سیاستمضامین

مونومانیسر‘ خونخوار ’’گؤرکشا‘‘ اور نفرت کی سیاست

پریہ درشن

ایسا لگتا ہے جیسے ہمیں بار بار ایک ہی خبر لکھنے کی بددعا ملی ہو۔ سال در سال بری خبریں اور بری ہو کر سامنے آجاتی ہیں۔ بھرت پور کے دو افراد جنید اور ناصر کے قتل کے معاملے میں جس طرح کے حقائق سامنے آرہے ہیں وہ بے حد تکلیف دہ ہیں اور بتاتے ہیں کہ ہمارا نظام جس طرح مجرمین کے ساتھ ہی مل کر کام کرتا ہے۔ گزشتہ منگل کو جنید اور ناصر اپنی بولیرو سے بھرت پور سے روانہ ہوئے۔ چہارشنبہ کو لوٹتے وقت انہیں اغوا کرلیا گیا۔ نوح میں انہیں شدید زدوکوب کیا گیا اور پھر پیٹنے والے انہیں لے کر پولیس اسٹیشن گئے کہ ان کو گائے کے اسمگلرس ہونے کے الزام میں گرفتار کیا جائے۔ یہ معاملہ ہریانہ کے فیروز پور جھرکا پولیس اسٹیشن کاہے۔ پولیس اسٹیشن والوں نے بری طرح لہولہان ان دو افراد کو دیکھ کر کہا کہ انہیں واپس لے جائو، اس حال میں انہیں نہیں رکھا جاسکتا۔ کچھ دیر بعد دونوں کی موت ہوگئی۔ اس کے بعد لاشوں کو ٹھکانے لگنے کے لیے انہیں بھیوانی لے جاکر ان کی گاڑی سمیت جلادیا گیا۔ گاڑی کے چیسس نمبر سے پہلے گاڑی کی او رپھر ان دونوںکی شناخت ہوسکی۔
یہاں پر کچھ دیر رکنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔ فیروز پور جھرکا پولیس اسٹیشن کے پولیس اہلکاروں کو کیا کرنا چاہیے؟ قانون کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے وہ ان زخمی افراد کو لانے والوں کو گرفتار کرتے کہ یہ گائے کے اسمگلرس ہو ںیا کچھ او ر،انہیں اتنی بری طرح سے پیٹنے کا حق تمہیں کس نے دیا؟ وہ متاثرین کو اسپتال پہنچانے کا انتظام کرتے لیکن انہوںنے ایسا کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے بس سب کو نکل جانے دیا۔ کیا پولیس نظام کو ایسے کام کرنا چاہیے؟ ان مجرمین کو یہ حوصلہ کیسے ملا کہ وہ خود پولیس اسٹیشن پہنچ کر ان نیم مردہ لوگوں کے خلاف ایف آئی آرر درج کرنے کو کہنے لگیں؟
ان سوالوں کے جواب اب سامنے آرہی نئی معلومات میں ہیں۔ ہریانہ پولیس کا ریکارڈ بتاتا ہے کہ جنید اور ناصر کے قتل اور ان کی لاش کو جلاڈالنے کے ملزمین کے دراصل ہریانہ پولیس سے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ وہ گئورکشک (محافظ ِ گائے) کے کردار میں پولیس کے لیے ’’جاسوس‘‘ کا کام کرتے رہے ہیں اور مبینہ گائے کے اسمگلرس کے خلاف کیس درج کرواتے رہے ہیں۔ وہ پولیس کے اپنے آدمی ہیں جن سے اس بار یہ واردات ہوئی کہ ان کی پٹائی کی وجہ سے دو افراد کی موت ہوگئی۔ ورنہ اس بار بھی وہ مخبر بنے رہتے اور گورکشا کے کام میں لگے رہتے۔
سوال ہے یہ کون لوگ ہیں؟ پولیس ان پر اتنی مہربان کیو ںہے؟ جنید اور ناصر کے خاندان نے جن پانچ افراد کے نام دیے ہیں ان میں سب سے اہم مونومانیسر ہے جو بجرنگ دل کا ضلع صدر ہے۔ اسے میڈیا میں ہریانہ میں گورکشا کی مہم کا چہرہ بتایا جارہا ہے۔ یہ بھی بات سامنے آرہی ہے کہ وہ ہریانہ حکومت کی گورکشا ٹاسک فورس میں بھی رہ چکا ہے۔
مونومانیسر فی الحال فرار ہے۔ ممکن ہے کچھ دن میں اس کی گرفتاری ہوجائے کیوںکہ معاملے اب اتنا سرخیوں میں آچکا ہے کہ فی الحال اسے بچانا ممکن نہیں ہے۔ لیکن کہنا مشکل ہے اس کے خلاف کیا معاملہ بنے گا۔ ابھی ہی یہ بات سامنے آرہی ہے کہ وہ اغوا میں شامل نہیں تھا، اغواکاروں کی مدد ہی کررہا تھا۔
مگر سوال ناصر جنید کے قتل اور اس کے ملزمین کا نہیں ہے۔ یہ اس پریشان کن رجحان کا ہے جو گزشتہ کچھ سالوں میں مضبوط ہوا ہے اور جسے حکومت کا تحفظ حاصل ہے۔ گائے کی خدمت یا گائے کی حفاظت کے نام پر ایک لاقانون ہجوم کو منظم اور حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ گایوں کی اسمگلنگ پر نظر رکھے۔ گائے لے جانے والی گاڑیو ںکو روکنے کے لیے رکارٹیں کھڑی کرے، خود ایسے لوگوں کو پکڑے اور پھر انہیں پولیس کے حوالے کرے۔
پولیس ان گئورکشکوں کو اعزاز سے بھی نواز تی ہے۔ ان سب کے درمیان یہ بات گُم ہوجاتی ہے کہ گائے کی اسمگلنگ روکنے کے نام پر کن لوگوں کو کس کس طرح ہراساں کیا جارہا ہے۔ جب کوئی ناصر یا جنید مارا جاتا ہے اور میڈیا میں خبر اچھلتی ہے تو پھر تحقیقات شروع ہوجاتی ہے۔
اب اس بات کو دہرانے کا فائدہ بھی نہیں لگتا کہ ایسے گائے کے محافظوں کی حقیقی فکر گایوں کی حفاظت نہیں ہے کچھ اور ہے۔ ورنہ ہماری گوشالائوں کی جو حالت ہے، سڑک پر بھٹکتی گایوں کی جو حالت ہے وہ ایسی نہ ہوتی۔ ان کے لیے بہتر انتظام ہوتا، گوسیوک اتنے جارح اور پُرتشدد نہ ہوتے وہ شاید شائستہ اور محنتی ہوتے۔
لیکن دراصل گئورکشا کے نام پر یہ حد سے زیادہ فعالیت اس بڑے ایجنڈے اور تشہیر کا ہی حصہ ہے جسے اس ملک میں اقلیتوں کو ایک خاص رنگ میں رنگتے ہوئے انجام دیا جارہاہے۔ یہ اکثریت پسندی کی نفرت کی سیاست کا ہی ایک پہلو ہے جس کا پیغام صاف ہے کہ یہ ملک بس اکثیرتی ہندوئوں کا ہے، باقی فرقے یہاں رہ سکتے ہیں، لیکن ہندوتو ا پرست سیاست کے مقررہ پیمانوں پر کھرا اترتے ہوئے، ان کی نظر میں اچھی اقلیت بن کر جیتے ہوئے۔ وہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ نہیں کرسکتے ، وہ قومی شہریت رجسٹر کو غلط نہیں بتاسکتے، وہ تین طلاق میں قانونی دخل کی مخالفت نہیں کرسکتے، وہ گائے کے خاندان کی خرید و فروخت نہیں کرسکتے، وہ کشمیر کے حالات پر کچھ نہیں بول سکتے، وہ حکومت اور وزیراعظم کی مخالفت میں کچھ کہہ نہیں سکتے۔ ایسا کرنے پر کہیں انہیں فسادیوں کی طرح جیل میں ڈالا جاسکتا ہے، کہیں پیٹ پیٹ کر مارا جاسکتا ہے۔ او ریہ سب کرتے ہوئے ہم اپنی فراخدلی اور نظم و ضبط دونوں کی پیٹھ تھپتھپاسکتے ہیں۔
نوے کی دہائی میں جب اڈیشہ میں بجرنگ دل کے ایک لیڈر دارا سنگھ نے ایک جیپ میں ایک پادری گراہم اسٹینس کو اس کے بچوںسمیت جلادیا تھا تو اس سے ایک قومی برہمی پیدا ہوئی ہے۔ سب نے اس کی مذمت کی۔ سب کی آنکھیں کچھ شرم، کچھ ندامت اور کچھ افسوس سے جھکی رہیں۔ لیکن اب ہماری عام زندگی میں یہ افسوس بھی جیسے باقی نہیںہے۔ ہم قاتلوں کی حمایت میں تقریب منعقد کرسکتے ہیں، ان کی گلپوشی کرسکتے ہیں ، تحقیقات ہونے تک ان کی بے گناہی کی دلیل والے بیانات جاری کرسکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں ایسے چھوٹے موٹے واقعات ہوتے ہیں، اس سے ملک کو بدنام نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بدلا ہوا ہندوستان ہے جسے روز اس کا میڈیا کچھ اور بدل رہا ہے۔ شاید ہم آہستہ آہستہ چیزوں کو بہت دور سے اور بہت عام لینس سے دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ پاس آکر دیکھیں تو المیہ کا اصلی چہرہ نظر آتا ہے۔ جنید اور ناصر 25اور 35برس کے تھے۔ ایک پوری عمر ان کے سامنے تھی۔ ایک پورا خاندان ان کے ساتھ تھا۔ وہ اس ملک کے شہری تھے اور شہریو ںوالے سارے حق انہیں حاصل ہونے چاہیے تھے۔ لیکن یہ شاید ان کی اقلیتی شناخت تھی جو ان برسوں میں مشتبہ بنادی گئی ہے جو ان کے پکڑے اور پیٹے او رنہ بچائے جانے کی وجہ بنی۔
گئورکشکوں اور پولیس اور حکومت کے تحفظ میں بنے ایک نظام نے نہ جیتے جی ان کی شہریت کا احترام کیا او رنہ مرنے کے بعد وہ ان کا انصاف انہیں دینے کو تیار ہے، لیکن ایسا کرکے ہم بس کسی ایک فرقے کو نہیں اس پورے ملک کو کمزور کرتے ہیں جس کی حب الوطنی کی قسمیں کھانے میں ذرا بھی وقت نہیں لگاتے۔ ایسے واقعات ہندوستان کو شرمندہ کرتے ہیں او ریہ شرم اس بات سے کچھ اور گہری ہوتی جاتی ہے کہ ہم ان لوگوں کے حصے کا انصاف بھی یقینی نہیں بنا پارہے ہیں۔