مذہب

چراغ ِ یوسفینؒ اب بھی ہے روشن!

۔حضرت یوسف صاحبؒ مصر سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حضرت شریف صاحب ؒکا وطن مالوف ملک شام کا سرحدی علاقہ کنعان ہے ان دونوں حضرات حج بیت اللہ و زیارت روضۂ رسول پاک ﷺ کے ارادہ سے اپنے اپنے مقام سے نکلے دوران سفر ایک منزل پر دونوں کی ملاقات ہوئی مزاج کی ہم آہنگی مقصد کی یگانگی کے باعث دونوں دوست آپس میں حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ محبت رکھتے تھے ۔

ڈاکٹر سید شاہ مرتضیٰ علی صوفی حیدرؔپادشاہ قادری
معتمد سید الصوفیہ اکیڈمی ‘پرنسپل ایس ‘ایم ‘وی کالج حیدرآباد

اللہ تعالی اپنے بعض چنندہ ومحبوب بندوں کو مخلوق کے درمیان اس قدر مقبولیت سے نوازتا ہے کہ جب تک وہ اس دنیا میں رہتے ہیں ہر خاص و عام کے لئے مرجع بنے رہتے ہیںاور پھر دنیائے فانی سے ان کا کوچ کرجانا ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث نہیں بنتا بلکہ دن بہ دن ان پاکیزہ افراد کی قبولیت عامہ میں اضافہ ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے ایسا ہی کچھ حال ہمارے شہر حیدرآباد میںدلوں پر حکومت کرنے والی دو عظیم المرتبت ہردلعزیز اور پیاری شخصیتوں کا ہے جنھیں اللہ پاک نے اپنے ولیوں میں وہ مقام رفیع عطا فرمایا ہے کہ بلالحاظ مذہب وملت زائد از پچھلے تین سو سال سے ہر کوئی ان سے واقف اور مخلوق کثیر ان سے فیضیاب ہوتی رہی ہے اور فیضان کا یہ سلسلہ آج بھی پوری آ ب وتاب کے ساتھ جاری ہے ۔ جی ہاں ہماری مراد شہر کے بیچوں بیچ آرام فرما ـ’’حضرات یوسفینؒ ‘‘ سے ہے جو یوسف بابا ؒشریف بابا ؒکے نام سے عرف عام میں معروف ومقبول ہیں ۔

نام: موجودہ ہندوستان کے جنوبی ریاست تلنگانہ کے صدر مقام شہر حیدرآباد میں نام پلی اسٹیشن کے قریب ایک ہی گنبد میں جو آرام فرماہیں اُن میں سے ایک کا اسم گرامی حضرت سیدنا شاہ ’’یوسف‘‘قادری چشتی ؒہے دوسرے حضرت سیدنا شاہ شریف الدین قادری چشتیؒ ہیں ۔دونوں ’’ یوسف صاحبؒ شریف صاحبؒ‘‘سے بھی مشہورہیں۔مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کے مطابق آپ حضرات کا تعلق آل فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے ۔

وطن: ۔حضرت یوسف صاحبؒ مصر سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ حضرت شریف صاحب ؒکا وطن مالوف ملک شام کا سرحدی علاقہ کنعان ہے ان دونوں حضرات حج بیت اللہ و زیارت روضۂ رسول پاک ﷺ کے ارادہ سے اپنے اپنے مقام سے نکلے دوران سفر ایک منزل پر دونوں کی ملاقات ہوئی مزاج کی ہم آہنگی مقصد کی یگانگی کے باعث دونوں دوست آپس میں حقیقی بھائیوں سے بھی زیادہ محبت رکھتے تھے ۔حج کی وجہ عرفاتی بھائی ہوگئے بعد میں ایک ہی پیر ومرشد ؒ کے مرید ہونے کی وجہ سے برادرانِ طریقت یعنی پیر بھائی بھی بن گئے اور ساتھ ساتھ رہ کر زندگی کی کٹھن منزلوں کا سفر اختیار کیااور دور دراز کے سفر کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوے دیارِ غیر کابل‘اکبرآباد ‘(آگرہ) ‘دہلی وغیرہ سے ہوتے ہوئے جنوبی ہند میں تشریف فرما ہوے اورسرزمین دکن کو اپنی خوابگاہ کی زینت سے دوبالافرما یا ۔

قرابت: ’’دکن کے دو ولی ‘‘ نامی تصنیف میں میرے دادا حضرت سید الصوفیہ مفتی سید شاہ احمد علی صوفی صفیؔحسنی حسینی قادری ؒجامع السلاسل واعظ سرکار عالی حضرات یوسفینؒ کے بارے میں رقمطراز ہیں’’د ونوں میں ہم وطن برادری اور اخوۃ اسلامی اور پیر بھائی ہونے کے سوا اور کوئی قرابت نہیں تھی اس کے باوجود اتفاق واتحاد اس قدر تھا کہ مغایرت(غیریت) ودوری کا نام ونشان تک نہ تھا۔بظاہر مابہ الامتیاز صرف یہ تھا کہ دوجسم ودوشخص تھے لیکن واقع میں ایک ہی تھے۔موافقت واتحاد کی وجہ سے دونوں باہم ایک ہی مقام ومنزل میں دنیاوی زندگانی بسر کئے اوربعد وصال بھی ایک دوسرے کے پہلو سے جدا نہ ہوئے ’’المرء مع من احب‘‘ کی تصدیق عالم میں پیش فرمائے ۔’’انما المومنون اخوۃ‘‘کی داددی ۔‘‘

بیعت: یہ دو نوںبزرگ باوجود اپنی عظمت کے سلسلۂ قادریہ عالیہ وسلسلہ چشتیہ بہشتیہ میں حضرت شاہ کلیم اللہ شاہجہاں آبادی قدس سر(المتوفی۱۱۴۲ھ) سے حجاز مقدس میں حج بیت اللہ کے موقع پر جب ملاقات کئے تو روحانی فیضان حاصل کیا اور وہیں پر سلسلہ قادریہ وچشتیہ میں حضرت کلیم اللہ ؒ کے دست مبارک پر مرید ہوئے اور پھر اس کے بعد مرشد کی کشش نے حجاز مقدس سے ان دونوں بھائیوں کو ہندوستان کی سرزمین پر پہنچادیا ۔حضرت شاہ کلیم اللہ شاہجہاں آبادیؒکا مزار پُر انواردہلی میں جامع مسجد اور لال قلعہ کے درمیا ن واقع اور زیارت گاہ خاص وعام ہیآپ ہی سے سلسلہ چشتیہ کی ایک شاخ سلسلہ کلیمیہ سے موسوم ہوکر خوب پھیلی ۔

ملازمت:پہلا قول :مولف ’’انوارالاخیار‘‘ کے مطابق ابتداء میں ان دونوں بھائیوں نے بہادر شاہ (ابن اورنگ زیب عالمگیرؒ) کے لشکر میںملازمت اختیار کی ۔دوسرا قول:صاحب مخازن الاعراس لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف باباؒ و حضرت شریف بابا ؒبہادر شاہ بادشاہ کے وزیر خانخاناںکے پاس فوجی لشکر سے وابستہ تھے ۔تیسرا قول:صاحب تاریخ خورشید جاہی نے لکھا کہ’’آپ اول سپاہ گری میں استاد تھے سرآمد سپاہیان روزگارِ علم وشمشیر بازی اور تیر اندازی اور بعض ہنر وکسب میں جو بادشاہوں کے لئے کارآمد ہوتے ہیں ‘ شہ سوار تھے۔ چوتھا قول: تاریخ قطب شاہی کے مطابق سلطان محمد قطب شاہ والدسلطان عبد اللہ قطب شاہ کے استاد تھے معاش کی فراغت بہت رکھتے تھے۔مذکورہ بالااقوال میں چوتھا قول بعید از حقیقت معلوم ہوتا ہے۔

مولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی حضرات یوسفین ؒ پر مشہور کتاب’’ دنیا کے دو بھائی دین کے دو بھائی ‘‘مطبوعہ 2005ء کے مقدمہ مرقومہ ڈاکٹر محمدیوسف الدین سابق صدرشعبۂ مذہب وثقافت عثمانیہ یونیورسٹی کے مطابق اورنگ زیب عالمگیرؒ نے جب گولکنڈہ پر چڑہائی کی تو اس وقت مغل فوج میں یہ دونوں بزرگ حضرات یوسفین ؒ بھی شامل تھے اور فتح گولکنڈہ کے روحانی پس منظر میں حضرات یوسفین ؒ کی کارفرمائی کا ذکر بھی کیا ہے (جس کی تفصیل سطور آئندہ میں آئے گی )اورنگ زیب ؒ کے انتقال کے بعد اس کے بیٹوں بہادر شاہ عرف شاہ عالم اول اور کام بخش کے درمیان تخت شاہی کیلئے رسہ کشی شروع ہوگئی اور اسی دوران کام بخش کا حیدرآباد میں جاں بحق ہوگیا ۔

اُس دور میںحیدرآباد دکن نہایت پر آشوب دور سے گذر رہا تھا کہ اس عہد میں بڑے بڑے عظیم الشان انقلاب واقع ہوئے اکثر سخت خون ریزجنگیں ہوئیں۔ان بیدردیوں کواور ہولناک خونریزیوں کو حضرات یوسفین ؒ نے اپنی آنکھوں سے دیکھا انقلاب زمانہ کے بڑے بڑے نظارے ان کی نگاہ سے گذرے اس لئے ان کو ملازمت سے سخت نفرت ہوئی پس خلوت نشین ہوکر اطمنان کے ساتھ عبادت الہی میں باقی عمر گذارنے کے ارادے سے دونوں بزرگوں نے نوکری سے تعلق ترک کردیا۔حیدرآباد دکن کے قلعہ گولکنڈہ کے باہر جہاں اس وقت مزار ہے (جو اس وقت غیر آبادتھا اور موضع نام پلی کہلاتاتھا ) متوکلانہ سکونت اختیار کی اور قناعت کے ساتھ عبادت وریاضت میں ہمہ تن مصروف و مخلوق ِ خدا کیلئے دوائوں اور دعاؤں کے ذریعہ راحت رسانی میں مشغول ہوگئے۔

دکن میں آمد:دنیا میں توحید کا آفتاب طلوع ہوئے چودہ صدیاں گذرچکی ہیں ذرہ ذرہ انوار اسلام سے چمک اُٹھا ہے یہ نور یوںہی آسانی سے نہیں پھیلابلکہ اس میں شاہان وقت کی کوششوں کے ساتھ ساتھ اولیاء اللہ و صوفیائے کرام کی ناقابل فراموش خدمات کا تسلسل بھی شامل ہے کہ جنھوں نے مخلوق خدا کو پیار ومحبت ہمدردی و رواداری سے بھر پور سلوک سے نہ صرف متاثر کیا بلکہ اپنا گرویدہ بنالیا۔

ایسے ہی بزرگوں کے فیضان سے اہل حیدرآباد کو فیضیاب کرنے کیلئے دکن میں حضرات یوسفین تشریف لا ئے گویا منشائے الہی یہ تھا کہ اس چشمہ معرفت و دریائے حقیقت سے مخلوق کثیرہ بلا تفریق مذہب وعقیدہ سیراب ہوں ۔

عوام سے مخفی خواص میں ظاہر: جس وقت دکن میں لشکر کے ساتھ حضرات یوسفین ؒ کی تشریف آوری ہورہی تھی اس وقت تک آپ حضرات نے اپنے آپ کواور اپنے مقام ومرتبہ کولشکریوں سے چھپاکر رکھا تھا اس وقت کا ایک واقعہ بہت ہی مشہور اور زبان زد خاص وعام ہے اور جسے حضرت سید الصوفیہ ؒ نے اپنے والد ماجدسید السادات شیخ الشیوخ امام الصوفیہ حضرت صوفی اعظم قطب دکن ؒ اور اپنے جد امجدسید السادات امام العارفین حضرت صوفی معزؒ کے حوالہ سے روایت کرتے ہوے ’’دکن کے دو ولی ‘‘نامی کتاب میں لکھا ہے کہ قطب زمانہ شہنشاہ مجذوبیت حضرت سید حسن المعروف حضرت برہنہ شاہ صاحبؒ کے سامنے سے لشکر سلطانی گذر رہا تھا تو حضرت ؒ نے اپنے کسی ایک مرید کا کپڑا فورا زیب تن کرلیا اور جب لشکر سامنے سے گزر گیا تو جسم سے وہ کپڑا الگ کرکے جس سے لیا تھا اُسے دے دیا اس پر اُس مرید نے پوچھا حضرت ! آپ توہروقت (صرف شرعی سترپوشی کرتے ہوے باقی جسم کو )برہنہ اور بے لباس رکھتے ہیں مگر لشکر شاہی کی آمد پر لباس پہننے کی کیا وجہ ہے ؟حضرت نے اُس مرید کے سر کو اپنے بغل میں کچھ دیر رکھ کر چھوڑ دیااور فرمایا ؛ آدمیوں سے شرمانا‘ جانوروں سے حیا کی کیا ضرورت ہے۔مرید صاحب موصوف بعد میں کہتے ہیں کہ جس وقت حضرت ؒ نے میرا سربغل میں رکھا اُس وقت لشکر سلطانی میں جس کو میں دیکھتا تھا وہ یا تو بندر ‘ یاکُتا‘ یابکری یا سُور دکھا ئی دیتا تھا مگر صرف یہ دو حضرات (یعنی حضرت یوسف با باؒ و حضرت شریف با با ؒ) آدمیوں کی صورت میں نظر آرہے تھے ۔

کرامات:آپ حضرات ؒچونکہ بحر ولایت کے غواص تھے آپکا ہر عمل کرامت اور ہر بات اعجاز آفریں تھی آپ سے بہت ساری کرامات کا صدور ہوا تاہم اُس مشہور کرامت کے لکھنے پر اکتفا کیا جاتا ہے جو خاص وعام میں مشہور اور کتب کثیرہ میں مرقوم ہے کہ جب بادشاہی لشکر کے ساتھ حیدرآباد دکن میں آپ کی آمد ہوی اور پھر لشکر نے چاروں طرف ڈیرے ڈالدئے اور آپ حضرات کا خیمہ اُس جگہ پر نصب تھا جہاں آج آپ کا مزار پُر انوار مرجع خلائق ہے اس رات اتفاق سے شدید بارش اور اس قدر تیز وتند ہوا چلی کہ تمام ڈیرے اور خیمے ہوا کی شدت کے سامنے ٹک نہ سکے اور سارا لشکر پریشان سارے لشکری حیران تھے مگر خدا کی شان کہ ان دونوں بزرگوں کا چھوٹا سا خیمہ مضبوطی کے ساتھ قائم رہا تیز آندھی اس خیمہ کا کچھ بھی بگاڑ نہ سکی اور پھر مزید یہ کہ اس ہوا سے گرد وغبار کی کثرت و بارش کی شدت نے جہاں سارے چراغ بچھادئے تھے چاروں طرف اندھیرے کا راج تھا مگر حضرات یوسفین ؒ کا چراغ روشن تھا نہ خیمہ ہل سکا نہ ہی چراغ گُل ہوا بلکہ یہ دونوں بھائی قرآن کی تلاوت اور خدائے رحمان کی عبادت میں مصروف بارش وہواکی شدت سے محفوظ تھے اہل لشکر نے جب آپ کی یہ حالت دیکھی تو راعی ورعایا سب پر آپ کی بزرگ وکرامت ظاہر ہوگئی۔

تب تک آپ کی قدر ومنزلت کسی کو معلوم نہ تھی پھر تو سب لوگ آپ کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے ۔اس واقعہ کا تسلسل ڈاکٹر محمد یوسف الدین صاحب کے تحریر کردہ مقدمہ میں ملتا ہے جومولانا مناظر احسن گیلانیؒ کی مرتبہ’’ دنیا کے دو بھائی اور دین کے دو بھائی‘‘ نامی کتاب میں شامل ہیں لکھتے ہیں ’’اورنگ زیب عالمگیر ؒ افغانستان کی شمالی سرحد بدخشاں اور بلخ میں کئی معرکہ سر کرچکا تھا لیکن( گولکنڈہ کے محاصرہ کا )یہ ایک ایسا معرکہ تھا کہ مسلسل آٹھ ماہ گذرنے پر بھی سر نہ ہوسکا ۔ایک رات بارش کی وجہ سے موسیٰ ندی میں سخت طغیانی آئی اور طوفانی ہواؤں سے میلوں تک پھیلے ہوئے مغل لشکر کے خیمے اُکھڑ گئے ہراسانی سی پھیل گئی عالمگیرؒ رات میں حسب معمول گشت اور مغل فوجوں کے لئے گوڑے پر سوار ہوکر نکلے مغل لشکر میلوں تک پھیلا ہوا تھا موسلا دھار بارش اور طوفانی ہواؤں کے باوجود دور سے ایک خیمہ میں چراغ جلتا ہوا نظر آیا قریب پہنچے تو دیکھا کہ دونورانی چہرے قرآنِ مجید کی تلاوت میں منہمک ہیں ‘‘ آگے لکھتے ہیں ’’تلاوت قرآن کے دوران جب حضرات یوسفینؒ نے نظر اُٹھائی تو دیکھا کہ عالمگیر ؒ ادب سے کھڑے ہیں اور قریب پہچ کر یوں عرض کرتے ہیں ’’تعجب ہے کہ آپ جیسی مقدس ہستیاں لشکر اسلام میں موجود ہوں اور قلعہ فتح نہ ہو‘‘ان دونوں بزرگوں نے بادشاہ کو ٹالنا چاہا لیکن وہ باز نہ آیا بالآخر اُن بزرگوں نے جب یہ دیکھا کہ قرآن مجید کی تلاوت میں حرج ہورہا ہے اس لئے کہا اچھا ٹھیکری لائیے اور پھر اس ٹھیکری پرکچھ لکھدیا اور کہا لنگر حوض کے قریب ایک جوتا ساز رہتا ہے یہ ٹھیکری لیجاکر اُس کے حوالہ کریں ۔تیز رفتار گھوڑے پر سوار بادشاہ ڈہونڈ تا ہوا اُس ٹھیکری کو جوتا ساز کے حوالہ کردیا عبارت پڑھکر جوتا ساز غضبناک ہوگیا اور بادشاہ کو غصہ سے گہورنے لگا پھر ٹھیکری کی دوسری جانت کچھ عبارت لکھ کر حوالہ کیا اور کہا لیجاکر اُنھیں کے حوالہ کردو بادشاہ سلامت ٹھیکری لیکر واپس ان دونوں بزرگوں حضرات یوسفین ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرات یوسفینؒ نے کہا’’کوئی غیبی طاقت قلعہ گولکنڈہ کی حفاظت کررہی ہے ‘‘ عالمگیر ؒ نے ادباً التجا کی پھر ایک بار کوشش کیجئے حضرت یوسف صاحب ؒ نے مکرر پھر کچھ لکھا اور کہا لیجاکر پھر اسی جوتا ساز کے حوالہ کیجئے عالمگیرؒ گھوڑا دوڑاتے ہوئے پھر لنگر حوض پہنچے اور ٹھیکری کی عبارت جوتا ساز کے حوالہ کی عبارت پڑھکر جوتا ساز دماغی کشمکش میں مبتلا ہوگیا اور ہاتھ کانپنے لگے پھر آب دیدہ ہوکر اُٹھا اور کہا ’’گذشتہ پچاس سال سے یہاں ٹھہرا ہواتھا جیتے جی مجھے یہاں سے اُٹھنا پڑا جاؤ اور جاکر کہدو کہ جوتا ساز چلاگیا ۔غرض عالمگیرؒ جب مغل لشکر میں پہنچے تو صبح کی اذان ہورہی تھی وضو کرکے نماز ِ باجماعت میں شریک ہوگئے اور نماز فجر کے بعد حضرت یوسف صاحبؒ اور حضرت شریف صاحب ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تمام ماجرا بیان کیا تو انہوں نے خوش خبری سنائی اور کہا آج رات ان شا ء اللہ قلعہ گولکنڈہ فتح ہوجائے گا۔پھر فتح کی مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ وہ جوتا ساز نہ تھا بلکہ قطب زماں تھا اور پورے پچاس سال سے اپنی روحانی قوت کے ذریعہ قلعہ کی حفاظت کررہا تھا غرض رات میں مغل فوجیں قلعہ گولکنڈہ میں داخل ہوگئیں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ ایک قطب شاہی فوجی افسر (عبد اللہ خان پنی ) مغل فوج سے ملگیا اور قلعہ گولکنڈہ کی ایک بڑی کھڑکی کھول دی اور اس راستہ سے مغل فوجیں قلعہ میں داخل ہوگئیں ۔خواہ کچھ ہو ‘ظاہری سبب ہو یا روحانی طاقت کا استعمال بہرحال آٹھ ماہ سے جو قلعہ سر نہ ہوا تھا وہ آناًفاناً فتح ہوگیا۔

وفات: کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک الخ۔۔ کافرمان الٰہی پورا ہونا تھا چنانچہ حضرات یوسفین کے وصال حق کی گھڑی آن پہنچی ۔حضرت سید الصوفیہ ؒاس سلسلہ میں رقم طراز ہیں:’’سچ تو یہ ہے کہ دنیا مقام فانی اور گذاشتن وگذاشتی ہے بقا صرف اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہے خدا کے مقبول اور پاک بندوں کو کبھی موت و فنا نہیں البتہ خداوند کریم اپنا اصول اور قانون پورا کرنے کیلئے ایک مقام سے اٹھا کر دوسرے جگہ لیجاتا ہے اور اسی کا نام انتقال یا موت ہے مگر دور بین نظر اور حقیقت شناس ادر اک بتلاتا ہے کہ حقیقی موت اس شخص کی موت ہے جو دنیا میں باقیات صالحات کی یادگار اعمال حسنہ کا اثر چھوڑنے کے بغیر مرجائے‘‘۔

یہ دونوں خاصان ِ خدا دین کے دو بھائی ایک ہی دن میں رحلت فرما ہوئے ہوا یون حضرت شاہ یوسف باباؒ بعارضہ بخار بیمار ہوئے اور ہفتہ عشرہ اسی حالت میں رہ کر پانچ ذی الحجہ ۱۱۲۱ھ وصال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔اس وقت حضرت شریف باباؒ موجود نہ تھے جب تشریف لائے اور معلوم ہوا کہ حضرت یوسف باباؒ کا وصال ہوچکا ہے یہ سنتے ہی نہایت غمگین ہوکر کہنے لگے کہ یہ بات شرط رفاقت سے بعید ہے کہ آپ اس جہاں میں نہ رہیں اور میں رہ جاؤں پھر باوضو ہوکر حجرہ میں داخل ہوئے اور سفید چادر چہرے پر ڈالکر لیٹ گئے اور اسی وقت آپ کی روح پرواز کرگئی انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خادموں نے دونوں برادرانِ وطن و طریقت کے غسل اور نماز جنازہ سے فراغت پائی اور ایک ہی مقام پر موضع نام پلی میں بادیدہ نم سپرد لحد کیا ۔اور اس کے بعد سے آپ کی بارگاہ زیارت گاہ خاص و عام بنی ہوئی ہے۔ہر دور کے شاہان وقت اور عوام وخواص کے علاوہ آزادئی ہند کے بعد سے چیف منسٹرس ودیگر وزرائے حکومت اندھیرا پردیش وتلنگانہ حاضر ہوتے رہے ہیں ہر سال ماہ ذی الحجہ کے ابتدائی ایام میںتقاریب عرس نہایت تزک واحتشام ‘عقیدت واحترام سے منعقد ہوا کرتا ہے جس میں لاکھوں عقیدت مندان حضرات ِ یوسفینؒ شرکت کرکے فیضیاب ہوا کرتے ہیں۔

(ماخذ:دکن کے دو ولی ‘ دنیا کے دو بھائی دین کے دو بھائی ‘تاریخ رشید الدین خانی ‘تاریخ خورشید جاہی‘تاریخ قطب شاہی ‘محبوب التواریخ وغیرہ کتب تاریخ وسیر)
٭ ٭ ٭

a3w
a3w