مضامین

”یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے“

رشید پروین

پچھلے۴۴ دنوں سے اسرائیل فلسطین جنگ جاری ہے، قوت کے لحاظ سے یہ ٹینک اور پیدل نہتے شخص کی جنگ قرار دی جاسکتی ہے اور بظاہر اس کا منطقی انجام بھی صاٖ ف اور واضح نظر آتا ہے،لیکن اللہ کی راہ میں لڑنے اور توکل کرنے والے اللہ کے سپاہیوں کے کارناموں پر کبھی کبھی عقل محو تماشائے لب بام بھی رہ جاتی ہے۔ یہاں ہر دس منٹ بعد ایک بچے کی شہادت ہورہی ہے، اب تک اعداد و شمار کے مطابق پندرہ ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں جن میں بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد بھی ہے، یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ حماس کو گھٹنوں کے بل گرانے کی خاطر اسرائیل اندھا دھند بمبار ی کر رہا ہے جس میں رہائشی بستیاں، ہسپتال اور بازاربھی شامل ہیں، جو ہر دور میں جنگی جرائم قرار دے جا چکے ہیں اور اسرائیلی طریق کار چنگیز اور ہلاکو کی یاد دلاتے ہیں۔ کیا اس طرح کی جنگ اور اس طرح کا وحشیانہ پن اور درندگی قومِ یہود سے پہلی بار سر زد ہورہی ہے؟ قطعاً نہیں۔ اہل یہود کی ڈھائی ہزار برس کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی انہیں قوت اوراقتدار حاصل ہوا ہے انہوں نے اس طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے، انسان اور انسانیت کو بے دریغ قتل کیا ہے،انسانی اقدار اور پیغمبرانہ تعلیمات کی تضحیک اور تحقیر کی ہے، ان کی تاریخ میں یہ بھی درج ہے کہ القدس کے صحن میں پناہ گزین ۷۰۰۰۰ ہزار سے زیادہ مسلموں کا لہو بہایا ہے۔ اور اس قوم کی یہ خاصیت ہے کہ اپنے پیغمبروں کو بھی مختلف اوقات میں بے دردی سے قتل کیا ہے، فلسطین میں اسرائیلی ریاست قائم ہونے کے بعد ۱۹۴۸ سے ہی ان لوگوں نے گریٹر اسرائیل کی تشکیل شروع کی ہے اوریہ ان کے پلان کا حصہ ہے، حماس اسرائیل پر راکٹ حملہ نہیں کرتا، تب بھی یہ جنگ اسی طرح ہونی تھی ۔ا سرائیل کی تاریخ میں رو گردانی اورخود سری ہے اور اسرائیل جب،جو کرنا چاہتا ہے، طاقت کے نشے میں چور کر گزرتا ہے ابھی کس میں یہ ہمت اور قوت ہے کہ انہیں روک سکے، ۱۹۶۷کی جنگ کے دوران ۸ جون کو امریکی بحری جہاز کو بحیرہ روم میں تباہ کر دیا جس میں ۱۳۴ اہل کار ہلاک اور ۱۷۱ جوان زخمی ہوئے تھے لیکن امریکہ، کچھ نہیں کر پایا، نو گیارہ امریکی ٹریڈ سنٹر پر حملہ اور اسے تباہ کرنے کا پلان واضح طور پر انسائڈ جاب تھا جسے صیہونی لابی نے انجام دے کر، افغانستان کے خلاف مورچہ کھولنے میں کامیای حاصل کی بہر حال ایسا ہونا ہے کیوں کہ وقت اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا اور اکثر و بیشتر احادیث سے ثابت ہے کہ یہاں اسرائیل دجالی سر پرستی میں  ایسی حکومت قائم ضرور کریں گے جس کی مدت، چالیس ایام ہوگی، اور حدیث مبارک میں یہ بھی واضح ہے کہ یہ چالیس ایام کس طرح کے ہوں گے۔ حالیہ جنگ میں تمام مسلم ممالک نے اب عملی طور پر مظلوم فلسطینیوں کو بے یارو مدد گار چھوڑا ہے اور ان پر جو ظلم و جبر اور قہر سامانیاں لمحہ بہ لمحہ ڈھائی جارہی ہیں، ان سے کوئی بھی مسلم ملک اور مسلماں بے بہرہ نہیں، لیکن کسی بھی نام نہاد مسلم ملک میں یہ قوت اور ہمت ہی نہیں کہ وہ اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بھی اٹھا سکے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نتن یا ہو جنگی جنون میں مبتلا ہیں اور ان کا خیال ہے کہ یہی موقع ہے کہ حماس اور غزہ پٹی میں مقید تمام آبادی کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے تاکہ اگلے مر حلے کے لیے ان کی راہیں آسان ہو جائیں، نتن یاہو کی وزارتی کونسل کے ایک شخص ’بن گوئر‘کا ایک بیان اس ضمن میں منظر عام پر آیا ہے جس میں اس نے کہا کہ ہم غزہ پٹی ہی کے فلسطینیوں کو نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں بھی فلسطینی ہیں انہیں نیست و نابود کر دیں گے،، اور یہ وہی شخص ہے جسے امریکہ اور خود اسرائیل بھی دہشت گرد قرار دے چکا ہے، لیکن پھر بھی نتن یاہو کی وزارتی کونسل میں موجود ہے،، دوسری طرف سعودی شہر میں عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کے کئی اجلاس ہوئے ہیں، لیکن ان تنظیموں کی اپنی ایک تاریخ اور روایت رہی ہے کہ ”نشستند۔ گفتند، بر خاستند“ اور آج بھی ان کا یہی حال ہوا کہ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے اور کسی بھی معا ملے میں اتفاق نہیں کر سکے،اور نہ کسی معقول بات پر متفق ہوسکے، ظاہر ہے کہ زوال پذیر اقوام کی یہ ایک بہت بڑی نشانی قرار دی جاتی ہے کہ ان سے پہلے تدبر اور پھر اتحاد اور اتفاق چھینا جاتا ہے ، اس کے بر عکس تمام طاغوتی اور الحاد پسند قوتیں، حق و انصاف کے تمام پیمانوں کو کچلتے ہوئے بیک زباں اور عملی میدان میں اسرائیل کے دوش بدوش کھڑی ہیں۔ ظاہر ہے حق بکھرا اور سہما ہوا ہے اور باطل بے خوف، اور طاقت ور ہے،، ایسا کیوں ہے؟، اس کے کئی اسباب ہیں، لیکن سب سے بڑی وجہ یہ کہ ہمارے نام نہاد مسلم ممالک اسرائیل ہی کی چھتر چھایا میں اپنی پناہ گاہیں تلاش کر چکے ہیں۔ عربوں کی نا اتفاقی اور مادی قوتوں کے باوجود اسرائیل کا خوف و ڈر مسلم دنیا پر طاری ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے، کہ دولت کی فراوانی، عیش و عشرت کی خُو اور مغربی دنیاؤں میں آرام اور عیش کوشی نے اس خطے کے مسلمانوں کو، سخت زندگی سے بیزار کر کے تن آساں بنادیا ہے۔ سوئم یہ کہ اسلامی روح اور سپرٹ سے ہم کب کا دامن چھڑا کر ظاہر داری اور بالکل سہل اور آساں دین کو قبولیت بخش چکے ہیں جس میں نہ تو میدان کر بلا ہی سجتے ہیں، نہ تن آسانیوں میں فرق پڑتا ہے اور نہ اللہ کی طرف سے آزمانے کا مسئلہ ہی پیدا ہوتا ہے، کیوں کہ اس صورت میں مسلمان صرف قالینوں پر ایر کنڈیشنڈ کمروں میں پانچ وقت نمازیں ادا کرکے،غسل اور وضو پر بیانات سن کر ہی جنت بھی پا لیتا ہے اور دنیا کی آزمایشیوں سے دامن بچا کے جنت میں مقیم بھی ہوسکتا ہے۔ اسلام اب نہ تو ہماری نگاہوں میں آزمائشوں کا اور نہ ہی قربانیوں کا دین رہا ہے۔ کشمکش اور جدوجہد کا تو تصور ہی نہیں رہا ہے۔ اللہ کی راہ میں ہم کب کے جدو جہد سے اپنا دامن چھڑا چکے ہیں۔ کہاں یہ کہ ”یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے“اور کہاں یہ کہنا کہ حماس نے اسرائیل پر راکٹ حملہ ہی کیوں کیا، جب کہ سر زمین فلسطین کے ذرے ذرے سے فلسطینیوں کا لہو پچھلے ۷۵ برس سے متواتر ٹپک رہا ہے،کبھی مسلمان حکمرانوں کا یہ جاہ جلال اور امت مسلمہ کے لئے محبت کہ راجہ سندھ کے قید خانے میں ایک مسلم خاندان کے قید ہونے کی وجہ سے محمد بن قاسم کی قیادت میں مسلم افوج نے سارے سندھ کو ہی فتح کر ڈالا اور کہاں یہ کہ تمہاری زمین سے تمہیں بے دخل کر کے سینکڑوں یہودی بستیاں بسائی جا چکی ہیں، اور پھر اسی پر بس نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل کا روڈ میپ سامنے ہے جس کی سر حدیں مکہ اور مدینے تک جا پہنچتی ہیں، شتر مرغ کی طرح اپنی آنکھیں بند کرکے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا کہ اب شکاری کو میں نہیں دکھتا۔ عرب امرا اور بادشاہوں نے شاید ان احادیث مبارکہ کا مطالعہ نہیں کیا جن کی روشنی میں صاف اور واضح طور یہ دکھتا ہے کہ ، گریٹر اسرائیل کے خواب کی تعبیر بھی ایک مختصر سی مدت کے لیے اہل یہود کو نظر آئے گی جس کی معاونت یہی ہے کہ عربوں کی بصیرت اور بصارت پر مہر لگ چکی ہے اور وہ غیر دانستہ طور اس سٹیج کو سیٹ کرنے میں معاون ثابت ہورہے ہیں جہاں ایک جعلی مسیح (دجال) کو آنا ہے اور کچھ دنوں یا مہینوں یا برسوں تک حکمرانی کرنی ہے (احادیث کے الفاظ چالیس دن کے ہیں اور پہلا دن ایک برس کے برابر، دوسرا ایک مہینے اور تیسرا ایک ہفتے باقی ایام معمول کے مطابق) اور یہ دجال جعلی مسیح تب تک ظاہر نہیں ہوگا جب تک اسرائیل سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ اور یوروپ پر سبقت نہیں لے جاتا، اس کے لیے لازمی طور پر تمام عرب ممالک کا بھی اس دجالی ریاست کے ساتھ تعاون کوئی محیر ا لعقول بات نہیں ، اسلامی نقطہ نگاہ سے یروشلم کو اس لیے بھی ایک خاص اہمیت حاصل ہے کہ کفر اور اسلام کا حتمی میدان کارزار بھی یہیں گرم ہوگا اور جس کار زار میں سو میں سے نناوے قتل ہوں گے، تو یہ نناوے کیا صرف یہودی ہوں گے؟، نہیں۔ بلکہ یہ وہ لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے اہل یہود کی بصیرت، ان کی طاقت اور ان کی پناہ پر بھروسہ کیا ہوگا۔ دوئم یہ کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو شدید امتحانات سے گزار کر تمام بنی نوع انسانوں کا دینی اور دنیاوی سربراہ یعنی امام مقرر کیا گیا تھا، اسی دین ابرہیمی کو حتمی، آخری ا ور دائمی دین قرار دیا جس کی اصل پیروی رسول پاکﷺ نے کی، ا س لیے اس کا تقا ضاہے کہ یروشلم صرف اور صرف دین ابراہیمی کے لیے ہی خالص رہے گا نہ کہ صیہونیت کے لیے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اختتام وقت اس وقت تک نہیں ہوسکتایا قیامت برپا نہیں ہوسکتی جب تک نہ۔ حق۔ ارض مقدس پر غالب آئے۔ یروشلم ہی ایک ایسی جگہ ہے جہاں سے سچ کی تصدیق ہونی ہے اور یہی منشا الٰہی ہے۔ حضرت ابو ہریرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب ابن مریم تمہارے درمیان حاکم عادل بن کے اتریں گے، وہ صلیب کو توڑ دیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور جزیہ کا خاتمہ کردیں گے پھر دولت کی فراوانی ہوگی اور کوئی خیرات لینے والا نہیں ہو گا۔“ جب بھی قومِ یہود یہاں غالب آئی انہوں نے تاریخ کے سب سے بڑے قتل عام رقم کیے ہیں، فتنہ و فساد پھیلایا ہے، اس سر زمین کے اصل وارثوں پر ظلم و ستم کے پہا ڈ توڑ ے ہیں اور یہی ماضی میں ہوا ہے، یہی آج بھی ہورہا ہے۔ جب یروشلم کو حق اور باطل کی امتحان گاہ بننا پہلے ہی قرار دیا گیا ہے اور یروشلم کی تقدیر یہی لکھی جاچکی ہے،( تو کیا یہ امتحان گاہ ان کے لیے نہیں جو اپنے آپ کو مسلم کہلاتے ہیں؟۔) کیا ان کا امتحان شہادت گاہ یروشلم میں نہیں ہوگا؟ صحراؤں کے باوجود اللہ نے تمام نعمتیں محض اپنے حبیب کے صدقے میں جن کو عطا کی ہیں کیا ان کے ایمانوں کی آزمائش نہیں ہوگی؟یہ لوگ مسلماں ہونا اتنا آساں کیوں سمجھتے ہیں؟

a3w
a3w