قاضی جاوید
چین مصنوعی ذہانت کی دنیا میں امریکا کے لیے اس قدر خطرناک ہو گیا تھا کہ امریکا نے چینی ٹیکنالوجی میں امریکی سرمایہ کاری پر پابندی عائد کر دی ہے۔ 10اگست کو ڈی ڈبلیو نیوز نے خبر دی ہے کہ چین کی سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت کی صنعتوں میں امریکی شہریوں کو سرمایہ کاری کرنے کی اب اجازت نہیں ہوگی۔ وائٹ ہاؤس نے اس کے لیے قومی سلامتی کا حوالہ دیتے ہوئے پابندی کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ یہ حکم اقتصادی مفادات کے بجائے قومی سلامتی کے اہداف سے مربوط ہے۔ اس پابندی کا اطلاق آئندہ سال کے شروع میں ہو گا۔ عالمی اخبارات کہہ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب امریکا میں ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کو بحال کرنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ جد وجہد کر رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے سیکٹر میں امریکا اب بھی چین سے بہت آگے سمجھا جاتا ہے لیکن چین کہاں کھڑا اس بارے میں خدشات نے امریکا کو برسوں سے پریشا کر رکھا ہے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت دنیا اور خاص طور پرامریکا کے لیے اتنا اہم موضوع بن چکا ہے کہ گزشتہ ہفتے کے آخر میں جی سیون سربراہ اجلاس، جہاں پہلے ہی بہت مصروف ایجنڈا چل رہا تھا، وہاں بھی اسے زیر ِ بحث لایا گیا۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے نقصان دہ اثرات کے بارے میں خدشات امریکا کی جانب سے اہم ٹیکنالوجی تک چین کی رسائی کو محدود کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ فی الحال ایسا لگتا ہے کہ امریکا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی دوڑ میں آگے ہے اور اس بات کا امکان پہلے ہی موجود ہے کہ چین کو سیمی کنڈکٹر کی برآمدات پر موجودہ پابندیاں ٹیکنالوجی کی دنیا میں بیجنگ کی ترقی کو روک سکتی ہیں۔ لیکن عالمی اخبارات کے مطابق چین اس دوڑ میں آگے نکل سکتا ہے کیونکہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر مشتمل کسی بھی پروڈکٹ کو مکمل ہونے میں برسوں لگتے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے چین کی اہم ہائی ٹیک صنعتوں میں امریکی سرمایہ کاری کو روکنے اور ریگولیٹ کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے۔ اس آرڈر میں سیمی کنڈکٹرز، کوانٹم انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن نے اس حوالے سے کانگریس کو لکھے گئے اپنے خط میں کہا ہے کہ وہ چین کی پیش رفت کا جواب دینے کے لیے قومی ایمرجنسی کا اعلان کر رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ یہ قدم ’’حساس نوعیت کی ٹیکنالوجی اور ایسی مصنوعات جو فوج، انٹیلی جنس، نگرانی، یا سائبر سے چلنے والی صلاحیتوں کے لیے، بہت اہم ہے‘‘۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مصنوعی ذہانت کے خطرات پر 18جولائی 2023ء کو پہلا اجلاس منعقد کیا تھا، جس کی صدارت رواں ماہ ادارے کے صدر برطانیہ نے کی تھی۔ برطانوی وزیر خارجہ جیمس کلیورلی نے اس موقع پر کہا کہ ’’مصنوعی ذہانت بنیادی طور پر انسانی زندگی کے ہر پہلو کو بد ل دے گی‘‘۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹریس نے اجلاس کو بتایا کہ ’’اے آئی کے فوجی اور غیر فوجی دونوں طرح کے استعمال عالمی امن اور سلامتی کے لیے بہت سنگین نتائج کے حامل ہوسکتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد ہی جی۔ 7 کے اجلاس ایجنڈے میں ’’آرٹیفیشل انٹیلی جنس‘‘ کو ڈالا گیا۔ تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دنیا کی دو سب سے بڑی طاقتوں کے درمیان ٹیکنالوجی میں برتری حاصل کرنے کی شدید دشمنی کے ساتھ ہی یہ فیصلہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے، جب امریکا میں ہائی ٹیک مینوفیکچرنگ کو بحال کرنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ جد وجہد کر رہی ہے۔
چین اور امریکا دنیا کی دو بڑی طاقتیں ہیں جن کے درمیان کئی امور پر مسابقہ آرائی جاری ہے اور کئی مسائل کے حوالے سے دونوں میں کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ امریکی سینیٹ میں ڈیموکریٹک لیڈر چک شومر نے بائیڈن کے حکم کی یہ کہہ کر تعریف کی کہ: ’’بہت عرصے سے، امریکی سرمایہ کاری چینی فوج کو عروج پر پہنچاتی رہی لیکن امریکا خاموش تھا۔ انہوں نے کہا، ’’آج امریکا ایک پہلا اسٹرٹیجک قدم اٹھا رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ امریکی سرمایہ کاروں کا سرمایہ چینی فوج کی ترقی کے فنڈز میں نہ جائے‘‘۔ ری پبلکن پارٹی نے کہا کہ بائیڈن کا یہ حکم کافی نہیں ہے۔ سینیٹر مارکو روبیو نے کہا کہ یہ آرڈر تقریباً ہنسنے کے لائق ہے کیونکہ اس میں بعض ٹیکنالوجیوں کے دوہرے استعمال کی نوعیت کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ادھر واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے 10اگست 2023ء کو کہا ہے کہ اس خبر سے چین کو ’’بہت مایوسی‘‘ ہوئی ہے۔ لیو پین گیو نے کہا کہ یہ پابندیاں ’’چینی اور امریکی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے مفادات کو بے پناہ نقصان پہنچائیں گی‘‘۔ چین صورتحال پر قریب سے نظر رکھے گا اور ہم مضبوطی سے اپنے حقوق اور مفادات کا تحفظ کریں گے۔
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے مصنوعی ذہانت کو دو دھاری تلوار قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین اے آئی کے رہنما اصولوں کی تیاری میں اقوام متحدہ کے مرکزی رابطہ کار کے کردار کی حمایت کرتا ہے۔ ژانگ کا کہنا تھا، ’’خواہ یہ اچھا ہو یا برا، نیک ہو یا بد، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بنی نوع انسان اسے کس طرح استعمال کرتی ہے، اسے کس طرح منظم کرتی ہے اور ہم سائنسی ترقی اور سلامتی کے درمیان کس طرح توازن پیدا کرتے ہیں۔ ہمیں ترقی کو منظم کرنے کے لیے لوگوں اور مصنوعی ذہانت کی اچھائی کے استعمال پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور اس ٹیکنالوجی کو ’’بے لگام گھوڑا‘‘ بننے سے روکنا ہوگا‘‘۔ روس نے سوال کیا کہ کیا سلامتی کونسل، جس پر بین الاقوامی امن اور سلامتی کو برقرار رکھنے کی ذمے داری ہے، کو مصنوعی ذہانت پر بات کرنی چاہیے۔
تیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکا لڑ رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹولز وقت کے ساتھ ساتھ مزید اسمارٹ ہوتے جائیں گے۔ ایسے میں یہ خدشات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں کہ کیا مستقبل میں اے آئی ٹیکنالوجی انسانی ذہانت کا متبادل ہو سکتی ہے؟ گزشتہ ایک صدی کے دوران تیل اور توانائی کے ذرائع پر کنٹرول نے دنیا میں جنگوں کو جنم دیا، مختلف ممالک کو غیر متوقع اتحاد کرنے پر مجبور کیا اور متعدد سفارتی تنازعات کو جنم دیا ہے۔ مگر اب دنیا کی دو بڑی معیشتیں ایک اور اہم اور قیمتی ٹیکنالوجی پر لڑ رہی ہیں اور یہ ٹیکنالوجی ’سیمی کنڈیکٹرز‘ ہیں، وہ چھوٹی مائیکرو چِپ جو ہماری روز مرہ زندگی کا اہم ترین جزو بن چکی ہے۔ سیلیکون سے بنی یہ چھوٹی چھوٹی چپس 500 ارب ڈالر کی بڑی صنعت کا دل ہیں۔ اور اس صنعت کا حجم 2030 تک دگنا ہونے کی توقع ہے۔ اور ماہرین کے مطابق جو ملک بھی ان مائیکرو چپس کی سپلائی چین کا انتظام سنبھالے گا وہ دنیا کی سپر پاور بن جائے گا۔
چین ان مائیکرو چپس کو بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اور یہ ہی وجہ ہے کہ امریکا جس کے پاس یہ ٹیکنالوجی پہلے سے موجود ہے چین کو دنیا سے دور اور الگ تھلگ کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک واضح طور پر ایشیا پیسفک خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہتھیاروں کی اس روایتی دوڑ میں جہاں جہازوں اور میزائلوں کی زیادہ تعداد میں تیاری ہے وہی یہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے الگورتھم کے معیار پر بھی ہے جو عسکری سسٹمز میں بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ مگر اس وقت یہ جنگ امریکا جیت رہا ہے لیکن چین کے خلاف مسلط کی گئی مائیکرو چِپ کی یہ جنگ دنیا کی معیشت کو بدل رہی ہے۔ اگر اس جنگ نے سمندر یا خشکی پر قد م جما لیے تو اس کا سب سے بڑا نقصان صرف اور صرف انسانوں کا ہوگا۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰