نریندر ناگر
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب بنارس کی گیانواپی مسجد میں اے ایس آئی کے سائنسی سروے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ وہ چلتا رہے گا۔ عدالت کے مطابق مسلم فریق کا یہ خدشہ کہ سروے کا نتیجہ ان کے خلاف جائے گا بے بنیاد ہے۔ یہ ان کے حق میں بھی جا سکتا ہے اور ان کے اپنے موقف کو مضبوط کر سکتا ہے۔ پہلی نظر میں سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے لیکن اگر اس سروے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں سوچیں تو یہ 1992 میں ایودھیا میں کار سیوا کی اجازت دینے کے بعد جو کچھ ہوا تھا اس سے بہت ملتا جلتا ہو سکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے انجینئر اپنے سائنسی سروے کے دوران گیانواپی مسجد کو منہدم کردیں گے۔ فی الحال اس کا کوئی خدشہ نہیں ہے کیونکہ انہیں مسجد پر کیل بھی ٹھونکنے کی اجازت نہیں ہے۔ حالانکہ ضلع جج نے اس کی اجازت دی تھی، پہلے ہائی کورٹ اور اب سپریم کورٹ نے صاف کہہ دیا ہے کہ مسجد میں کوئی کھدائی نہیں کی جائے گی۔ درحقیقت ہندو یا ہندوتوا کی سیاست کرنے والوں کو فی الحال مسجد کو گرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ کام بعد میں بھی ہو سکتا ہے۔ ابھی تک، ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ عبادت گاہیں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کی رکاوٹ کے باوجود، کس طرح یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ کاشی (اور متھرا میں بھی) جہاں مندروں کے قریب مسجدیں کھڑی ہیں، وہاں پہلے مندر موجود تھے اور یہ مسجدیں انہیں گرا کر بنائی گئی ہیں۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991 کے مطابق آج کی تاریخ میں ملک میں کسی بھی مذہبی مقام کے ”کردار“ کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا چاہے اسے کسی اور مذہبی مقام کو گرا کر بنایا گیا ہو۔ اس قانون کے مطابق کسی مذہبی مقام کے کردار کو ماپنے کا پیمانہ یہ ہے کہ 15 اگست 1947 کو اس مذہبی مقام کا کردار کیا تھا۔ اگر اس دن مسجد تھی تو اسے کسی بھی حالت میں مندر میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور اگر وہ مندر تھا تو اسے مسجد میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ ایودھیا معاملہ کو اس سے باہر رکھا گیا کیونکہ یہ زیر سماعت تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے تمام مذہبی مقامات اس قانون کے تحت آئے۔ سادہ لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اے ایس آئی کے سروے میں یہ معلوم بھی ہو جائے کہ جس زمین پر یہ مسجد بنائی گئی ہے، اس کے نیچے ہندو دیوی دیوتاو¿ں کی مورتیاں ہیں یا ٹوٹے ہوئے ستون ہیں جن پر ہندو دیوی دیوتاو¿ں کی تصویریں ہیں۔ اس مسجد کو قانونی طور پر مندر میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب مسجد کو مندر نہیں بنایا جا سکتا تو پھر ہندو فریق اس معاملے پر عدالت میں کیوں گیا؟ وارانسی کی عدالتوں میں اس معاملے پر آٹھ آٹھ کیس کیوں چل رہے ہیں؟ (کل ایک اور درخواست دائر کی گئی ہے کہ مسجد میں مسلمانوں کے داخلے کو روکا جائے کیونکہ مسلمان اس میں موجود ہندو علامتوں کو ہٹا سکتے ہیں۔) سوال یہ ہے کہ جب عبادت گاہوں کے قانون 1991 کے تحت مسجد کو مندر میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو پھر ایک عرضی گزار یہ کیوں کہہ رہا ہے کہ مسجد کے احاطے میں بھگوان وشویشور کی مورتی بیٹھی ہے؟ دوسرے درخواست گزار کس بنیاد پر مسجد کی بیرونی دیوار پر ہندو دیوتاو¿ں کی موجودگی کا دعویٰ کر رہے ہیں اور وہاں سال بھر عبادت کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں؟ جب عبادت گاہ کے قانون کے تحت مسجد کے کردار کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو (دلیل کی خاطر یہ فرض کر لیں کہ) مسجد کے اندر شیو کی مورتی ہے یا مسجد کے باہر کسی دیوتا کی مورتی ہے، تب بھی۔ ان سب درخواستوں سے کیا حاصل ہوگا؟ مسلم فریق شروع سے یہی دلیل دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت پلیس آف ورشپ ایکٹ 1991 کی وجہ سے نہیں ہو سکتی لیکن وارانسی کی عدالتوں کے مطابق یہ قانون ان درخواستوں کی سماعت کے راستے میں نہیں آتا۔ ایک عدالت نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ گیانواپی مسجد کا مذہبی کردار ہی ”مشکوک“ ہے اور اس لیے ان درخواستوں پر سماعت کی جا سکتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس عدالت کے مطابق یہ طے نہیں ہے کہ 15 اگست 1947 کو یہ مسجد تھی۔ اگر اس وقت وہاں پوجا ہوتی تھی تو اسے مندر بھی کہا جا سکتا ہے۔ اس لیے اس کے کردار کو بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ ایک نیا زاویہ ہے جو بالکل ویسا ہی ہے جو ایودھیا کیس میں استعمال کیا گیا تھا۔ ایک رات بت مسجد کے اندر رکھے گئے اور بعد میں اسے مسجد سے متنازعہ ڈھانچے میں تبدیل کر دیا گیا۔ فی الحال یہ معاملہ سپریم کورٹ کے سامنے بھی ہے کہ کیا عبادت گاہ سے متعلق قانون کے باوجود کسی بھی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے کہ فلاں فلاں مسجد میں ہندو مورتیاں ہیں اور اس لیے اسے مندر سمجھتے ہوئے (اس کا کردار تبدیل کرکے) اسے ہندوو¿ں کے حوالے کر دیا جائے؟ کیا کوئی فریق اس قانون کے باوجود مسجد کے اندر یا باہر کسی بھی بنیاد پر پوجا کی اجازت مانگ سکتا ہے؟ ہمیں نہیں معلوم کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر کیا کہے گی، لیکن سروے کی اجازت دے کر سپریم کورٹ نے بالواسطہ طور پر تسلیم کر لیا ہے کہ یہ قانون کسی کو یہ جاننے سے نہیں روکتا کہ کبھی کسی عبادت گاہ کے نیچے مندر تھا یا نہیں۔ عدالت نے ابھی تک اس فیصلے کے مزید نتائج کے بارے میں سوچنا مناسب نہیں سمجھا۔ عدالت اس سروے کے نتائج کو لے کر زیادہ اندیشہ مند نہیں ہے، جس کی عکاسی اس کی رائے سے بھی ہوتی ہے کہ مسلم فریق کو اس سروے سے پریشان نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ”اگر مستقبل میں ان درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے پر سماعت کے دوران فیصلہ ان کے حق میں آیا (جس کے بعد یہ تمام کیسز منسوخ ہو جاتے ہیں) پھر اے ایس آئی کے سروے میں جو بھی نتیجہ نکلے، اس کی حیثیت صرف کاغذ کا ٹکڑا ہو گی۔“ کیا واقعی؟ جو لوگ اس ملک کے موجودہ مذہبی سیاسی ماحول کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر سروے میں یہ معمولی سا اشارہ بھی ملتا ہے کہ مسجد کے نیچے ہندو مورتیاں ہیں تو پھر بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندو تنظیمیں آگے کیا کریں گی۔ یاد رہے کہ یہ الیکشن کا سال بھی ہے۔ اور اسی لیے ایک شک یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سپریم کورٹ جو آج کہہ رہی ہے کہ سروے ہونے دو، کیا وہ اپنی 1992 کی غلطی کو دہرا رہی ہے؟