کاش ایسا ہوتا

مظہر قادری
لوگ کہتے ہیں کہ خوشی بانٹے سے بڑھتی ہے اورغم بانٹے سے کم ہوتا ہے،مگرچنوبھائی کا خیال ہے کہ یہ سب بولنے کی باتیں ہیں ناتوکوئی خوشی بانٹ سکتا اورناہی غم۔پھربھی خوشی بانٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگرکسی کو کچھ پیسے ملے اوروہ خوش ہورہاہے، اس میں سے آدھے پیسے مانگ کر اس کی خوشی بانٹ سکتے، لیکن غم اس لیے نہیں بانٹ سکتے کہ اگرکسی کے گھر میں کوئی مرگیا تواس کا غم بانٹنے کے لیے میت کا آدھا جسم لے کر کوئی نہیں جاتا۔لوگ خوشی بانٹنے اورغم بانٹنے کا اکثر ناٹک کرتے ہیں۔کسی کو اگرکچھ فائدہ ہوایاخوشی ہوئی تواس کے سامنے خوشی کا اظہارکرتے ہیں، لیکن باہر نکلتے ہی اپنی بدقسمتی کا ماتم کرتے کہ کیسے کیسوں کودیاہے،ایسے ویسوں کو دیاہے اوردعاکرتے کہ ”مجھ کو بھی تولفٹ کرادے،موٹربنگلہ کاردلادے،ایک نہیں دوچاردلادے“ اسی طرح غم میں بھی سامنے والے سے غم کا اس سے بڑھ کر اظہارکرتے اورباہر نکل کر شکر بھیجتے کہ اچھاہوایہ براہمارے ساتھ نہیں ہوا۔ایک بیوی اپنے شوہر کا ماتم کرتے ہوئے رورہی تھی کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہی مرجاتی تو مجمع میں سے کوئی بولا قبربہت بڑی کھودے، جگہ ہے۔
اگرحقیقت میں کاش خوشی اور غم بانٹ لینے کا کوئی قانون قدرت رہتا تولوگ سب سے پہلے سامنے والے کی یاتودولت بانٹ لیتے یاصحت بانٹ لیتے۔اورایسا ہونے کی صورت میں دنیا کچھ اس طرح ہوتی۔بیٹا دولت مند باپ کو بولتا کل سے آپ فٹ پاتھ پر بیٹھیے، میں محل میں رہتا ہوں، اور صحت کے معاملے میں باپ بیٹے کو بولتا بیٹا تمہاری آنکھ تھوڑی دیر کے لیے دے دو مجھے کچھ پڑھنا ہے یابیوی شوہر کو بولتی میرے گھٹنوں میں بہت دردہورہاہے،تھوڑی دیر کے لیے آپ کے گھٹنے دیومیں جاکر جلدی شاپنگ کرکے واپس آکر دے دیتیوں جب تک آپ گھرمیں ہی بیٹھئے۔آپ کا دل سگریٹ پینا چاہ رہاہے، لیکن پھیپھڑے خراب ہیں توآپ اپنے دوست کو بولتے اپنے پھیپھڑے تھوڑی دیر کے لیے ادھاردیو،ایک سگریٹ پی کر واپس کردیتاہوں۔بچہ اسکو ل میں جھگڑا کرکے آتا اوربڑے بھائی کو بولتاکہ ذرا آپ کے دونوں ہاتھ دیو میں ابھی اس کو مزہ چکھاکر آکر واپس کردیتاہوں۔بیوی کی زبان وہ واحد چیزہوتی ہے جو کوئی شوہر تھوڑی دیر بھی ادھار لینا پسند نہیں کرتا۔البتہ بیوی جب جب سسرال والے ملنے آئے توشوہر سے اس کی شرافت مانگتے رہتی تاکہ سسرال میں اپنا مقام باقی رہے اورانہیں اصلیت کا پتہ نہ چلے۔عموماً بوڑھے جب شام میں کسی نہ کسی دعوت میں اگرجاناہوتوکسی کے دانت ادھا رمانگ کر لے جاتے تاکہ دعوت میں اچھا کھینچ سکے۔بوڑھی مائیں تواپنی نوجوان بیٹیوں کی زندگی حرام کردیتی کبھی ان کے کالے بال مانگتی، کبھی خوبصورت آنکھیں مانگتی،کبھی ناک مانگتی یااپنا جھریوں بھرا چہرہ ان کے شاداب چہرے سے بدل کے باہر جاتی۔خوشیاں توصبح وشام سب سے سب ضرورتمند مانگتے رہتے، لیکن تکلیف اورغم کوئی نہیں مانگتا۔بلکہ اگرکوئی کچھ تکلیف میں مبتلاہے معلوم ہوا توایسے وقت اس کے گھر بھی نہیں جاتے بلکہ اگرکوئی بیمارہوابول کے معلوم ہواتواس کا نمبر بھی بلاک کردیتے۔بھیجہ ایک واحد عضورہتا جو ہمیشہ مختلف کام کرتے رہتا۔یہ سب دوسرے تمام اعضاء کے مقابلے جومحدودکام کرتے، اس کے مقابل لامحدودرہتا۔کوئی ڈاکٹر رہتا،کوئی انجینئر رہتا،کوئی بہت بڑابزنس مین رہتا، توکوئی بہت شاطر چوررہتا اورلوگ حسب ضرورت لوگوں سے بھیجہ مانگ کر اسے استعمال کرکے فائدہ اٹھاتے رہتے۔صرف شریف اورنیک نفس لوگوں کا بھیجہ کوئی نہیں مانگتا۔سب سے زیادہ ڈیمانڈ لیڈ رکے بھیجے کا رہتا جوکبھی اس کے پاس نہیں رہتا۔کوئی نہ کوئی ضرورت مند حسب ضرورت اسے کرائے پر یاادھا رلے کر مسلسل لوگوں کو بیوقوف بناکر فائدہ اٹھاتے رہتا۔
اب آئیے انسان کے سب سے نازک عضویعنی دل کی جانب۔ دوست کا دل ادھار لے جاکر اس کی گرل فرینڈ سے عاشقی کرکے واپس آجاتے اورسب سے زیادہ فائدہ تواس دل کے ادھارلینے کا اولاداٹھاتی۔اگرباپ جائیدادکا بٹوارہ کیے بغیر مرگیا تواماں کو بولتے تھوڑی دیر کے لیے باواکو دل دیو،انوں زندہ ہوگئے توہم لوگ سارے جائیداد کے کاغذوں پر دستخط کروالیتے پھراس کے بعد آپ اپنا دل واپس لے لیوآپ کا بھی حصہ مل جائے گا۔۔۔۔۔
قدرت کو انسان کی یہ خودغرض فطرت معلوم تھی، اس لیے ایسا کوئی نظام نہیں رکھا۔۔۔
ان کے دل کو میرے دل سے کیوں بدل ڈالے
ان کے یاداں مجھے ستاتے ہیں
جتنے عاشق تھے ان کے دنیا میں
میرے خوابوں میں آکو ستاتے ہیں