ڈرامہ چند گھنٹوں کا
زکریا سلطان
عنوان سے آپ کو ہلکا سا اشارہ شاید ضرور ملا ہوگاکہ ہم کس مسئلہ پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں ، جس اہم کام کی بات آپ سے کی جارہی ہے وہ سارا معاملہ جسے ہم ڈرامہ کہہ رہے ہیں جملہ دو چار گھنٹوں سے زیادہ کا نہیں ہوتالیکن اس کی تیاری مہینوں اور برسوں پہلے سے شروع کی جاتی ہے۔ خوب شور شرابہ، دھوم دھڑاکا کرنا بھی ہمارا کلچر بن گیا ہے اور ان چند گھنٹوں کی ڈرامہ دارتقریب میں لاکھوں اور بعض اوقات کروڑوں روپئے صرف کئے جاتے ہیں ، یا یوں کہہ لیں کہ پانی کی طرح بہائے جاتے ہیںتاکہ خاندان اور سوسائٹی میں اپنا نام اونچا ہو اور خوب چرچہ ہو، اس کی دوسری وجہ بعض لوگوں کی مجبوری بھی ہوتی ہے کہ اس کے بغیر ان کی لاڈلی بیٹیوں کی ڈولی گھر سے نہیں نکلتی اور ان کے لاڈلے بیٹے راضی نہیں ہوتے، اب تو بات واضح ہوگئی کہ ہم شادی خانہ آبادی کی بات کر رہے ہیںجو عموماً زندگی میں صرف ایک بارہی ہوتی ہے یا ہونی چاہیے لیکن آجکل کے حالات اور ماحول میں یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ پہلی اور آخری شادی ہی ہوگی اس لیے کہ اس وقت کے ماحول میں شادی خانہ آبادی بھی ہوسکتی ہے اور خانہ بربادی بھی ہوسکتی ہے، شادی کے کامیاب ہونے کی اب کوئی گیارنٹی نہیں رہی۔ کبھی بھی کسی وقت بھی بریانی برخاست ہوسکتی ہے، وہ اس لیے کہ نئی نسل کی سوچ اب بدل چکی ہے، ان میں پہلے کے لوگوں کی طرح صبر و تحمل، اچھے اخلاق و اوصاف ، معاملہ فہمی اور قوتِ برداشت نہیں رہی چنانچہ بات بات پر طلاق ا ور خلع کے افسوسناک واقعات پیش آرہے ہیں جنہیں دیکھ کر دل بیٹھ جاتا ہے کہ ہائے افسوس اتنے دھوم دھڑاکے اور شان و شوکت سے بڑے ناز و ارمان سے کی گئی شادی کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئی۔ شادی سادی ہونی چاہئے لیکن ہماری قوم کے مزاج میں سادگی نام کی کوئی چیز اب باقی نہیں رہی، ہر چیز میں نام نمود جھوٹی سچی شان، نقل ،دکھاوا اور مسابقت معمول بن گئے ہیں۔ بسا اوقات لوگ چار آنے کی چیز بارہ آنے میں خریدکر خوش ہوتے اور ڈینگیں مارتے ہیں حالانکہ وہی کام یا اس جیسا کام چار آنے میں بھی ہوسکتا ہے لیکن کچھ لوگ اسے اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، ایسی شان بگھارنے والوں کو چونا لگانے والوں کی بھی کمی نہیں ہے جب کوئی خوشی سے لُٹنے کو تیار ہے تو لٹیروں کو کیا پروا ؟ ان کی تو چاندی ہوجاتی ہے، بناﺅ سنگھار کے لیے بیوٹی پارلر میں ہزاروں روپئے دے کر اپنی اچھی خاصی قدرتی شکل و صورت کو بہت سی خواتین بگاڑلیتی ہیں۔بہت کم لوگ ہونگے جو کفایت شعار اور سلیقہ مند ہوتے ہیں ، اعتدال کی چال چلتے ہیں نہ بخل کرتے ہیں اور نہ اسراف مگر ایسے لوگوں کی تعداد معاشرہ میں کم ہے ۔ہر محلہ میں بازار بھرے پڑے ہیں ،ہوٹلوں میں بیٹھنے کو جگہ نہیں ہے ،ٹوکن لے کر انتظار کرنے کولوگ تیار ہیں مگر گھر کا کھانا کھانے کو تیار نہیں ، تگڑا بل ادا کرکے خوش ہوتے ہیں۔یہی حال کپڑے کی دکانوں کا ہے جب بھی خواتین سے سنتے ہیں کہ شادی کے لیے شاپنگ کرنی ہے تو قیمت بڑھا چڑھاکر میٹھی میٹھی باتیں کرکے انہیں اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں، ہزاروں لاکھوں روپئے کا ایک ایک جوڑا بیچنے اور خریدنے والے دونوں موجود ہیں۔ شادی کا نام سنتے ہی ہر چیز کی قیمت بڑھادی جاتی ہے اور لوگ گر پڑ کر قبول کرلیتے ہیں۔ کئی کئی مہینے پہلے اپنی پسند کا شادی خانہ بُک کروایا جاتا ہے جس کا صرف چند گھنٹوں کاکرایہ لاکھوں روپئے ہوتاہے مگر لوگ لیتے ہیں کیونکہ اکثر لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہمارا کوئی مطالبہ نہیں ہے صرف کھانا اور اچھا شادی خانہ چاہیے ( اسی میں لڑکی کا باپ پِٹ جاتا ہے) افسوس اس بات کا بھی ہے کہ بعض شادی خانوں کے مالکین لاکھوں روپئے کرایہ لینے کے باوجود اچھی سرویس نہیں دیتے اور ان کا رویہ ایسا ہوتا ہے جیسے وہ احسان جتارہے ہوں، حال ہی میں چادر گھاٹ پر واقع ایک شادی خانہ میں نکاح کی تقریب تھی، میزبان وقت مقررہ پر جب شادی خانہ پہنچے تو دیکھ کر حیران رہ گئے کہ استقبال کے لیے باب الداخلہ پراور اسٹیج پرجو قالینیںبچھائی گئی تھیں وہ دراصل پھٹی ہوئی میلی شطرنجیاں تھیں اور صوفے بہت ہی گندی حالت میں تھے جو کافی عرصے سے دُھلے نہیں تھے اور حد تو یہ ہوگئی کہ دولہے کی لال کرسی جو تھی اس میں سوراخ پڑے ہوئے بہت ہی گندی حالت میں تھی ، میزبانوں کی شکایت اور احتجاج کے بعد انہیں تبدیل کیا گیا ورنہ شادی خانہ کے اسٹاف کا رویہ درشت ،غیر ہمدردانہ اور نا مناسب تھا، کرایہ جب لاکھوں روپئے لیا جارہا ہے تو انتظامات اور سرویس بھی اسی میعار کے مطابق ہونی چاہیے۔یہ حال بعض شادی خانوں کا ہے ہر شادی خانہ کا نہیں۔ بنجارہ ہلز پر واقع ایک شادی خانہ ایسا بھی ہے جس کے مالک بہت فراخدل ہیں، بہترین خدمات اور سرویس دیتے ہیں بلکہ بعض مستحق اور ضرورتمند خاندانوں کو کرایہ میں خصوصی رعایت اور ڈسکاﺅنٹ بھی دیتے ہیں ، میں جانتا ہوں کہ حالات کے ہاتھوں مجبور ہونے والے بعض شریف خاندانوں کوانہوں نے مفت شادی خانہ بھی فراہم کیا ہے جو بہت بڑی قابل تعریف بات ہے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ بہو کو بیٹی اسی وقت سمجھا جاسکتا ہے جب وہ سلیقہ مندی، خوش اخلاقی اچھے سلوک اور رویہ سے سسرال والوں کو خوش کرکے ان کا دل جیتے، سسرال والوں کے دل میں جگہ بنانے کے لیے بہو کو سخت محنت کرنی پڑتی ہے، اس کے بغیر وہ سسرال میں رانی بن کر راج نہیں کرسکتی ۔ورنہ کھینچ تان ،رسہ کشی اور ساس بہو کا ڈرامہ شروع ہوجائے گا، پھرساس کہے گی میں بھی رانی تو بھی رانی۔۔۔۔۔۔!!!