مانچسٹر میں چینی قونصل خانے پر مظاہرین کی پٹائی

واقعے کے بعد باب نامی ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ چین کے لوگ قونصل خانے سے باہر آئے تھے اور ان کے پوسٹرز کو تباہ کر دیا اور جب ہم نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے گھسیٹ کر اندر لے گئے اور میری پٹائی کی۔

لندن: چینی صدر شی جن پنگ کی توہین آمیز تصویر دکھانے کے الزام میں ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز مظاہرین کو مانچسٹر میں چینی قونصل خانے میں مبینہ طور پر بے دردی سے زدوکوب کیا گیا۔

یہ اطلاع پیر کو بی بی سی نے دی۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی وزارت خارجہ نے واقعے پر فوری وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔ گریٹر مانچسٹر پولیس نے تفتیش شروع کر دی ہے۔

مظاہرین نے بی بی سی کو بتایا کہ ’’وہ مجھے اندر لے گئے اور مارا پیٹا گیا‘‘۔

قونصل خانے کے ترجمان نے بتایا کہ مظاہرین نے چینی صدر کی قابل اعتراض تصویر کا مظاہر کیا تھا۔

واقعے کے بعد باب نامی ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ چین کے لوگ قونصل خانے سے باہر آئے تھے اور ان کے پوسٹرز کو تباہ کر دیا اور جب ہم نے انہیں روکنے کی کوشش کی تو وہ مجھے گھسیٹ کر اندر لے گئے اور میری پٹائی کی۔

بی بی سی کے مطابق قونصل خانے کے عملے نے مظاہرین سے کہا کہ وہ سڑک کی مخالف سمت چلے جائیں۔

احتجاج کے دوران دو پولیس اہلکار موجود تھے، لیکن تنازع کے چند منٹ بعد کئی اور پولیس اہلکار وہاں پہنچ گئے۔ وہ کمپلیکس کے گیٹ پر جمع ہوئے اور مظاہرے کو ختم کرنے اور مظاہرین کو واپس بھیجنے کی کوشش کی۔

ایک پولیس افسر قونصل خانے کے اندر گیا اور اس شخص کو باہر نکالا جسے اندر گھسیٹ لیا گیا تھا۔

قونصل خانہ برطانیہ میں ہے لیکن وہاں ان کی اجازت کے بغیر کوئی داخل نہیں ہو سکتا۔ سفارتی احاطے میں ہونے والا کوئی بھی جرم برطانوی قانون کے تابع ہے، لیکن ملازمین کو سفارتی استثنیٰ حاصل ہے۔

کنزرویٹو پارٹی کے سابق لیڈڑ ایان ڈنکن اسمتھ نے ٹوئٹر پر کہا کہ برطانیہ کی حکومت چینی سفیر سے معافی مانگے اور ملوث افراد کو واپس چین بھیجے۔ بیجنگ میں کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس شروع ہوتے ہی مظاہرین نے مظاہرے شروع کر دیے۔

چینی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ انہوں نے ہانگ کانگ میں صورتحال کو انارکی سے حکومت کی طرف لانے کا کام کیا ہے۔

قونصل خانے کے ترجمان نے بتایا کہ مظاہرین نے مرکزی دروازے پر چینی صدر کی توہین آمیز تصویر لگا رکھی تھی۔ یہ کسی بھی ملک کے سفارتی اور قونصلر مشن کے لیے ناقابل برداشت اور ناقابل قبول ہے اور ہم اس کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ گریٹر مانچسٹر پولیس کو اس واقعے کی اطلاع تھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button