حمید عادل
تحفہ لینا کسے پسند نہیں…کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کو تحفے دیا کروتاکہ باہمی محبت قائم ہوسکے… تحفہ دلوں سے کینہ نکالتا اور خلوص بھرتا ہے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحفے کو حقیر نہ سمجھیں، اگرچہ وہ بکری کا کھر ہی کیوں نہ ہو… تحفے کے قیمتی ہونے نہ ہونے کا انحصار ہمارے اخلاص اور جذبات پر ہے اور یہی خلوص دلوں کو جوڑتا ہے، تحفے کی قیمت نہیں جوڑتی…
کسی گاؤں میں ایک غریب کسان رہتا تھاجو سارا دن اپنے کھیت میں محنت کرتا اس کے پڑوس میں ایک سنارکا گھر تھا،وہ امیر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت لالچی بھی تھا۔ ایک مرتبہ کسان نے اپنے کھیت میں کدوکی فصل اُگائی اور فصل بہت اچھی رہی اور کھیت بڑے بڑے کدوؤں سے بھرگیا ایک کدو تواتنا بڑا ہوگیا کہ اس جیسا کدو پہلے کسی نے نہ دیکھا …کسان بہت خوش ہوا اور سوچا کہ کیوں نہ یہ غیرمعمولی کدو بادشاہ سلامت کو پیش کروں؟ وہ اسے ایک گاڑی میں رکھ کر بادشاہ کے دربار میں لے گیا اور بادشاہ سے عرض کیا:
بادشاہ سلامت! یہ دنیا کا سب سے بڑا کدو ہے اور اسے میں آپ کی نذرکرنا چاہتا ہوں بادشاہ اس بایاب تحفے کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور اس نے وزیرکو حکم دیا کہ اسے کدو کے برابر ہیرے جواہرات دئیے جائیں کسان نے ہیرے جواہرات بیچ کر نیا مکان اور ساز و سامان خرید لیا… سنارکو جب کسان کے دولت مند ہونے کا راز معلوم ہوا تو وہ حسد کی آگ میں جلنے لگا… آخراسے ایک ترکیب سوجھی اس نے سوچا کہ میں بھی اپنے بنائے ہوئے زیورات بادشاہ کے دربار میں پیش کروں گا تو بادشاہ مجھے بہت سارا انعام دے گا…. اس نے زیورات پوٹلی میں باندھ کر بادشاہ کے حضور پیش کیے اور کہا کہ بادشاہ سلامت میرا یہ نذرانہ قبول کریں، بادشاہ نے تحفہ قبول کرکے سوچا اس کو کیا انعام دیا جائے تو اس کی نظردربار میں اچانک غیرمعمولی کدو پر پڑی …بادشاہ نے کہا میرے دربار میں یہ سب سے نایاب کدو ہے میں اس کو تحفے میں دینا پسند کروں گا… سنار یہ بات سن کر سٹ پٹایا اور دھیمی آواز میں شکریہ ادا کرتے ہوئے گھرکی طرف چل دیا اور ذہن میں ایک ہی بات چل رہی تھی چاہا کیا ، کیا ملا ، بادشاہ تیرے پیار میں…
تحفے تولے جاتے ہیں اورنہ بولے جاتے ہیں، تحفوں کے ذریعے تو بس دل کے دروازے کھولے جاتے ہیں… کسی کا دیا ہوا پھول پا کر آدمی پھولے نہیں سماتا تو کسی کاانمول تحفہ بھی بے مول معلوم ہوتا ہے … کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کوتحفہ کے نام پرجو دھوکا دیتے ہیں، وہی دھوکا، تحفہ بن کر ہمارے سامنے آجاتا ہے …
شادی کے دو دن بعد دولہا اس بیوٹی پارلر پر گیا جہاں اس کی بیوی کو دلہن بنایا گیا تھا اور پارلر میڈم کو آئی فون سیون کا ڈبہ بہت خوبصورت پیکنگ میں تحفے کے طورپر دیا … میڈم نے شکریہ ادا کرنے کے بعد خوشی خوشی ڈبہ کھولا تو اندر سے چائنا فون برآمد ہوا اور نیچے ایک پرچی رکھی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا :
same feelings
کسی کو تحفہ دینا بھی کبھی مسئلہ بن جاتا ہے ، سمجھ ہی نہیں آتا کہ بندے کو کیا تحفہ دیں؟ٹھیک ویسے ہی جیسے کبھی کبھی ہم آج سالن کیا پکائیں؟ کے سوال میں الجھ کر رہ جاتے ہیں …فی زمانہ دولت کی ریل پیل نے تحفے دینے کے رجحان کو خوب پروان چڑھایا ہے … معمولی کامیابی پر تک والدین اپنے بچوں کو غیر معمولی تحفے دینے لگے ہیں… چمن بیگ کے بڑے بھائی گارڈن بیگ نے توغضب کردیا ،ان کا لڑکا میٹرک میں فیل ہوگیا اور موصوف نے بچے کو نئی موٹر سائیکل دلا دی … وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’ بچے کا میں ذہن بنا رہا ہوں، میرا ہونہار لڑکا فیل ہونے پر بھی تحفہ پا کریہ سوچنے پر مجبور ہوجائے گا کہ اگر میں پاس ہوجاتا تو مجھے اور بھی بڑا تحفہ ملتا … اور اس طرح وہ پڑھائی کی جانب راغب ہوگا‘‘ اب گارڈن کوکون سمجھائے کہ فیل ہونے پر تحفہ پا کر وہ یہ بھی تو سوچ سکتا ہے کہ جب فیل ہونے پر تحفہ مل رہا ہے تو پھر مجھے پاس ہونے کی ضرورت کیا ہے ؟
حال ہی میں ایک دلچسپ خبر پڑھنے کو ملی کہ ملیشیا کے ایک جوڑے نے اپنی پانچ سالہ بیٹی کو مرسیڈیز گاڑی تحفے میں دے دی تاکہ اس کی حوصلہ افزائی ہو اور اس کا اسکول جانے کادل بھی کرے… سنا ہے کہ پانچ سالہ بیٹی کی والدہ نے اپنی بیٹی کے دل میں اسکول جانے کی چاہ پیدا کرنے کے لیے اس سے پوچھا کہ وہ اپنی سالگرہ پر کیا تحفہ لینا چاہے گی؟ بچی نے کہا وہ یا تو لگژری مرسیڈیزیا بی ایم ڈبلیو لینا چاہتی ہے اور ماں باپ نے بچی کو مرسیڈیز گاڑی تحفے میں دیدی…
مذکورہ واقعے کو پڑھ کرہمیں ہمارا بچپن یاد آگیا ، جب والد محترم نے اپناوعدہ وفا کرتے ہوئے ایس ایس سی میں کامیابی پر ہمیں نئی ہیرو سائیکل دلائی تھی…یہ سائیکل عام سائیکلوں سے چھوٹی اور پرکشش ہوا کرتی تھی اور اس سائیکل پر بیٹھ کر سوار خود کو بلاشبہ ہیرو تصور کرنے لگتا تھا…یہ وہ دور تھا کہ سائیکل کی قدر آج کی کار سے زیادہ تھی… کیوں کہ آج قیمتی قیمتی کاریں گھر کے باہر اپنی قسمت پر ماتم کرتی کھڑی نظر آتی ہیں، جب کہ ماضی میں سائیکل کو گھر کے اندررکھا جاتا تھااور وہ بھی مقفل ، تاکہ گھر کا کوئی بھی فرداس کا بیجا استعمال نہ کرپائے… آج ملیشیا کی اس بچی کو مرسیڈیز پاکر بھی وہ خوشی میسر نہیں ہوئی ہوگی جو مسرت ہمیں کل سائیکل کو پاکر ہوئی تھی۔تبھی توہم سائیکل کودیکھ دیکھ کراکثر گنگنایا کرتے تھے ’’ تمہیں پاکر ہم نے جہاں پا لیا ہے ، زمیں تو زمیں آسماں پا لیا ہے …‘‘
’’ تحفے‘‘ کی بے شمار قسمیں ہیں اورانہیں دینے کے کئی ایک مواقع ہیں… کچھ لوگ میز کے نیچے سے ’’تحفہ‘‘ وصول کرتے ہیں تو کچھ میز کے اوپر سے اور کچھ توانعام کی صورت میں … کچھ الگ نوعیت کے تحفے بھی ہیں جیسے مختلف سواریوں کے سوارٹریفک سگنل توڑ کر حکومت کو تحفہ دیتے ہیں، دوائی بنانے والی کمپنیاں ڈاکٹرس کودیتی ہیں، لمبی چھٹی کے لیے سرکاری ملازم اپنے سینئرس کو دیتے ہیں اور ہوٹل و ریسٹورنٹ والے فوڈ انسپکٹرس کو دیتے ہیں۔ کہیں تحفہ ’’نذرانہ‘‘بھی بن جاتا ہے، جو سیاست اور نام نہاد صحافت کے گدی نشین شکریے کے ساتھ وصولتے ہیں … فی زمانہ نام نہاد صحافت کے گدی نشین، جنہیں ’’گودی میڈیا‘‘ کی اصطلاح سے نوازا گیا ہے، دونوں ہاتھوں سے تحفے لوٹ رہے ہیں … الغرض ہماری سوسائٹی میں بدعنوانی، کمیشن، حصہ ، خرچہ، بخشش،قبضہ، مافیاکی رشوت، دو نمبر ادویات بنانے کے لیے رشوت، ذخیرہ اندوزی کرنے کی رشوت،بھتہ، پارٹی فنڈس کی خردبرد ان تمام برے الفاظ کو آپ پیار سے ’’تحفہ‘‘ کہہ سکتے ہیں… تحفوں کی دنیا میں اس قبیل کے تحفوں کو ’’مٹھائی ‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے …
بات تحفے کی ہو اور 1984ء کی فلم ’’ تحفہ‘‘ کا ذکر نہ ہو، یہ کیسے ہوسکتاہے ،جس کا ٹائٹل سانگ بڑا ہی غضب کا تھا…آج جب ہم اس نغمے کو سنتے ہیں تو مزاح کا پہلو خود بخود نکل آتا ہے …نغمہ تھا ’’پیار کا تحفہ تیرا، بنا ہے جیون میرا،دل کے سہارے میں نے پالیے ،جینے کو اور کیا چاہیے …‘‘اور پھر ہرلفظ کو ایکو انداز میں چار چارباردہرایا جاتا ہے ،جیسے کہ …تحفہ، تحفہ،تحفہ، تحفہ…لایا ، لایا ، لایا، لایا… میرے، میرے، میرے، میرے…دل پہ چھایا، چھایا ، چھایا ، چھایا…جب بھی موڈ خراب ہو،یہ نغمہ ضرور سن لیں، مسکراہٹ کی کچھ نہ کچھ سوغات آپ کے چہرے پر آہی جائے گی…
تحفے چونکہ رشتوں کو مضبوط کرتے ہیں، اس لیے ملکی سطح پر بھی عوامی نمائندگان معزز عہدوں پر فائز ہوکر ایک دوسرے کو تحفے دیا اور لیاکرتے ہیں ، اس لیے کسی بھی جمہوری ملک میں یہ تحفے کسی حکمران کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ یہ خود بخود عوامی ملکیت بن جاتے ہیں…اگر حکمران کوئی تحفہ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے تمام ممالک میں باقاعدہ قوانین موجود ہیں۔ مثلاً ہندوستان میں یہ قانون ہے کہ ’’چونکہ دوسرے ممالک سے ملنے والے تحائف ملک کے لیے ایک اعزازی حیثیت رکھتے ہیں، اس لیے ان تحائف کی قیمت سے زیادہ بولی لگائی جاتی ہے اور فروخت ہونے پر رقم سرکاری خزانے میں جمع کرائی جاتی ہے…امریکہ میں صدر بارک اوباما کے دور تک یہ قانون تھا کہ تحائف کو وہاں کے میوزیم میں رکھوایا جاتا ، تاکہ عوام کو علم ہو کہ کونسا ملک اُن کے ملک کے لیے کتنی چاہت رکھتا ہے، لیکن یہ قانون ڈونلڈ ٹرمپ کے زمانے میں تبدیل ہوگیا اور اب رقم ادا کرکے کسی کی بھی ملکیت میں جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی قسم کا قانون ہے،تحفے حکمرانوں، سرکاری ملازمین اور سیکیورٹی اداروں کے افراد خرید سکتے ہیں اور اگر کوئی تحفہ اس رولنگ اشرافیہ کی خریداری سے رہ جائے یا وہ خریدنا ہی نہ چاہیں تو پھر وہ عوام میں فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے…نواز شریف کے آخری دور میں حکمران تحفے کا صرف 15فیصد ادا کرکے اُسے اپنے پاس رکھ سکتے تھے، یہ قانون 2018میں تبدیل ہوا اور اب قانون یہ ہے کہ کوئی بھی حکمراں تحفے کی کل مالیت کا 50فیصد ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مہاتیر محمد کو اُن کے دور اقتدار میں 1800سے زائد تحائف ملے مگر انہوں نے ایک بھی اپنے پاس نہیں رکھا، مہاتیر محمدنے تحفے لینے سے زیادہ تحفے دینے کا مزاج پایا تھا ،یہ مہاتیر محمد کاقوم کو تحفہ ہی تھا جس نے ملیشیا کو دنیا کی ترقی یافتہ قوم میں بدل دیا… اورایک ہمارے سیاست داں ہیں جو کھلے عام عوام کو دھوکا دے رہے ہیں، جھوٹ پر جھوٹ کہے جارہے ہیں ….
وزیراعظم مودی نے تو حد ہی کردی…کرناٹک کے ایک انتخابی جلسے کو مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگے
’’ بھائیو او ربہنو! جب کورونا کا دور تھا ،میں اس مرض سے بچاو کے لیے کاڑھے کی بات کرتا تھا، ہلدی کی بات کرتا تھاتو کانگریس والے میرا مذاق اڑاتے تھے،وہ میرا مذاق نہیں اڑا رہے تھے ،بلکہ کرناٹک کے مصالحہ پیدا کرنے والے ، ہلدی کی پیدوارا کرنے والے کسانوں کا مذاق اڑارہے تھے…‘‘
اب آپ سوچتے رہ جائیں کہ کورونا کے دور میں کانگریس کی جانب سے ہلدی سے متعلق وزیراعظم کے کہے کا مذاق اڑانا، کرناٹک کے ہلدی پیدا کرنے والے کسانوں کا مذاق اڑانا کیسے بن گیا؟
بی جے پی حکومت عوام کو کچھ دے نہ دے ، فریب کا تحفہ ضرور دیا ہے …بی جے پی پر ہی کیا منحصر ہے ،خاص موقعوں پرہمارے دیے جانے والے تحفوں میں بھی کہیں نہ کہیں مکر نظر آتا ہے …
ہم تحفے میں گھڑیاں تو دے دیتے ہیں
اک دوجے کو وقت نہیں دے پاتے ہیں
فریحہ نقوی
۰۰۰٭٭٭۰۰۰