مضامین

کانگریس کی بھارت جوڑو یاترا

زکریا سلطان

ہندوستان کی سب سے قدیم سیاسی جماعت کانگریس آج بھی مضبوط ہے ۔ہمیں اس حقیقت کو قبول کرنا ہوگا کہ کانگریس کے بنا اپوزیشن اتحادادھورا ہے اور کانگریس کی مدد کے بغیر بی جے پی کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔کانگریس کے مخالفین کی جانب سے ایک منظم منصوبہ بند سازش کے ذریعہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ کانگریس اب بہت کمزور ہوچکی ہے اور کانگریس مکت بھارت کا خواب جلد پورا ہونے کو ہے۔حالانکہ حقیقت کچھ اور ہی ہے۔کانگریس مکت بھارت بنانا کوئی آسان کام نہیں، یہ کوئی بچوں کا کھیل نہیںہے کہ کسی نے کانگریس مکت بھارت کا نعرہ لگادیا اور کانگریس مکت بھارت وجود میں آگیا،یہ ایک خواب و خیال اور خوش گمانی ہوسکتی ہے مگر حقیقت نہیں۔ جس پارٹی کے ملک کی پچیس ریاستوں میں زائد ازساڑھے چھ سو اراکین اسمبلی، پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں لگ بھگ ایک سو ارکان ہیں، جو کئی ریاستوں میں اب بھی برسراقتدار ہے، کیا ان سب کا خاتمہ ہوکر بات یوں ہی صفر پر آجائے گی؟ جواہر لال نہرو، اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جیسے کانگریس کے قد آور قائدین کی وفات و شہادت کے باوجود پارٹی ختم نہیں ہوئی تو اب کیوں اس بات کا شوشہ چھوڑا جارہا ہے کہ کانگریس اب ختم ہونے والی ہے ، حالانکہ ان سب کے درمیان سیتارام کیسری اور نرسمہاراﺅ جیسے نام نہاد کانگریسی رہنمابھی آئے جن کی سازشوں اور مکر و فریب سے کانگریس اور نہرو خاندان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، مگر سونیا گاندھی کی دانشمندی اور اعلیٰ صلاحیتوں والی قیادت نے کانگریس کو بھنور سے باہر نکالا ،یہ ان کی دور اندیشی اور دانشمندی تھی کہ انہوں نے نازک ترین حالات میں ڈاکٹر منموہن سنگھ جیسے با صلاحیت اور اعلیٰ تعلیمیافتہ کم گو اور مہذب شخص کو ملک کا پہلا سکھ وزیر اعظم مقرر کرکے ایک تاریخ رقم کی، پھر رفتہ رفتہ ان کے بچوں راہول گاندھی اور پرینکا گاندھی نے بھی اپنے والد کی المناک شہادت کے صدمہ سے باہر نکل کر بڑے بلند عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنی ماں کا ساتھ دیتے ہوئے ملک و قوم اور جمہوریت کو بچانے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کردی اور آج بھی وہ سخت محنت کررہے ہیں،کیا ملک میں بی جے پی اور کوئی دوسری ایسی پارٹی ہے جس کے خاندان نے ایسی شاندار فقیدالمثال خدمات اور قربانیاں دے کر ہندوستان کو ایک عظیم ملک بنایا اور ساری دنیا میں ہندوستان کا نام اونچا کیا۔ اس کے برعکس بی جے پی نے ملک کو کیا دیا سب ہی جانتے ہیں۔رہی بات کسی کے پارٹی چھوڑ جانے کی تو اس سے کوئی خاص فرق پڑنے والا نہیں ہے۔ سیاست میں یہ تو ہوتا ہی رہتا ہے، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں، کیا بی جے پی اور دوسری پارٹیوں کے لیڈر پارٹی چھوڑ کر نہیں جاتے اور دوسری پارٹیوں کے لیڈر ان کی پارٹیوں میں شامل نہیں ہوتے ؟ تو پھر کانگریس پرنشانہ، خصوصی توجہ اور چیخ پکارکیوں؟ ً جب کوئی نکما اور حریص قسم کا بے فیض لیڈرکانگریس جیسی پارٹی سے جاتا ہے تو اس سے پارٹی کو نقصان نہیں فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ عموماً خود سے نہیں جاتے بلکہ انہیں اکسایا جاتا ہے اور ان کے پیچھے کسی کی آنکھ اور کسی کا ہاتھ ہوتا ہے، انہیں زبردست پیشکش کی جاتی ہے، سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور لالچ دی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ جھانسے میں آجاتے ہیں ،ان کی پشت پناہی کرنے اور انہیں اپنا غلام بناکراستعمال کرنے والوں کی سازش بھی زیادہ عرصہ تک راز میں نہیں رہتی اور قلعی بالآخر کھل ہی جاتی ہے ۔ملک میں ایسے قائدین بھی ہیں جن کے پاس کل درجن بھر ایم ایل ایز اور دو چار ارکان پارلیمنٹ بھی نہیں ہیں مگر وہ بڑی بڑی باتیں اور دعوے کرتے ہیں،ملک کی سیاست میں قومی سطح پر اپنے کردار کو بڑھاچڑھاکر حقیقت سے زیادہ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ کانگریس کے مقابلہ میں وہ بونے ہیں !!!
راہول گاندھی کی قیادت میں کانگریس اب بھی کافی مضبوط ہے،وہ بی جے پی کاڈٹ کر مقابلہ کرتے ہوئے ہر محاذ پر مودی کی بی جے پی کو ٹکر دے رہے ہیں۔ ملک و عوام کے حق میں جمہوری اور قانونی انداز میں پوری قوت کے ساتھ بھرپورمقابلہ کیا جارہا ہے، راہول گاندھی ایک زبردست سیاسی جنگ لڑرہے ہیں ۔ تین ہزار پانچ سو کیلو میٹر کی بھارت جوڑو یاترا اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔یہ بی جے پی کو بہت برا لگ رہا ہے اوربی جے پی واضح طور پر راہول گاندھی کی جہدِ مسلسل سے پریشان اور خوفزدہ ہوکر مختلف ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے، ان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کیا جارہا ہے، سرکاری اور درباری میڈیا بھی کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتااور وقتاً فوقتاً کانگریس پر حملے کرنے اور پارٹی میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے، اس کام کے لیے ایجنٹوں کو بھی خوب استعمال کیا جارہا ہے، مگر کانگریس قائدین راہول کی قیادت میں بھرپور مدافعت کررہے ہیں جوقابل تعریف ہے۔ کانگریس کے ساتھ ساتھ دوسری اُن سیکیولر پارٹیوں کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے جو بی جے پی کی عوام اور کسان دشمن پالیسیوں کی مخالفت میں پیش پیش ہیں۔سارا ملک دیکھ رہا ہے کہ چند ایسی بھی پارٹیاں اور لیڈر ہیںجو برسہا برس بی جے پی کی تائید و حمایت کرتے ہوئے مودی کی جی حضوری کرتے رہے وہ اب بی جے پی مکت بھارت کی بات زور و شور سے کرنے لگے ہیں کیوں کہ ان کے سروں پر بھی مودی کی قیادت میں بی جے پی نے زوردار ڈنڈا لگایا اور دغا دی ہے جس سے وہ ہڑبڑا کر بوکھلا ہٹ کا شکار ہوگئے اورپھر بپھر کر بی جے پی پر حملہ آور ہونے کے لیے اپنی اپنی ریاستوں سے بی جے پی مخالف مہم چلانے کے لیے نکل پڑے ۔ حیرت ان حضرات کی عقل و سیاست پر بھی ہوتی ہے جنہوں نے بہار، اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میںبی جے پی کی مدد کی اور اسے اقتدارپر واپس لانے کے لیے عمداً ووٹ کٹوائے، آج وہی قیادت بی جے پی کی مدارس و مساجد اور مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کاروائیوں پر میڈیا اور ٹوئٹر کے ذریعہ بیان بازی کرکے شور مچارہی ہے، واویلا کررہی ہے۔ کیسی عجیب دوغلی پالیسی ہے اور کیسی مکروہ سیاست ہے۔تُف ہے ایسی گھٹیا اورلعنت زدہ سیاست پر!!!
رہی بات بی جے پی کی تو جان لیجئے کہ لنگڑی لولی بی جے پی دراصل دو بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے ۔بغل میں دبی ایک بیساکھی فرقہ پرستی کی ہے ، دوسرے بغل میں بڑے سرمایہ داروں،گودی میڈیا اور ای وی ایم کی بیساکھی ہے۔ ان دوبیساکھیوں کی مدد سے کھڑی بی جے پی نے ملک کے تمام بڑے اہم اداروں اور ایجنسیوں کو یرغمال بنارکھا ہے جن کا بیجا استعمال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ، اسی بات کو لے کر اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور عوام کی بڑی بھاری تعداد ملک کے موجودہ حالات اور مستقبل کو لے کر کافی فکر مند ہیں۔ آج ملک میںقانون و دستور کا غلط استعمال بلکہ استحصال ہورہا ہے اور بری طرح پامال کیا جارہا ہے۔برسراقتدار بی جے پی کو نہ ملک کی فکر ہے نہ عوام کی، فکر ہے تو بس چند ایک اپنے محبوب سرمایہ کاروں کی اور اپنے اقتدار کی۔مہنگائی، افلاس، بیروزگاری، بدعنوانی عروج پر ہے، ملکی معیشت تباہ و بربادہوکر رہ گئی ہے ، امن و امان کی صورتحال ابتر ہے، جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ چل رہا ہے اور بی جے پی چاہتی ہے کہ ساری لاٹھیاںاسی کے قبضہ میں ہوں۔ کہنے کو تو بی جے پی ایک بڑی منظم جماعت ہے، مگر عملی طورپر صرف دو چار حضرات ہی کی حکمرانی چل رہی ہے جومن مانی کرتے ہوئے غیر منصفانہ اور متنازعہ فیصلے کررہے ہیں، خود اپنی ہی پارٹی کے کئی لیڈروں کو حاشیہ پر لگا رکھا ہے ، مخالفت کرنے والے اپوزیشن قائدین کو ای ڈی اور سی بی آئی سے ڈرا دھمکا کر خوفزدہ کرتے ہوئے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ جی حضوری کرنے اور ہاں میں ملانے والوں کے سارے گناہ اور جرم معاف کیے جارہے ہیں، حالات تشویشناک ہیں۔ غیر بی جے پی ریاستی حکومتوں کو توڑنے اور ان کے اراکین کو خریدنے کاکام کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ موجودہ حالات میں کانگریس کا مضبوط رہناانتہائی ضروری ہے کیوں کہ کانگریس ہی وہ واحد پارٹی ہے جو قومی سطح پر بی جے پی کا مقابلہ کرسکتی ہے اور کربھی رہی ہے۔ بعض خود غرض اور موقع پرست عناصرکانگریس کو کمزور کرنے کی مسلسل کوشش کر رہے ہیں ۔ کچھ قائدین برسوں کانگریس سے جڑے رہے اور ملک کی قدیم ترین پارٹی کے ذریعہ نام، بڑے بڑے عہدے ،دولت شہرت، عزت سب ہی کچھ حاصل کیا اور کانگریس ہی کی بدولت سیاسی میدان میں اپنے قدم جما ئے، پھرجب کانگریس نے ان کے ناجائز مطالبات کو قبول کرنے سے انکار کردیا تو ان کے ذاتی مفادات پر ضرب پڑی اور وہ کانگریس کے شدید مخالف ہوگئے، الزام تراشیاں کرکے کانگریس کو بدنام کرنے لگے یہاں تک کہ کانگریس کی مخالفت اور دشمنی میں بی جے پی اور آر ایس ایس کو فائدہ پہنچاکر طاقتور بنانا شروع کردیا ۔ الٹی سیدھی بیان بازی کرکے خود سرخیوں میں رہنا اورزعفرانی تنظیموں کو فائدہ پہنچانا سراسر خود غرضی اور مفاد پرستی نہیں تو اور کیاہے جس سے ملک وملت کو شدیدنقصان پہنچ رہا ہے۔ جمہوریت اور سیکیولرازم کمزور ہو رہے ہیں۔ حالات انتہائی خراب اورتشویشناک ہیں۔بی جے پی کے عزائم ،اس کی مسلمانوں کے خلاف سازشیں، فرقہ پرستی اور کھلی عصبیت سب پر واضح ہوچکے ہیں اس کے باوجود لوگ اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے میں مصروف ہیں ۔ملک میں لا قانونیت عروج پر ہے ، خواتین کی عزت داﺅ پر لگی ہوئی ہے ، بے ایمانی اور قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے۔اجتماعی عصمت ریزی اور قتل کی سنگین وارداتوں میں ملوث مجرمین کو جیل سے رہا کیا جارہا ہے جس کی ملک کے کونے کونے سے ہندو مسلم سکھ عیسائی سب ہی مذمت کررہے ہیں مگر موٹی چمڑی والے بے حس مردہ ضمیر گدیوں پر بے شرمی سے بیٹھے ہوئے ہیں۔مختصر یہ کہ بی جے پی حکومت بری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ مسئلہ کا واحد حل "بی جے پی ہٹاﺅ ملک بچاﺅ” یعنی بی جے پی مکت بھارت ہے اور بی جے پی کو ہٹانے کے لیے کانگریس کو مضبوط ،مستحکم و منظم کرنا اور راہول گاندھی کو صدارت کے لیے راضی کرکے ان کا ساتھ دینا اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنابہت ضروری ہے۔
٭٭٭

a3w
a3w