ڈاکٹرس کی لاپرواہی سے میں اپنے نومولود سے محروم ہوگیا۔ متاثر شخص کا اظہار کرب
ناندیڑ میں 48گھنٹوں کے دوران فوت31مریضوں میں شامل ایک نومولود کے باپ نے اس سانحہ کے لیے ڈاکٹروں کی لاپرواہی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
اورنگ آباد: ناندیڑ میں 48گھنٹوں کے دوران فوت31مریضوں میں شامل ایک نومولود کے باپ نے اس سانحہ کے لیے ڈاکٹروں کی لاپرواہی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
غمزدہ شخص ناگیش سولنکے نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ پیدائش کے بعد ان کے بچے کا وزن کم نہیں تھا۔ ان کی بیوی کی آپریشن سے زچگی خانگی دواخانہ میں ہوئی۔ بعد ازاں بچے کو علاج کے لیے سرکاری دواخانہ لایا گیا۔
واضح رہے کہ ناندیڑ کے ڈاکٹر شنکر راؤ چوان گورنمنٹ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل میں 30/ ستمبر سے 48گھنٹوں کے دوران ز ائد از 31مریضوں کی موت ہوگئی۔30/ ستمبر سے یکم اکتوبر کے درمیان فوت ہونے والے 24مریضوں بشمول 12بچوں میں سولنکے کا بچہ بھی شامل تھا۔
حکام کے مطابق یکم اور 2/ اکتوبر کو اسپتال میں مزید7اموات ہوئیں۔ سولنکے نے ہاسپٹل کے باہر صحافیوں کو بتایا کہ میرے بچے کا وزن کم نہیں تھا اور بالکل ٹھیک تھا۔ معلوم نہیں میرے بچے کو کیا ہوا جو اب نہیں رہا۔ میں اپنے بچے سے محروم ہوگیا، آپریشن سے زچگی کی و جہ سے میری بیوی کی صحت مستقل طور پر متاثر ہوگئی۔ میرا سب کچھ کھوگیا۔
اس نے کہا کہ خانگی دواخانہ کے ڈاکٹروں نے دعویٰ کیا کہ بچہ ٹھیک تھا مگر چار پانچ دنوں کے لیے گرم شیشے میں رکھنے کی ضرورت تھی۔ میں نے بیوی کی سرجری کے لیے کافی رقم خرچ کی تھی اور بچے کے علاج بھاری خرچ کا متحمل نہیں تھا۔
لہٰذا ہم ناندیڑ کے سرکاری دواخانہ آگئے۔“ انہوں نے کہا کہ بچے کو (30/ ستمبر کو) شام تقریباً6بجے دواخانہ میں شریک کرایا گیا۔ بعد ازاں اس نے باہر سے ادویات خریدیں اور ڈاکٹر کو دے دیں۔
سولنکے کے مطابق یکم اکتوبر کو رات2بجے تک بھی ان کا بچہ ٹھیک تھا۔ بعد ازاں تقریباً4بجے ڈاکٹروں نے کہا کہ وہ بچے کو کسی بڑی مشین میں رکھ رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے اس کا نام نہیں بتایا۔ ہم باہر منتظر تھے اور انہوں نے ہمارے دستخط لیے۔
پھر 10-15منٹ کے اندر ایسا کیا ہوا کہ میرا بچہ مر گیا۔ میرے بچے کے علاوہ دیگر دو جڑواں بچوں کی بھی موت ہوگئی اور انہوں نے ہمیں اندر بلاکر اموات کی اطلاع دی۔
سولنکے نے سوال کیا کہ دواخانہ میں ایک ہی دن12بچوں کی موت کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ اسی وقت ممکن ہے جب مشینیں کام نہ کریں اور ڈاکٹرس لاپر واہ ہوں۔ ڈین بھی دواخانہ پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔
اس شخص نے جذبات سے مغلوب ہو کر کہا کہ بچے کے لیے9ماہ انتظار کرنے کے بعد اب اس نے سب کچھ گنوادیا۔ یہ ڈاکٹرو ں کی لاپرواہی کی وجہ سے ہوا۔ سہولتوں کا فقدان تھا۔ انہوں نے اندر جاکر مجھے اپنے بچے کو دیکھنے تک نہیں دیا۔ میں دواخانہ کے ڈین سے ایک بار ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔