سیاستمضامین

کارٹون کے بچوں پر تباہ کن اثرات(۲)

مولانا سید احمد ومیض ندوی(استاذ حدیث دارالعلوم حیدرآباد)

ہندوانہ عقائد پر مبنی کارٹون: ہندوانہ عقائد کی بنیاد بت پرستی اور شرکیہ اعمال ہیں، ہندوستان میں بنائے جانے والے اکثر کارٹونوں میں ہندو مذہبی کتب میں موجود کہانیاں پیش کی جاتی ہیں، تاکہ بچوں کے سادہ ذہنوں پر ہندوانہ عقائد مرتسم ہوجائیں، مثال کے طور پر کرشنا، ہنومان اور چھوٹا بھیم یہ سب ہندو مذہبی عقائد کے کردار ہیں، کرشنا ہندوؤں کے خداؤں میں سے ایک خدا ہے، ان کے عقیدہ کے مطابق کرشنا نے ارجن کو مخاطب کرکے جو منظوم کہانیاں پیش کی ہیں وہ بھگوت گیتا کی شکل میں ہندو مذہبی کتاب ہے، جس میں کرشنا کو ویشنو کا اوتار بتایا گیا ہے، اسی طرح ہنومان بھی ہندو مذہب کی ایک بڑی شخصیت ہے، معروف ہندو مذہبی کتاب راماین میں لکھا گیا ہے کہ رام نے ہنومان کی مدد سے اپنی بیوی سیتا کو راون کی قید سے آزادی دلائی تھی، چھوٹا بھیم بھی ہندو مذہبی کردار ہے، ہندوؤں کی مذہبی کتاب مہا بھارت میں بھیم سین کے نام سے ایک طاقتور مذہبی شخصیت کا ذکر ملتا ہے، جس نے کوروں اور پانڈوں کی جنگوں میں کرشنا کی مدد کی تھی۔
مسلم بچے جب اس قسم کے کارٹونوںکو دیکھتے ہیں تو ان کے طلسمی کرداروں سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، کم عمری ہی میں بچوں کے اندر ان شخصیات سے لگاؤ پیدا ہوجاتا ہے۔
جادوگروں اور شعبدہ بازوں کی تصدیق:  کارٹون سیریز میں عام طور پر جادوگروں کی طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے، جادوگر مردوں کو زندہ اور غائب چیز کو حاضر کرکے مشاہدین کو وردطۂ حیرت میں ڈال دیتا ہے، ایسے مناظر دیکھ کر بچے بے حد متأثر ہوجاتے ہیں اور ان کے دلوں میں جادو اور جادوگروں کی عظمت بیٹھ جاتی ہے، جب کہ اسلامی عقائد کے مطابق جادوحرام ہے، جادوگروں کی تصدیق کرنے اور ان کے پاس جانے والوں کو سخت وعید سنائی گئی ہے۔
غیر اللہ سے مافوق الاسباب طریقہ سے مدد طلب کرنے کی ترغیب
’’کارٹونوں میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ جب کوئی بچہ پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ بھوت، جن، شیطانی ملکہ یا پھر کسی شخص کو پکارتا ہے اور وہ فورا پہنچ کر اس کی مدد کرتا ہے، بال بیر وغیرہ کارٹون اس کی زندہ مثال ہیں، یہ سب باتیں بچوں کے کچے ذہنوں پر اثر انداز ہوکر ان کے عقائد کو متزلزل کرتی ہیں۔
تقدیس وطن کی تعلیم : ان کارٹون سیریز میں اکثر یہ دکھایا جاتا ہے کہ ایک آدمی بار بار اپنے وطن کی قسم کھاتا ہے جیسے بھارت ماتا کی قسم ، موٹو اور پتلو کارٹون میں یہ جملہ بار بار دھرایا گیا ہے۔(عقیدۂ اہل سنت وجماعت پورٹل ۲۵؍مارچ ۲۰۱۹ء)
عریانیت وبے حیائی کا فروغ : مسلم معاشرہ میں عریانیت اور بے حیائی کی قطعاً گنجائش نہیں، قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ جو لوگ ایمان والوں میں فحاشی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔(النور) اس کے علاوہ دسیوں مقامات پر اللہ نے فواحش سے روکا ہے اور حیاء کی تلقین فرمائی ہے۔کارٹون بنانے والے یہودی ونصاریٰ کامنشأ یہ ہے کہ مسلمانوں کی نسلِ نو میں فحاشی کو خوب فروغ دیں، چنانچہ کارٹونی سیریز بے حیائی او رعریانیت سے بھر پور ہوتی ہیں، اسلام میں جسم کو ڈھانکنے اور بھر پور لباس کی تاکید کی گئی ہے، تاکہ عریانیت اور بے حیائی کا سد باب ہو، اس کے برخلاف کارٹونوں میں مؤنث کردار کو جو لباس پہنا کر دکھایا جاتا ہے وہ شرم وحیاء سے عاری اور انتہائی شرمناک ہوتا ہے، بعض کارٹونوں میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ ریلیشن اس طرح دکھایا گیا ہے کہ لڑکا اپنی گرل فرینڈ کو ڈنر پر مدعو کرنے ہچکچا رہا ہے، اکثر کارٹونوں میں لو اسٹوری شامل ہوتی ہے، بڑی تعداد میں کارٹونز کی فیمیل ہیرو مثلا ونڈر وومن اور شیرا اور ڈیفنی بلیک کو مختصر لباس زیب تن کئے دکھایا گیا ہے، متعدد کارٹونوں میں بوس وکنار کے بولڈ مناظر دکھائے گئے ہیں،’’ اسپونج باب‘‘ ایک مشہور کارٹون ہے، اس کارٹون کی اسٹوری لوکیشن ’’بکینی اٹال‘‘نامی جزیرہ کے قریب سمندر کہ تہہ ہوتی ہے، جسے بکینی باٹم کہا جاتا ہے، ایسا لوکیشن عریانیت کے فروغ کے لیے رکھا جاتا ہے، دنیا کے ہزاروں جزیروں میں سے عریانت کا مظہر بننے والے جزیرہ کا انتخاب ظاہر کرتا ہے کہ کارٹون بنانے والوں کا مقصد عریانیت کو بڑھاوا دینا ہے۔
انگریزی تہذیب وثقافت کا فروغ: کارٹون سیریز کا ایک بنیادی مقصد مسلم اور مشرقی معاشروں میں مغربی تہذیب وثقافت کا فروغ ہے، اور یہ حقیقت ہے کہ مغربی ثقافت مسیحی ثقافت نہیں بلکہ الحاد ولادینیت کی علمبردار ہے، مغربی ثقافت اسلامی ثقافت سے بالکل میل نہیں کھاتی، موجود مغربی ثقافت کا مقصد ساری دنیا کو مادی رنگ میں رنگ دینا ہے، تاکہ انسان کی زندگی میں مذہب کا کوئی دخل باقی نہ رہے، مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک اس کی مثال ہیں، جہاں تیزی کے ساتھ مغربی ثقافت کو پھیلایا جارہا ہے، بیشتر کارٹونوں میں قدم قدم پر مغربی ثقافت کی جھلکیاں اس لیے پیش کی جاتی ہیں کہ مسلمانوں کی نسل نو اس کی گرویدہ ہوجائے۔
غلط نظریات کی ترویج :کارٹوں کے ذریعہ بچوں میں پنپ رہے غلط نظریات پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک کالم نگار لکھتے ہیں: ’’کارٹون کا ایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا میں جس کام کو انتہائی برا بھی کیوں نہ مانا جاتا ہو کارٹونوں میں اسے پرکشش اوراس کے کرنے والوں کو ہیرو دکھایا جاسکتا ہے، جیسے’’ بلی اینڈ مینڈی‘‘ اور ’’ٹین ٹائنز‘‘ جیسے کارٹونز ہیں، کالا جادو کو اور پوکی مون اور ڈیجی مون جیسے کارٹون میں جانوروں پر تشدد اور انھیں آپس میں لڑوانے کو پیش کیا گیا ہے۔
اخلاقی خرابیاں: کارٹونوں کا سب سے برا اثر بچوں کے اخلاق پر پڑتا ہے، نسل نو کی بد اخلاقی کی بنیادی وجہ کارٹونوں کی لت ہے، اسلام میں اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپﷺ نے مکارم اخلاق کی تکمیل کو اپنی بعثت کا مقصد قرار دیا، نیز آپ نے فرمایا کہ کل قیامت کے دن اعمال کی ترازو میں سب سے و زنی چیز حسن اخلاق ہوں گے، اسلام بد اخلاقی کو کسی طور برداشت نہیں کرتا، لیکن فلمی کارٹونوں کے ذریعہ بد اخلاقی کا طوفان برپا کیا جارہا ہے، بیشتر کارٹونوں کے کردار چوری، دھودہی، بڑوں سے بدتمیزی اور منفی سرگرمیوں میں مبتلا نظر آتے ہیں، کارٹون بینی کے عادی بچوں میں جھگڑے کا مزاج پیدا ہوتا ہے، اس لیے کہ بہت سے کارٹونوں میں لڑنے جھگڑنے کے کردار دکھائے جاتے ہیں، جس سے بچوں میں جہاں سختی اور تند خوئی پیدا ہوتی ہے وہیں لوگوں سے ہمدردی اور خدمت ِخلق کا جذبہ کافور ہوجاتا ہے، بعض کارٹونوں میں بڑوی کی بے ادبی اور والدین کی توہین اور ان کے ساتھ بیہودہ مذاق اور بد تمیزی کرتے دکھایا جاتا ہے، جس سے بچوں میں والدین کے احترام کے بجائے ان کے ساتھ ہٹ دھرمی اور نافرمانی کے جذبات فروغ پاتے ہیں۔
جرائم کا فروغ :  کارٹونز بچوں کو جرائم کا عادی بناتے ہیں، ان کارٹونوں میں جرائم کرنے اور ان کے بر ے انجام سے بچنے ، اسی طرح جھوٹ بول کر بچنے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں، جنھیں دیکھ کر بچوں میں بھی جرائم کے ارتکاب شوق پیدا ہوتا ہے اور ان کے انجام سے بچنے کی تدبیر سوجھتی ہے، بچوں کو کارٹون بینی میں کھلی آزادی دینا در اصل انھیں جرائم پیشہ بنانا ہے۔
پرتشدد رویہ: اکثر کارٹونوں میں تشدد کے مناظر دکھائے جاتے ہیں، لڑنے جھگڑنے اور مار پیٹ کے مناظر دکھائے جاتے ہیں، خوںریزی اور قتل وغارت گری کے مناظر مسلسل دیکھنے سے بچوں کا رویہ پرتشدد ہوجاتا ہے، کارٹونوں کی اکثریت بدترین مار دھاڑ اور خوں ریزی پر مشتمل ہوتی ہے، جیسے ڈریگن، پوکی مان وغیرہ کارٹون اسی نوعیت کے ہیں، بچوں کو کارٹونوں کے حوالہ کرنا در اصل انھیں تشدد کی راہ دکھلانا ہے، کارٹون دیکھنے والے بچوں پر کی جانے والی نفسیاتی تحقیق سے تین اہم نتائج برآمد ہوئے ہیں: (۱)ایسے بچے بے حس ہوجاتے ہیں اور انھیں دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر کوئی احساس نہیں ہوتا۔ (۲) ایسے بچے جو مسلسل تشدد کا مشاہدہ کرتے ہیں وہ تشدد سے عام طور پر بے خوف اور اس کے عادی ہوجاتے ہیں۔ (۳) پھر ایسے بچے خود متشدد مزاج ہوکر اس راہ کو اپنالیتے ہیں، ماہرین نے اس بات کا اظہار کیا ہے کہ میڈیا میں پیش کیا جانے والا تشدد حقیقی زندگی میں پائے جانے والے تشدد کی ایک اہم وجہ ہے، جس کے خلاف والدین اور ماہرین اطفال کو قدم اٹھانا چاہیے، جو بچے ا یسے پروگرام دیکھتے ہیں جن میں تشدد کو حقیقت سے قریب تر کرکے دکھایا جاتاہے وہ اس بات پر عمل کرنے کی کو شش کرتے ہیں، نیز ایسے بچے اپنے مسائل کا حل تشدد کی راہ میں تلاش کرلیتے ہیں۔(شاہراہ علم مئی، جون، جولائی ۲۰۱۹ئ)بالغوں کے لیے بننے والی کارٹونی فلموں میں ماردھا ڑ کے مناظر کثرت سے دکھائے جاتے ہیں،ایک رپورٹ کے مطابق بچوں کی کارٹون فلموں میں کردار عام فلموں کے مقابلہ میں دُگنے سے زیادہ مرتے نظر آتے ہیں،کارٹونوں میں خوفناک اور پرتشدد مناظر کی بھر مار ہوتی ہے، اس کی مثال ٹوم اینڈ جیری کارٹون ہے، بعض کارٹونوں میں خنجر سے وار کرنے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں، بعض میں جانوروں کو انسانوں پر حملہ کرکے دکھایا گیا ہے، ماہرین کے مطابق موجودہ دور کے ۹۹فیصد کارٹون اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔
حقیقت سے فرار کی ذہنیت:  کارٹون بینی کی ایک خرابی یہ ہے کہ جو بچے طویل عرصہ تک اس لت میں مبتلا ہوتے ہیں وہ حقیقی دنیا سے دور ہوتے جاتے ہیں اورایک خیالی دنیا میں جینے لگتے ہیں، ایسی خرابی کا شکار بچے تعلیم اور کھیل کود کی سرگرمیوں سے خود کو الگ کرلیتے ہیں، والدین، رشتہ دار اور دوست واحباب سے لاتعلق ہوجاتے ہیں، ایسے بچے اکثر تنہائی پسند ہوجاتے ہیں، اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہوکر ذہنی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں، ایک کالم نگار اپنے کالم میں لکھتے ہیں کہ کارٹون وغیرہ دیکھ دیکھ کر بچوں خیالوں کی دنیامیں گم ہوجاتے ہیں، خیالوں کی دنیا میں گم گشتہ بچوں کے خواب جب حقیقت کے بے رحم اور سخت ہاتھوں سے چکناچور ہوتے ہیں تو وہ اس صدمہ کو برداشت نہیں کرتے اور خود کشی کرلیتے ہیں، بچوں کے خیالی تصورات کی شدت کا اندازہ اس سے لگایئے کہ دور درشن پر شکتی مان پروگرام شروع ہوا، جس میں ایک ہیرو جس کا نام شکتی مان ہے، ہر مظلوم کی فریادرسی کو پہنچتا ہے، خاص طور پر بچے جب بھی کسی مشکل میں گرفتار ہوتے ہیں تو شکتی مان پہنچ جاتا ہے۔ پٹنہ میں ایک بچہ اس پروگرام سے اتنا متأثر ہوا کہ اس نے چھت پر چڑھ کر آواز لگائی شکتی مان میری مدد کرو،اور نیچے کود پڑا، شکتی مان کو نہ آنا تھا وہ نہ آیا، لیکن بچہ نے اپنی جان ضرور گنوادی ، اس کے والدین اس سے حادثہ سے اتنے متأثر ہوئے کہ وفور غم میں اس پروگرام کے ہیرو اور پروڈیوسر کے خلاف پٹنہ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا۔
مال اور وقت ضیاع:  کارٹون بینی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ بچے اپنی زندگی کے قیمتی لمحات ضائع کرتے ہیں، گھنٹوں کارٹون بینی میں مشغولیت سے اُن کی تعلیم متأثر ہوجاتی ہے، کھیل کود اور جسمانی صحت سے متعلق سرگرمیاں ٹھپ پڑ جاتی ہیں، ماہرین کی رائے ہے کہ ٹی اور ویڈیو کلچر بچوں پر برا اثر ڈالتا ہے، نیز بچوں کی فطری ذہانت اور سادگی کو زنگ لگاتا ہے، ٹی وی کو وقت گزاری کا ذریعہ سمجھاجاتا ہے، حالاں کہ اس قیمتی وقت کو بچوں کے لیے مفید بنایا جاسکتا تھا، بچے کا جو وقت مہارتوں اور زبانی تخلیق اور فنی صلاحیتوں کے حصول میں صرف ہونا چاہیے وہ کارٹون بینی میں ضائع ہوجاتا ہے، وقت کے ساتھ مال کا ضیاع بھی ہے، کارٹون کیسے والدین کا پیسہ ضائع کرتے ہیں اس کی ایک مثال یوں ہے کہ دس روپئے میں بکنے والا کھلونا ’’یولو‘‘نام کا بچوں کی سیریز کے بعد پانچ سو یا اس سے زیادہ کا بکنے لگا، ایسے ہی دس روپئے میں بکنے والا لٹو’’بی بلیڈ‘‘ کے بعد ہزارہا روپئے میں بکنے لگا، کیوں کہ اس پر جذباتی ہیرون ازم کی چھاپ لگ چکی ہے، میک ڈانلڈز جیسی کمپنیاں چند سینٹ قیمت پر مشتمل آلو کے چپس نیگٹس اور کولڈڈرنک کئی ڈالرز میں فروخت کررہی ہیں، کیوں کہ انھوں نے اس پیک میںمشہور کارٹونز کے کھلونوں کا اضافہ کردیا ہے (oyefپورٹل)
جسمانی صحت کو لاحق نصانات: کارٹون بینی کا سب سے بڑا اثر جسمانی صحت پر پڑتا ہے،اس سے بچوں کی صحت بری طرح متأثر ہوتی ہے، صحت انسان کا سب سے بڑا سرمایہ اور عطیۂ خداوندی ہے، صحت ہی پر سارے کام موقوف ہوتے ہیں، صحت سے محروم انسان ہرقسم کے کار ِخیر سے عاجز آجاتا ہے، انسان صحت کی ہی بنیاد پر زندگی کے لمحات کو کارگر بناتا ہے، بچپن جسمانی نشوونما کا زمانہ ہوتا ہے، جس میں بچوں کو صحت مندانہ سرگرمیوں کی شدید ضرورت ہوتی ہے، کارٹون بینی کے عادی بچے صحت مندانہ سرگرمیوں کو ترک کردیتے ہیں، ایک جگہ مستقل بیٹھنے سے مختلف بیماریوں کے لاحق ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے، زیادہ دیر تک کارٹونز دیکھنے والے بچوں میں چھوٹی عمر ہی سے نظر کی کمزوری، درد سر اور نیند میں کمی جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں، پرانے زمانوں میں بالعموم بڑھاپے میں نظر کمزور ہوتی تھی، لیکن عاصر حاضر میں کم سن بچے تک چشموں اور عینکوں کے محتاج ہونے لگے ہیں۔ ایک میڈیکل رسالہ (Pediatrics) کے اپریل ۲۰۰۴ء کے شمارہ میں شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق کم عمر بچوں کو ٹی وی دیکھنے سے سات سال کی عمر میںتوجہ کی کمی کی شکایت پیدا ہوتی ہے، امریکہ کے ایک ملکی سروے کے مطابق ۱۶ -۸سالہ بچوں میں ۲۵ فیصد بچے ہر روز کم از کم چار گھنٹے ٹی وی دیکھتے ہیں اور ایسے بچے وزن کی زیادتی کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں، نیز مسلسل ٹی وی دیکھنے سے بچے کا ذہن سُن ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے بچہ عملی میدان میں اقدام کرنے کی صلاحیت کھودیتا ہے۔ دسمبر ۱۹۹۷ء میں (یوکیمون) نامی کارٹون کی ایک قسط نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی، اس کارٹون کو دیکھنے کے بعد بچوں میں دورے پڑنے کی شکایات موصول ہوئیں(شاہراہ علم، مئی،جون، جولائی ۲۰۱۹ئ)
گانے بجانے سے دلچسپی : بیشتر کارٹونوں میں کارٹون کے بہانے بچوں کو گانے بجانے کا عادی بنایا جاتا ہے، ناچ گانا اور میوزک شریعت کی نگاہ میں ناپسندیدہ اور گناہ کی چیز ہے، ارشاد خداوندی ہے: وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْن۔(لقمان:۶) اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں ک خریدار بنتے ہیں؛ تاکہ ان کے ذریعہ لوگوں کو بے سمجھے بوجھے اللہ کے راستے سے بھٹکائیں۔آیت کی تفسیر کے ذیل میں مفسر قرآن حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ تحریر فرماتے ہیں: ’’آیت ِمذکورہ لھو الحدیث کے معنی اور تفسیر میں مفسرین کے اقوال مختلف ہیں، حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ، حضرت عبد اللہ ابن عباسؓ اور حضرت جابرؓ کی ایک روایت میں اُس کی تفسیر گانے بجانے سے کی گئی ہے(رواہ الحاکم وصححہ البیہقی) جمہور صحابہ وتابعین اور دیگر مفسرین کے نزدیک لھو الحدیث عام ہے، تمام اُن چیزوں کے لیے جو انسان کو اللہ کی عبادت سے غفلت میں ڈال دیں، اس میں غنا اور مزامیر بھی شامل ہیںاور بیہودہ قصے کہانیاں بھی، امام بخاریؒ نے اپنی کتاب ’’الادب المفرد‘‘ میں اورامام بیہقیؒ اپنی ’’سنن‘‘ میں لہو الحدیث کی یہی تفسیر اختیار کی ہے، اس میں فرمایا کہ لہو الحدیث سے مراد گانا اور اس سے مشابہ دوسری چیزیں ہیں‘‘(تفسیرمعارف القرآن)
میوزک کے نقصانات :  جولوگ میوزک کے عادی ہوتے ہیں وہ مقصد ِزندگی سے غافل ہوجاتے ہیں، میوزک میں مشغول انسان عیش اور لذت کوشی میں اس قدر مگن ہوجاتا ہے کہ اسے اپنے فرائض اورذمہ داریوںسے کوئی سروکار نہیں ہوتا، مفتی ابو لبابہ شاہ منصور کے بقول میوزک کی دنیا میں ’’بیک ٹرکنگ‘‘ ذہنوں کو گرفت میں لینے کی ایک خفیہ ٹیکنک ہے، موسیقی کے شائقین جو کچھ سنتے ہیں وہ ٹریک کا فارورڈ پلے ہوتا ہے، اس کے ساتھ ہی ریورس میں ٹریک میسج چھپا ہوتا ہے، اس کا معاملہ عجیب متضاد ہوتا ہے، یہ ہمارے شعور کی گرفت میں نہیں آتا، لیکن لاشعور اسے قبول کئے بغیر نہیں رہ سکتا، یہ ہمارے شعور پر منکشف نہیں ہوتا، لیکن ہمارا لا شعور اسے ڈیکوڈ کرکے قبول کرلیتا ہے، جب ٹریک کو بیک ورڈ چلایا جائے تو اس میسج یا پیغام کو سنا جاسکتا ہے، یہ اس وقت ہوتا ہے جب ایک ریکارڈ یا کیسٹ کو الٹا چلایا جاتا ہے، اصل پیغام اسی میں چھپا ہوتا ہے۔
موسیقی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے نفاق پیدا ہوتا ہے، حدیث شریف میں وارد ہے کہ گانا، میوزک دل میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی سبزی کو بڑھاتا ہے، جس دل میں نفاق کی فصل اُگنے لگے وہ کبھی ایمانی بشاشت سے آشنا نہیں ہوسکتا، میوزک کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی اس کی وجہ سے فحاشی اور عریانیت کا دل دادہ ہوجاتا ہے، اکثر لوگ موسیقی کی لت میں پڑ کر عریانیت وفحاشی کے دلدل میں پھنس جاتے ہیں۔
(جاری ہے)

a3w
a3w