھٹتا محسوس ہونے لگا۔ مزید پیاز کھانا جان نکلنے کے مترادف ہو گیا۔ چیخنے لگے’’ میں سو جوتے کھانے کو تیار ہوں۔ ‘‘پھر وزیر صاحب کو جوتے لگنا شروع ہوئے۔ ابھی گنتی درجن تک پہنچی ہو گی کہ مر گیا، مر گیا کی دہائیاں دینے لگے… سزا دینے والا ہاتھ رکوایا اور گڑگڑا کر فریاد کی…میں پیاز کھانے کو تیار ہوں۔ دوبارہ سے پیاز وزیرکے سامنے لائی گئی۔ ابھی دو چار پیاز ہی کھاپائے تھے کہ پھر واویلا شروع کر دیا کہ یہ نا ممکن ہے، میں جوتے کھانے کو تیار ہوں۔ سارا دربار تماشا ملاحظہ کرتا رہا۔ وزیرباری باری پیاز اور جوتے کھاتا رہا۔ آخر کار جب سزا مکمل ہوئی تو موصوف ’’سو پیاز کے ساتھ سو جوتے ‘‘بھی کھا چکے تھے۔
موصوف کو جوتے کھانے سے توکچھ حاصل نہ ہوا البتہ پیاز کھانے کا انہیں ضرور فائدہ ملا ہوگا…یہ پیاز کا جادو نہیں تو اور کیا ہے کہ پیاز کے نام سے ایک ایسی ہستی شہرت پاگئی جوجلال الدین اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک رتن تھی۔ بھلے ہی یہ داستاں فرضی ہو، لیکن کہتے ہیں کہ ملا دو پیازہ کا اصلی نام ابوالحسن تھا، لیکن ان کی دینداری کو ملحوظ رکھتے ہوئے سب انہیں ملّا کہا کرتے تھے،ایک روز ملاّ جی ایک امیر کے ہاں دعوت پر گئے،وہاں ان کو ایک قسم کا کھانا بہت پسند آیاجو شخص ان کے برابر میں دسترخوان پر بیٹھا تھا اس سے دریافت کیا کہ اس کھانے کا نام کیا ہے؟ جواب ملا: اسے’’ دو پیازہ ‘‘کہتے ہیںکہ اس میں پکاتے وقت دو بار پیاز ڈالی جاتی ہے۔ ملاّ جی اس نام سے بہت خوش ہوئے اور یاد کر لیا بلکہ عہد کر لیا کہ جب تک دوپیازہ دسترخوان پر نہ ہوگا وہ کسی کی ضیافت قبول نہ کریں گے۔ ملاّ جی کی یہ معصوم اور البیلی ادا بھی لوگوں کو بہت پسند آئی، پس لوگوں نے ملاّ جی کی دو پیازہ سے یہ رغبت دیکھ کر ان کا نام ہی ’’ملاّ دو پیازہ‘‘ رکھ دیا اور یہی نام وجہ شہرت بنا…یہ بھی ایک طرح سے پیاز ہی کا کرشمہ ہے …
پیاز ایک ایسی جادوائی سبزی ہے کہ اس کے بغیر سالن کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا…پیاز صرف کھانے میں ذائقے کے لیے ہی نہیںبلکہ سالن کی مقدار بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتی ہے۔پیاز سے غیر معمولی محبت کا یہ عالم ہے کہ لوگ اسے سالن میں شامل کرنے کے لیے رونا تک خوشی خوشی گوارا کرلیتے ہیں ….قصہ مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں پیاز کی بڑی اہمیت ہے ،اتنی اہمیت کہ زندگی سے بھلے ہی پیار ختم ہوجائے، ہمیں اس کی فکر نہیں ہوتی لیکن ایک اضافی نکتے والی ’’پیاز‘‘ ختم ہوجائے توواویلا مچ جاتا ہے …لگتا ہے پیاز میں کہیں نہ کہیں ’’ پیار‘‘ بھی چھپا ہے ، ایسے کئی فلمی نغمے ہیں،جن میں لفظ ’’ پیار‘‘ شامل ہے اور اگر ان نغموں کے مکھڑوں کو ’’ پیاز‘‘ سے بدل دیا جائے تو ان کی خوبصورتی میں کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ پیاز کے تڑکے کے بعد وہ نغمے اور بھی مزہ دیتے ہیں …مثال کے طورپر…
’’پیاز‘‘ تو ہونا ہی تھا…
مجھے ’’ پیاز‘‘ کی زندگی دینے والے،کبھی غم نہ دینا خوشی دینے والے
’’پیاز‘‘ بنا چین کہاں رے
۰۰۰٭٭٭۰۰۰