مضامین

کرناٹک میں فرقہ پرستی کا کھیل پھر شروع

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

ملک میں جب کبھی الیکشن کا مرحلہ آ تا ہے، فرقہ پر ست طاقتیں سماج کے سیکولر تانے بانے کو توڑنے کی کوششوں میں لگ جا تی ہیں تا کہ اس کے ذریعہ اپنے سیا سی مقاصد کی تکمیل ہوسکے۔ کرناٹک میں عنقریب ریا ستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں ۔ اس لیے دانستہ طور پر پوری ریاست کوفرقہ پر ستی کی آگ میں جھلسا دینے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ خاص طورپر شیر ِ میسور ٹیپوسلطان شہید کی بے داغ شخصیت کو داغدار کرنے اور ان کے مثالی کارناموں کو غلط انداز میں پیش کرنے کی سازش رچائی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں کرناٹک بی جے پی کے صدر نے 18 ویں صدی کے میسور کے اس حکمراں کے تعلق سے جس اشتعال انگیزی کا ثبوت دیا اس سے فسطائی ذہنیت رکھنے والوں کی کوتاہ ذہنی اور مسلم حکمرانوں سے ان کی نفرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بی جے پی صدر نے اپنے انتہائی زہریلے بیان میں یہ کہا کہ جو لوگ ٹیپو کے شیدائی ہیں ان کو اس زرخیر سرزمین پر زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ ٹیپو سلطان کی اولاد کو کھدیڑ کر جنگلوں میں بھیج دیا جائے۔ ٹیپو سلطان کا نام لینے والوں کو ختم کردینے اور مٹادینے کا اعلان خود ایک کھلی دہشت گردی ہے، لیکن بیان دینے والے برسرِ اقتدار پارٹی کے سربراہ ہیں، اس لیے ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ ایک ایسا حکمراں جس نے مذہبی رواداری کی مثال قائم کی اورجس کے دورِ حکومت میں ہر طرف فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نمونے دیکھے جا سکتے تھے، ایسے بادشاہ کے خلاف اس قسم کی جارحانہ گفتگواس بات کا ثبوت ہے کہ کرناٹک میں کھلم کھلافرقہ پرستی کوبڑھاوا دیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی ریاستی بی جے پی کے صدر نلن کمار کتیل نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ کرنا ٹک اسمبلی کے انتخا بات ٹیپو بنام ساور کر ہو ںگے۔ ٹیپو کو ظالم اور ہندو دشمن بادشاہ کے طور پر پیش کرکے تاریخی حقائق پرپردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ ہندوستان کے کئی نامور مورخین نے اپنی شبانہ روز کی تحقیق کے ذریعہ ثابت کر دیاکہ ٹیپو ایک سچا محب وطن اور بہادر حکمران تھا۔ اس نے انگریزوں کے خلاف جو جدوجہد کی اس کی مثال ملنا بہت مشکل ہے۔ٹیپو ، مادر وطن کا وہ مایہ ناز سپوت ہے جس نے کبھی انگریزوں کی غلامی کو قبول نہیں کیا ۔ وہ ہمیشہ انگریزوںکے خلاف ڈٹا رہا۔ ٹیپو سلطا ن کی شہادت پرہی انگریز جنرل نے کہا تھا کہ ”آج سے ہندوستان ہمارا ہے“ ایسے حریت پسند حکمراں کے کارناموں کو مسخ کر کے پیش کرنااوریہ کہنا کہ ٹیپو کے وفاداروںکو اس ملک میںرہنے کا حق نہیں ہے۔ یہ دراصل ٹیپو سلطان کو بدنام کرنے کا سیاسی حربہ ہے، لیکن تاریخ کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ بی جے پی ٹیپو سلطان جیسے فاتحِ زمانہ کی کردار کشی کرتی ہے تویہ ملک کی خدمت نہیں بلکہ بد خدمتی ہے۔ لیکن اقتدار کی ہوس نے بی جے پی قائدین کے ذہنو ں کو اتنا ماو¿ف کر دیا کہ وہ ٹھوس حقیقتو ں کو بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ملک کے ممتاز مورخ اور سابق گورنر اڈیشہ بشمبر ناتھ پانڈے نے اپنی پوری عمر تحقیقی طور پراس بات کو ثابت کرانے میں لگا دی کہ اورنگ زیب اور ٹیپو سلطان ہر گزفرقہ پر ست نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنے دور حکمرانی میں ہندوو¿ں کو کئی مراعات دی تھیں۔ ان کے دور میں کسی مندر کی بے حرمتی نہیں کی گئی اور نہ کسی کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر کوئی امتیاز برتا گیا۔ یہ دونوں حکمراں مذہبی رواداری کے زبردست علمبردار تھے۔ لیکن افسوس کہ ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں ان دونوں کے خلاف جو زہر اُ گلاجا رہا ہے وہ نا قابلِ یقین ہے۔یہ سب ووٹوں کی سیاست کا نتیجہ ہے۔ اس کے بڑے خطرناک نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
جنوبی ہند کی ریاست کرناٹک میں جب سے بی جے پی اقتدار پر آئی ہے، مسلمانوں کو کسی نہ کسی عنوان پر ستایا جانے لگا ہے۔ گز شتہ چند برسوں سے یہ سلسلہ دراز ہو گیا ہے۔ کبھی لو جہاد کے نام پر اور کبھی مسلم لڑکیوں کے نقاب کے مسئلہ کو لے کر نفرت اور تعصب کی فضاءپیداکرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاستِ کر ناٹک کو ہندوتوا کی نئی تجربہ گاہ بنانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بی جے پی نے کرناٹک کے عوام اور خاص طور پر غریبوں کی فلاح و بہبود کا کوئی کام نہیں کیا۔ الیکشن سے پہلے جو بلند بانگ دعوے کیے تھے، اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔ البتہ عوام کی توجہ اصل اور حقیقی مسائل سے ہٹانے کے لیے متنازعہ موضوعات کو چھیڑا گیا۔ کرناٹک میں بی جے پی کوجب بھی اقتدار پر آنے کا موقع ملا، یہ ریاست فرقہ وارانہ ہنگاموں کا شکار ہوتی گئی۔ خاص طور پر اس میعاد کے دوران بی جے پی کی ریاستی حکومت نے اپنے فرقہ پرستی کے سارے سابق ریکارڈ توڑتے ہوئے پوری ریاست کو فرقہ پرستی کے زہر سے آلودہ کر دیا۔حصولِ اقتدار کے لیے وہ سارے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں جو جمہوری نظام کے عین خلاف ہیں۔ حلال گوشت کے خلاف مہم چلانا، لاو¿ڈاسپیکر پر اذان دینے پر پابندی عائد کرنا اور ہندوو¿ں کے مخصوص تہواروں کے موقع پر ہنومان چالیسہ کرانا وغیرہ کرناٹک کی حکومت کا شیوہ بن گیا۔ گزشتہ ایک سال سے اسکولوں کے ڈریس کوڈ کے نام پر مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر پابندی لگا کر مسلم لڑکیوں کو تعلیم سے روکنے کی جو گھناو¿نی حرکتیں کرناٹک حکومت نے کی ہے، اس سے تو یہ صاف ظاہر ہوگیا کہ اب وہاں فرقہ پر ستی کو مزید بڑھاوا دینے کی کوشش ہر سطح پر ہورہی ہے۔ اب ٹیپو سلطان کے تعلق سے ریاست کے بی جے پی سربراہ نے جو یاوہ گوئی کی ہے یہ بھی اس بات کا اشارہ ہے کہ اب آنے والے الیکشن میں ٹیپو سلطان ہی انتخابی موضوع ہو گا ۔ ایک محب وطن حکمران کی شخصیت اور ا س کے کارناموں پر پانی پھیر کر بی جے پی دوبارہ راج کرنا چاہتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بی جے پی قائدین اپنے رائے دہندں کو بتاتے کہ اپنے چار سالہ دور حکمرانی میں انہوں نے عوامی بھلائی کے کیا کام کئے۔ ریاست کی ترقی کے لئے کیا ٹھوس اقدامات کئے گئے۔ بی جے پی کی کرناٹک میں جڑ یں مضبوط ہونے سے پہلے یہ ریاست اور خاص طور کرناٹک کا صدر مقام بنگلور انفارمیشن ٹکنالوجی میں پورے ملک میں انفرادی حیثیت رکھتا تھا۔ آئی ٹی کی بین الاقوامی کمپنیوں نے بنگلور کو اپنا مرکز بنایا تھا۔، لیکن آج صورت حال بالکل مختلف ہے۔ کوئی ملٹی نیشنل کمپنی بنگلور کا رخ کرنے تیار نہیں ہے۔ حیدرآباد نے بنگلورو کی جگہ لے لی ہے۔ نام نہاد قوم پر ستی کے نعرے لگانے سے کوئی علاقہ ترقی نہیں کر تا اور نہ اس سے عوام کے مسائل ہو تے ہیں۔ کسی بھی معاملہ میں کٹر پسندی سے لوگوں کو ڈرایا اور دھمکایا جا سکتا ہے لیکن خوف اور دہشت کا یہ ماحول ملک کو ترقی کی راہوں پر نہیں لے جایا جاسکتا ہے۔ بی جے پی کو جہاں جہاں اقتدار حاصل ہے وہاں وہ اپنے زہریلے نظریات کو عوام پر مسلط کرنے کے لیے دھونس دھاندلی سے بھی کام لے رہی ہے۔ یہ تنگ نظری کا رویہ زیادہ دن نہیں چل سکتا۔ کرناٹک میں ہر تھوڑے دن کے بعد کوئی نہ کوئی نزاعی موضوع کو چھیڑ کر وہاں کے عوام میں مسلمانوں کے تئیں نفرت و عناد پیدا کرنے کی جو کوشش ہو رہی ہے، اس سے ریاست میں افراتفری کا ماحول بڑھ رہا ہے۔ دوسو سال گزرجانے کے باوجود بھی کرناٹک کے عوام کے دلوں میں ٹیپو سلطان کے لیے محبت کے جذبات پائے جا تے ہیں۔ بلا لحاظ مذہب و ذات ہر ایک ٹیپو سے عقیدت رکھتا ہے۔ بی جے پی اپنے سیاسی عزائم کے لیے تاریخ کی ایک عظیم شخصیت کے ساتھ کھلواڑ کرتی ہے تو کرناٹک کے عوام اسے برداشت نہیں کریں گے۔ اس حقیقت کو بی جے پی قائدین نظر انداز نہ کریں۔ کرناٹک میں فرقہ واریت کا یہ کارڈ بی جے پی آخر کیوں کھیل رہی ہے۔ اس کا صا ف اور واضح جواب یہی ہو سکتا ہے کہ بی جے پی حکومت عوام کے سامنے اپنی چار سالہ کارکردگی پیش کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ رائے دہندوں نے اس بھروسے کے ساتھ بی جے پی کوووٹ دیا تھا کہ وہ جنوبی ہند کی ریاست کو مختلف شعبوں میں ترقی دے گی ،لیکن پانچ سال بعد بھی پلٹ کر دیکھا جا تا ہے تو یہ تلخ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ کرناٹک ترقی کے بجائے تنزلی کا شکار ہو گیا۔ ریاست کئی محاذوں میں دوسری ریاستوں سے پیچھے ہوگئی۔ ابھی بھی بی جے پی کے پاس کوئی مثبت ایجنڈا نہیں ہے۔ اس لیے پھر سے اقتدار پر قبضہ کے لیے یہ سارے شوشے چھوڑے جا رہے ہیں۔ ریاست کے بی جے پی صدر نے جہاں ٹیپو سلطان کے خلاف زہر افشانی کرکے ہندو اکثریت کو اپنا ہمنوا بنانے کی مذموم حرکت کی، وہیں سری رام سینا کے سربراہ پرمود متالک نے تین دن پہلے ہندو نوجوانوں کو ورغلاتے ہوئے کہا کہ” اگر ہم ” لو جہاد "کے ذریعہ ایک ہندو لڑکی کو کھوتے ہیں تو تم دس مسلم لڑکیوں کو پھنساو¿۔ تمہارے روزگار اور تحفظ کی گیارنٹی ہم دیتے ہیں۔” پرمود متالک نے کرناٹک کے باگل کوٹ میں ایک جلسہ میں یہ باتیں کہی ہیں لیکن ان کے خلاف پولیس کوئی کیس درج نہیں کر تی ہے۔پرمود متالک اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ مسلمانوں کے خلاف زہر اُگلتے رہے ۔ وہ کرناٹک اسمبلی انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لینے والے ہیں اور وہ بی جے پی کے تائیدی امیدوار بن سکتے ہیں۔ اس لیے انہیں بی جے پی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی آ رہی ہے۔ "لو جہاد "کے نظریہ کو عدالتوں نے بھی مسترد کر دیا ہے۔ بین مذاہب شادیوں کو لو جہاد کا نام دے کر اسلام کو بدنام کرنے کوشش کی جا رہی ہے۔ فسطائی طاقتیں ایسے کوئی اعداد و شمار نہیں پیش کر سکتیں کہ اتنے سال میں اتنے مسلمانوں نے اتنی غیر مسلم لڑ کیوں سے شادی کی ہے۔ ایک بے بنیاد اور خیالی نظریہ گھڑ کر مسلمانوں کو موردالزام قرار دینے کی کوشش بر سوں سے جاری ہے۔ اسی اثنا ءمیں یوگا گرو بھی میدان میں کود پڑے۔ انہوں نے گوا حکومت کے ایک پروگرام میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اکبر، بابر اور اورنگ زیب ہمارے ہیروز نہیں ہیں۔ مسلمانوں نے کب اصرار کیا کہ ان بادشاہوں کو ہیرو مانا جائے۔ راجپوتوں نے اکبر کواپنا ہیرو مانا ہے اور اس سے اپنے ازواجی تعلقات بھی قائم کئے۔ مسلمانوں کے لئے یہ تینو ں محض ایک بادشاہ کی حیثیت سے تسلیم کئے گئے۔ اسلام نے خود ہیروازم کی تائید نہیں کی ہے۔ شخصیت پر ستی کا اسلام ہمیشہ سے مخالف رہا۔ اب یہ کہنا کہ اکبر، بابر اور اورنگ زیب ہمارے ہیروز نہیں ہیں تو پھر لال قلعہ ، تاج محل اور قطب مینار دیکھنے جو سیاح آ تے ہیں وہ کن کے اسلاف کی یادگاریں ہیں۔ رام دیو نے کہا کہ چھتر پتی شیوا جی مہارج سوپر ہیرو ہیں۔ اگر وہ تاریخ کو پڑھیں گے تو معلوم ہو گا کہ شیواجی کی فوج کا سپہ سالار مسلمان تھا۔ مسلمانوں نے کبھی شیوا جی کی خدمات سے انکار نہیں کیا۔ لیکن آج ہندوتوا طاقتیں شیواجی کو صرف اپنا بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ اسی دوران وشوا ہندو پریشد کے سابق لیڈر پروین توگڑیہ نے یہ بیان داغ دیا کہ بھارت پہلے سے ہندو راشٹر ہے اورہم اسے ہندو پولیٹکل اسٹیٹ بنائیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہندو اکثریتی ملک ہے اور ہم نہیں چاہیں گے کہیں بھی ہندو خود کو غیر محفوظ سمجھیں۔ چھتیس گڑھ کے دارالحکومت رائے پور میں میڈیا سے بات چیت کر تے ہوئے توگڑیہ نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی بڑھتی آبادی پرکنٹرول کے لیے قانون سازی کی جائے ورنہ بڑھتی آبادی کا ٹائم بم پھٹا تو ملک میں خانہ جنگی ہوجائے گی۔حالات کے اس تناظر میں ان سارے بیانات کا جائزہ لیتے ہوئے کرناٹک کے مسلمانوں کو اپنی سیاسی حکمت عملی ترتیب دینی ہو گی ورنہ بی جے پی اپنے کھیل میں کا میاب ہوجائے گی۔
٭٭٭

a3w
a3w