سیاستمضامین

گنڈبل کا دل خراش حادثہ۔ کہاں ڈھونڈیئے گا وہ معصوم چہرے

ش۔م۔احمد (کشمیر)

جہلم کشمیر کی شان بھی ہے اور قابل صد افتخار شناخت بھی ۔ صدیوں سے لے کر آج تک یہ کشمیر میںبہت سارےتاریخی واقعات کا عینی شاہد ہی نہیں رہا بلکہ کشمیر یوں کو درپیش المیوں اور آفتوں کا چشم دید گواہ بھی بنا۔ بے شک پچھلے کئی سال سے یہاںنامساعد حالات میں ٹھہراؤ آنے کے سبب یہ دریا اب سکون وسکوت کے ساتھ کچھ اس ادا سے رواں دواں نظر آرہاتھاجیسے اس نے بر ہا برس ہا کے ناگفتہ بہ واقعات کو فراموشی کے بستہ میں ڈال دیا ہو ۔ افسوس صد افسوس۱۶؍ اپریل کی صبح کو جہلم اپنا ساراسکوت ِ لب توڑکر پھر ایک بار ایک ناقابل برداشت المیے کا عینی گواہ بن گیا۔ شاید اس روز کارخانہ ٔ قدرت نے دوبارہ ’’ویتھ ‘‘کو بے رحم واقعات کی کج ادائی کاشاہد عادل بنانے کی ٹھان لی تھی‘ ورنہ اسےپار کر نے والی ایک ناؤ خلاف ِ معمول حادثاتی طور اُلٹ کر ایک ناقابل برداشت انسانی المیے کا محرک کیونکر بنتی اور کس وجہ سے چشم زدن میں کئی ایک انسانی جانوں کے اتلاف کی جان لیوا کہانی آہوں اور اشکوں کی زبانی رقم کرجاتی؟ یہ غم ناک واقعہ سری نگر کے قلب میں ہائی سیکورٹی زون بٹہ وارہ کے قرب وجوارمیں پیش آیا۔ کئی دن سے بٹہ وارہ ٹریجڈی نہ صرف میڈیا میں شہ سرخی بنی ہوئی ہے بلکہ ابھی تک کیمرے اور قلم پیش آمدہ المیہ کی معلومات ناظرین وقارئین تک پہنچانے میں مسلسل متحرک نظر آرہے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق بٹہ وارہ کے عقب میں بہہ رہے جہلم کے دوسرے کنارے گنڈبل سویہ بگ نامی بستی واقع ہے۔ ۱۶؍ اپریل کو سویرے سویرے یہاں حسب ِدستورسواریوں سے بھری پُری ایک ناؤ دریا پار کررہی تھی جواپنی منزل مقصود پر پہنچنے سے پہلے ہی یہ یک بہ یک اُلٹ گئی۔ عینی شاہدین کا دعویٰ ہے کہ ناؤ ٹوٹ گئی تھی ۔ معاملہ جو بھی ہو بہرحال حادثے کی شکار ناؤ میں سوار کئی معصو م اسکولی بچوں سمیت بعض دوسرےلوگ موقع پر ہی موت کی آغوش میں ابدی نیند سوگئے۔ چند گنے چنے خوش قسمت ناؤسوار مشاق تیراک ہونے کی وجہ سے بچ بھی گئے۔ انہوں نے جہلم کی تیز طرار موجوں کےبہاؤ کا مقابلہ کرتے ہوئے جوںتوں اپنی جانیں بچالیں، کچھ ایک نفوس کو مبینہ طوربٹہ وارہ کے باسیوں نے ڈوب مرنے سے بچالیا۔ حادثے میںبچنے والوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ ان میں سے کچھ تادم تحریر ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ابھی تک کئی لاشیں برآمد کی جاچکی ہیں اور ڈوب کر جاں بحق ہونے والے دوسرے لاشوں کو جہلم کا سینہ کھنگال کر ابھی تک تلاش کیا جارہاہے۔ کئی ایک ہلاک شدہ گان کو اب تک سپرد خاک بھی کیا جاچکاہے ۔یہ روح فرسا حادثہ جونہی وقوع پذیر ہوا تو اس کا چرچا چند ہی منٹوں کے وقفے سے روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر آناًفاناً ہو ا۔ خبر جانکاہ تھی، حادثہ جگرسوزتھا ، تفصیلات جان لیوا تھیں‘ خاص کر ڈوبنے والے بچوں کے اسکولی بستوںکی تصاویر ‘ ایک ہی گھرانے سے بیک وقت دودو جنازے اُٹھائے جانے والےمناظر اور جواں سال باپ سمیت اس کے دو کم عمر بچوں کی لاشوں کی تلاش جیسی افسردہ کر نےوالی خبریں جوں جوں منظر عام پر آتی گئیں پورا کشمیر غم واندوہ کے عالم میں کف ِ افسوس ملتا گیا اور سوگواری کے ماتم میں ڈوبتا ہی چلا گیا۔
لوگوں کےدردوغم میں شریک ہوتے ہوئے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا سے لے کر انتظامی مشنری، سیاسی قائدین ، سماجی انجمنیں، تاجر برادری ، مذہبی رہنما، عوامی حلقے اور مقتدر شخصیات اس صدمہ خیز حادثے پر دُکھ اور افسوس ظاہر کرنے میں پیش پیش رہیں ۔ سو گوارکنبوں سےہمدردی جتا نے،اُن کی تعزیت پُرسی کرنے، اُن کاغم غلط کرنے کا انسانی فریضہ بخوبی انجام دے گیا ۔ شاید ہی ارض ِ کشمیر کاکو ئی ذِی حس فرد ہوگا جس کا دل دریائے جہلم کی سنگ دل موجوں میں پیش آئے اس ہلاکت خیز واقعے سے نہ پسیج گیا ہو۔ البتہ متاثرہ بستی گنڈ بل سویہ بگ کے رہائشی مردوزن جہاں ایک جانب اپنے عزیز لخت ہائے جگر کی دائمی جدائی پر سینہ کوبیاں کر رہے ہیںاورماتم کناں ہیں، وہاں دوسری جانب یہ لوگ اس بابت سراپا احتجاج ہیں اور اپنے غم وغصہ کا برملا اظہار کررہے ہیں کہ یہاں بستی والوں کو دریا پار کرنے کے لئے کشتی میں سوار ہونے کی نوبت ہی نہ آتی اگر وہ پُل جسے بقول ان کے جائے وقوعہ پر پندرہ بیس سال قبل عبور ومرور کے لئے جہلم کے بیچوں بیچ جزوی طور تعمیر کیا گیا ہے ابھی تک تشنہ ٔ تکمیل نہ ہو تا۔ ان کا جائز شکوہ ہے کہ اگرپُل وقت پر مکمل کیا گیا ہوتا تو بستی کی کہانی آج کچھ اور ہوتی۔ اُمید کی جانی چاہیے کہ عوام کےا س مبنی برحق جائز مطالبے کی جانب موجوہ حکومت ترجیحی بنیادوں پرمتوجہ ہوگی تاکہ آئندہ کوئی ایسا اندوہناک واقعہ پھر سے رونما نہ ہو ۔
میڈیا ئی اطلاعات بتاتی ہیں کہ گنڈبل سویہ بگ کے بہت سارے کم سن اسکولی بچے اور چند دیگر لوگ( اصل تعداد کے بارے میں یہ سطور قلم بند کر نے تک کسی کے پاس ثقہ اعداد وشمار نہیں) صبح صبح اپنے گھروں سے حسب معمول نکل کر دریا پار کرنے کشتی میں سوار ہوئے تھے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ آج جہلم اُنہیں چند ہی ثانیوںتک اپنے سینےپر سوار کر کےسفر آخرت کے لئے روانہ کرنے جارہاہے۔اس روز وادی بھر میں چند دنوں کی موسلا دھار بارشوں کے بعد مطلع صاف تھا، موسم کے تیکھے تیور کچھ سنبھلے ہوئے تھے ، آسمان سے بادل چھٹ چکے تھے، موسم سہانا اور خوش گوار تھا، کھلی دھوپ کی تمازت بھی رفتہ رفتہ بڑھ کر ما بعدعید کی ٹھنڈ کو وداع کررہی تھی، گردونواح کا منظر بھی کافی خوش نما تھا۔ بہر صورت اِدھر ملاح نے کشتی کا رُخ دوسرے کنارے کی طرف کیا ‘ اُدھر بستی کے لوگ اپنے اپنے معمولات ِزندگی میں مشغول تھےکہ دفعتاً بیچ منجدھار میں بدقسمت کشتی یکایک دلدوز المیہ کی نذر ہوکر رہ گئی ۔ خلافِ توقع سواریوں کودوسرے کنارے پر اُترنے کا موقع دینےسے قبل ہی چشم زدن میں سب کچھ اُلٹ گیا ۔ کشتی کیا اُلٹ گئی ، کئی زندگیاں لُٹ گئیں، کئی خانوادوں کے چشم و چراغ چھن گئے، کئی معصوم خوابوں اَرمانوں کا خون ہوا۔ اب ماتم زدہ کنبے خوابوں میں ہی اپنے بچھڑے ہوئے عزیزوں سے زندگی بھر شاید یہی کہتے رہیں گے؎
کبھی وقت ملے تو آجاؤ
ہم جہلم کنارے مل بیٹھیں
تم اپنے سُکھ کی بات کرو
ہم اپنے دُکھ کی بات کریں
سرما میںایک مدت تک سبک رفتار جہلم میں جان گداز واردات سے قبل دو تین دن تک بارشوں کی وجہ سے سطح ِآب بڑھ چکی تھی، گدلےپانی کابہاؤ تیز طرار تھا ،اس بنا پر جونہی ناؤ ناگہانی حادثے سے دوچار ہوئی تو معصوم بچوں سمیت کئی ایک افراد چند ہی سیکنڈوں میں جہلم کی تیز رفتار لہروں میںڈوب کر موت کا جام پی گئے۔ یہ بچے اسکول جارہےتھے یا ٹیوشن لینےکے واسطے پار جارہے تھے ؟ کشتی میں سواریوں کی تعداد گنجائش سے زیادہ تھی ؟ ناؤ بوسیدہ تھی؟ ملاح ناتجربہ کار تھا ؟ ا ن سوالات کے بارے میں فی ا لوقت وثوق سے کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا ، البتہ حادثہ ایک ایسے وقت رونما جب ان بچوں کے ہم جولی ابھی بستیوں میںعید الفطر کی خوشیاں مناتے ہوئے روایتی اچھل کود سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے ، گلی کوچوں میں ابھی پٹاخے پھوڑنے کا شور ہی بپاتھا ، لوگ ابھی ایک دوسرے کے یہاں رسماً عید سلامی کے لئے آجاہی رہے تھے ۔
شاید ہی کوئی دن گزرتاہو جب یہاں مختلف النوع حادثاتی المیوں کی گونج فضائے بسیط کو خوں کے آنسو نہیں رُلاتی ۔ سچ میں بھیانک حادثات آ ئے روزکا قصہ بنے ہوئےہیں۔ جموں سری نگر نیشنل ہائی وے ہو یادیگر شاہراہیں، ان پر وقفے وقفے سےپردل پاش پاش کرنے والے بھیانک سڑک حادثات پیش آکر زندگیوں کے چراغ گل کرجاتے ہیں۔ گزشہ سال ماربڑ گجرات میں انگریزوں کے دور کا تعمیر شدہ ایک معلق پُل(suspension bridge) ٹوٹ گیا اور نیچے تیز بہاؤ والے دریا میں ڈبو کر ایک سوپنتیس انسانوں کو نگل گیا۔ اس طرح کی مثالیں ہر سُو ملتی ہیں جو باور کراتی ہیں کہ ایسی آفتوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ہونی کو کوئی ٹال بھی نہیں سکتا مگر ہر حادثہ اپنے پیچھے زندوں کے لئے ایک اہم پیغام چھوڑ جاتا ہے کہ ہم اُن اسباب پر تھوڑا بہت غور وفکر کریں جو اس کے پس پردہ کارفرما رہے۔ ان اسباب کا ممکنہ حد تک سدباب ہو ‘یہ ذمہ داری نبھانے میں ہمیںکوئی سہل انگاری نہیں کرنی چا ہیے تاکہ ایک توآئندہ ان کا اعادہ روکا جاسکے ، دوسرے سماج میں انسانی زندگی کی قدرروقیمت کسی بھی عنوان سے کم نہ ہو۔ یہاں اس بات کا مختصر تذکرہ موزوں رہے گا کہ گزشتہ سال میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ فیملی وزٹ پر دیارِ مغرب میں تھا۔ سوئے اتفاق سےوہاں اُنہی دنوں دوبچوں والی ایک گوری ماں اپنی دو نوعمر بیٹیوں کو صبح صبح اسکول چھوڑ کر واپس گھر کو مڑگئی مگر پُر اسرار طور پر بیچ میں ہی غائب ہوگئی۔اس کی تلاش میں بشمول مقامی پولیس پوری ایڈمنسٹریشن اور سماجی کارکن رضاکارانہ طور دن رات سرگرداں رہے مگر گم شدہ لیڈی کا کوئی سراغ نہ ملا۔ چونکہ وہاں انسانی زندگی کوئی گئی گزری متاع نہیں ،اس لئے یہ معاملہ پہلے دن سے تمام اخبارات کی صفحہ اول کی شہ سرخیوں میں اُس گھڑی تک چھایا رہا جب تک تلاشی مہم اپنی آخری حدوں کو نہ چھوگئی ۔انگریز لیڈی کا پھر بھی کوئی اتہ پتہ نہ ملا۔ بالآخر اس کی لاش اسکول کے نزدیک ہی واقع ایک نالے سے برآمد ہوئی۔ ایک موقع پر وہاں ملک کے وزیراعظم رشی سوئنک تک سے نامہ نگاروں نے اس گمشدگی کے بارے میں تیکھے سوالات کئے ۔ اگرچہ ماہر غوطہ خوروں نے خاتون کے نالے میں ڈوب جانے کا امکان بسیار تلاش کے بعد رد کیا تھا مگر ایک روزاس کی پھولا ہوا بدن خود بخود نالے کے اوپری سطح پر نمود ار ہوا۔ تلاشی مہم کے دوران کم نصیب لیڈی کی دوبچیوں کی وہ اپیلیں اخبار’’گارجین‘‘ میں پڑھ کر پتہ چلا کہ جس طرح ماں باپ اپنے بچوں کی موت پر اندر ہی اندر خود ٹوٹ جاتے ہیں،اسی طرح ماں باپ کی جدائی پر یتیم ویسیر بچوں بچیوں کا رنج وغم شدید سے شدید تر ہوتا ہے۔خاتون کے دُکھ زدہ گورے شوہر کی بے چینی اوردردوکرب کی اخباری رُودادیں بھی کافی غم انگیز تھیں ۔ یہ سرگزشت یہاں قلم بند کا مقصد یہی ہے کہ ہم سب کو انسانی جان کی محافظت کے لئے کسی تساہل یا سہل انگاری سے کام نہیں لیناچاہیے۔ گنڈبل سویہ بگ کے رنج دہ سانحہ کے بھینٹ چڑھے انسان اب واپس نہیں لوٹ آئیں گے بلکہ سچ پوچھئے تواب یہ ٹریجڈی کچھ ہی دن میں تاریخ کے پنوں میں گم ہوگی اور زندگی پھر سے اپنی بے فکررفتار پکڑے گی مگر ہاں متاثرہ گھرانوں کی سرد آہیں اور ان کے گرم آنسو ہمیشہ سوگواری کی فضا میںاپنا سفر جاری رکھیں گے۔ انسانیت ، حُسن تدبیراور دوراندیشی کا تقاضا ہے کہ اس بستی کو آگے ایسے ناقابل مندمل زخمی حالات وحوادث کا سامنا نہ کرنا پڑے اس کے لئے بقائے حیات کے نقطہ ٔ نظر سے وہاں زیر تعمیر پُل کو فوراً سے پیش تر پایہ ٔ تکمیل تک پہنچایا جائے ؎
چھوڑ کر ہم کو چلے جنت سبھی
پھول چہرو لوٹ آؤ گھر ابھی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰

a3w
a3w